Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُيُوۡتًا غَيۡرَ بُيُوۡتِكُمۡ حَتّٰى تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَتُسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَهۡلِهَا ‌ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿27﴾
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو ، یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔
يايها الذين امنوا لا تدخلوا بيوتا غير بيوتكم حتى تستانسوا و تسلموا على اهلها ذلكم خير لكم لعلكم تذكرون
O you who have believed, do not enter houses other than your own houses until you ascertain welcome and greet their inhabitants. That is best for you; perhaps you will be reminded.
Aey eman walo! Apnay gharon kay siwa aur gharon mein na jao jab tak kay ijazat na ley lo aur wahan kay rehney walon ko salam na kerlo yehi tumharay liye sara sir behtar hai takay tum naseehat hasil kero.
اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو ، اور ان میں بسنے والوں کو سلام نہ کرلو ۔ ( ١٥ ) یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے ، امید ہے کہ تم خیال رکھو گے ۔
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو ( ف٤۸ ) اور ان کے ساکنوں پر سلام نہ کرلو ( ف٤۹ ) یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو ،
23 اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھر میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو 24 اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو ، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے ۔ 25
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو ، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو ( داخل ہوتے ہی ) سلام کہا کرو ، یہ تمہارے لئے بہتر ( نصیحت ) ہے تاکہ تم ( اس کی حکمتوں میں ) غور و فکر کرو
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :23 سورے کے آغاز میں جو احکام دیے گئے تھے وہ اس لیے تھے کہ معاشرے میں برائی رو نما ہو جائے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے ۔ اب وہ احکام دیے جارہے ہیں جن کو مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں سرے سے برائیوں کی پیدائش ہی کو روک دیا جائے اور تمدن کے طور طریقوں کی اصلاح کر کے ان اسباب کا سد باب کر دیا جائے جن سے اس طرح کی خرابیاں رونما ہوتی ہیں ۔ ان احکام کا مطالعہ کرنے سے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہییں : اول یہ کہ واقعہ افک پر تبصرہ کرنے کے معاً بعد یہ احکام بیان کرنا صاف طور پر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تشخیص میں زوجہ رسول جیسی بلند شخصیت پر ایک صریح بہتان کا اس طرح معاشرے کے اندر نفوذ کر جانا دراصل ایک شہوانی ماحول کی موجودگی کا نتیجہ تھا ، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شہوانی ماحول کو بدل دینے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف آنا جانا بند کیا جائے ، اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی دید سے اور آزادانہ میل جول سے روکا جائے ، عورتوں کو ایک قریبی حلقے کے سوا غیر محرم رشتہ داروں اور اجنبیوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے سے منع کر دیا جائے ، قحبہ گری کے پیشے کا قطعی انسداد کیا جائے ، مردوں اور عورتوں کو زیادہ دیر تک مجرد نہ رہنے دیا جائے ، اور لونڈی غلاموں تک کے تجرد کا مداوا کیا جائے ۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ عورتوں کی بے پر دگی ، اور معاشرے میں بکثرت لوگوں کا مجرد رہنا ، اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے اجتماعی ماحول میں ایک غیر محسوس شہوانیت ہر وقت ساری و جاری رہتی ہے اور اسی شہوانیت کی بدولت لوگوں کی آنکھیں ، ان کے کان ، ان کی زبانیں ، ان کے دل ، سب کے سب کسی واقعی یا خیالی فتنے ( Scandal ) میں پڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ اس خرابی کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت میں ان احکام سے زیادہ صحیح و مناسب اور مؤثر کوئی دوسری تدبیر نہ تھی ، ورنہ وہ ان کے سوا کچھ دوسرے احکام دیتا ۔ دوسری بات جو اس موقع پر سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی کسی برائی کو محض حرام کر دینے ، یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی ، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کر دینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہوں ، یا اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں ، یا اس پر مجبور کر دیتے ہوں ۔ نیز شریعت جرم کے ساتھ اسباب جرم ، محرکات جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے ، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے ۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پرٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں ۔ وہ صرف محتسب ( Prosecutor ) ہی نہیں ہے بلکہ ہمدرد ، مصلح اور مددگار بھی ہے ، اس لیے وہ تمام تعلیمی ، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :24 اصل میں لفظ : حتّیٰ تستانسوا استعمال ہوا ہے ، جس کو عموماً لوگوں نے حتی تستاذنوا کے معنی میں لے لیا ہے ، لیکن درحقیقت دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے جس کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے ۔ اگر حتّیٰ تستاذنوا فرمایا جاتا تو آیت کے معنی یہ ہوتے کہ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو اس طرز تعبیر کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے حتی تستانسوا کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس مادے سے استیناس کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا ، یا اپنے سے مانوس کرنا ۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کر لو یا ان کا انس معلوم نہ کر لو ، یعنی یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں ہے ، وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر میں داخل ہو ۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اجازت لینے کے بجائے رضا لینے کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :25 جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ : حُیِّیتم صَبَاحاً ، حُیِّیتم مَسَاءً ( صبح بخیر ، شام بخیر ) کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نادیدنی حالت میں نگاہیں پڑ جاتی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو ۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرمائے انہیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں : ۱ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا ، باہر سے نگاہ ڈالنا ، حتی کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے ۔ حضرت ثوبان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ) کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذا دخل البصر فلا اذن ، جب نگاہ داخل ہو گئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا ( ابو داؤد ) ۔ حضرت ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ھٰکذا عنک ، فانما الا ستیذان من النظر ، پرے ہٹ کر کھڑے ہو ، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے ( ابو داؤد ) ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے ، کیونکہ اس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہ لٹکائے جاتے تھے ۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے ( ابو داؤد ) ۔ حضرت انس خادم رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں باہر سے جھانکا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک تیر ہاتھ میں لیے ہوئے تھے ۔ آپ اس کی طرف اس طرح بڑھے جیسے کہ اس کے پیٹ میں بھونک دیں گے ( ابو داؤد ) ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما ینظر فی النار ، جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے ( ابو داؤد ) ۔ صحیحین میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لو ان امرأ اطلع علیک بغیر اذن فخذفتہ بحصارۃ ففقأت علیہ ما کان علیک من جناح ، اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں ۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے : من اطلع دار قومٍ بغیر اذنھم ففقؤا عینہ فقد ھدرت عینہ ، جس نے کسی کے گھر میں جھانکا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو ان پر کچھ مؤاخذہ نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس ارشاد کو بالکل لفظی معنوں میں لیا ہے اور وہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کو جائز رکھتے ہیں ۔ لیکن حنفیہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ حکم محض نگاہ ڈالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جبکہ کوئی شخص گھر میں بلا اجازت گھس آئے اور گھر والوں کے روکنے پر وہ باز نہ آئے اور گھر والے اس کی مزاحمت کریں ۔ اس کشمکش اور مزاحمت میں اس کی آنکھ پھوٹ جائے یا کوئی اور عضو ٹوٹ جائے تو گھر والوں پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا ( احکام القرآن جصاص ۔ ج3 ۔ ص 385 ) ۔ ۲ : فقہاء نے نگاہ ہی کے حکم میں سماعت کو بھی شامل کیا ہے ۔ مثلاً اندھا آدمی اگر بلا اجازت آئے تو اس کی نگاہ نہ پڑے گی ، مگر اس کے کان تو گھر والوں کی باتیں بلا اجازت سنیں گے ۔ یہ چیز بھی نظر ہی کی طرح تخلیہ کے حق میں بے جا مداخلت ہے ۔ ۳ : اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں بہنوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی ہے ۔ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے ، کیا ہر بار جب میں اس کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں ؟ فرمایا : اتحب ان تراھا عریانۃ ، کیا تو پسند کرتا ہے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھے ؟ ( ابن جریر عن عطاء بن یسار مرسلاً ) ۔ بلکہ ابن مسعود تو کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے بھی آدمی کو کم از کم کھنکار دینا چاہیے ۔ ان کی بیوی زینب کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب کبھی گھر میں آنے لگتے تو پہلے کوئی ایسی آواز کر دیتے تھے جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ آ رہے ہیں ۔ وہ اسے پسند نہ کرتے تھے کہ اچانک گھر میں آن کھڑے ہوں ( ابن جریر ) ۔ ٤ : اجازت طلب کرنے کے حکم سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آ جائے ، مثلاً آگ لگ جائے یا چور گھس آئے ۔ ایسے مواقع پر مدد کے لیے بلا اجازت جا سکتے ہیں ۔ ۵ : اول اول جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے ۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آیا اور دروازے پر سے پکار کر کہنے لگا :أ ألج ( کیا میں گھر میں گھس آؤں؟ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا ۔ ذرا اٹھ کر اسے بتا کہ یوں کہنا چاہیے : السلام علیکم أ أدخل ( ابن جریر ۔ ابو داؤد ) ۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹ کھٹایا ۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا میں ہوں ۔ آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا: میں ہوں ؟ میں ہوں ؟ یعنی اس میں ہوں سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو ( ابو داؤد ) ۔ ایک صاحب کَلَدَہ بن حَنبل ایک کام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گئے اور سلام کے بغیر یونہی جا بیٹھے ۔ آپ نے فرمایا باہر جاؤ ، اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ ( ابو داؤد ) ۔ استیذان کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے السلام علیہ یا رسول اللہ ، ایدخل عمر ( ابو داؤد ) ۔ اجازت لینے کے لیے حضور نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کر دی اور فرمایا اگر تیسری مرتبہ پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس ہو جاؤ ( بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ) ۔ یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا طریقہ بھی تھا ۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں گئے اور اسلام علیہ و رحمۃ اللہ کہہ کر دو دفعہ اجازت طلب کی ، مگر اندر سے جواب نہ آیا ۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ واپس ہو گئے ۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ میں آپ کی آواز سن رہا تھا ، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے میرے لیے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے ، اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا ( ابو داؤد ۔ احمد ) ۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے در پے نہ ہونا چاہیے ، بلکہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اگر کوئی مشغولیت جواب دینے میں مانع ہو تو اسے فارغ ہونے کا موقع مل جائے ۔ ٦ : اجازت یا تو خود صاحب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے ، مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد ۔ کوئی چھوٹا سا بچہ کہہ دے کہ آ جاؤ تو اس پر اعتماد کر کے داخل نہ ہو جانا چاہیے ۔ ۷ : اجازت طلب کرنے میں بے جا اصرار کرنا ، یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھڑے ہو جانا جائز نہیں ہے ۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے ، یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے ۔
شرعی آداب شرعی ادب بیان ہو رہا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت مانگو ، جب اجازت ملے ، جاؤ پہلے سلام کرو ، اگر پہلی دفعہ کی اجازت طلبی پر جواب نہ ملے تو پھر اجازت مانگو ۔ تین مرتبہ اجازت چاہو اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اجازت مانگی ۔ فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ اللہ تو کہہ دیا لیکن ایسی آواز سے کہ آپ نہ سنیں ۔ چنانچہ تین بار یہی ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے ۔ آپ جواب دیتے لیکن اس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنیں نہیں ۔ اس کے بعد آپ وہاں سے واپس لوٹ چلے ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے پیچھے لپکے ہوئے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تمام آوازیں میرے کانوں میں پہنچ رہی تھیں ۔ میں نے ہر سلام کا جواب بھی دیا لیکن اس خیال سے کہ آپ کی دعائیں بہت ساری لوں اور زیادہ برکت حاصل کروں کہ جواب اس طرح نہ دیا آپ کو سنائی دے اب آپ چلئے ! تشریف رکھئے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے ۔ انہوں نے آپ کے سامنے کشمش لا کر رکھی آپ نے نوش فرمائیں اور فارغ ہو کر فرمانے لگے تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا ۔ فرشتے تم پر رحمت بھیج رہے ہیں ، تمہارے ہاں روزے داروں نے روزہ کھولا ۔ اور روایت میں ہے کہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آہستہ جواب دیا تو ان کے لڑکے حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ آپ نے فرمایا خاموش رہو دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سلام کہیں گے ، ہمیں دوبارہ آپ کی دعا ملے گی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ یہاں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی ایک چادر پیش کی ، جسے آپ نے جسم مبارک پر لپیٹ لی ، پھر ہاتھ اٹھا کر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعا کی کہ اے اللہ سعد بن عبادہ کی آل پر اپنے درود ورحمت نازل فرما پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں کھانا تناول فرمایا جب واپس جانے کا ارادہ کیا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گدھے پر پالان کس لائے ۔ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لئے پیش کیا اور اپنے لڑکے قیس سے کہا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤ ۔ یہ ساتھ چلے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا قیس آؤ تم بھی سوار ہو جاؤ انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تو یہ نہ ہوسکے گا ۔ آپ نے فرمایا دو باتوں میں سے ایک تمہیں ضرور کرنی ہوگی یا تو میرے ساتھ اس جانور پر سوار ہوجاؤ یا واپس چلے جاؤ حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپس جانا منظور کر لیا ۔ یہ یاد رہے کہ اجازت مانگنے والا گھر کے دروازے کے بالمقابل کھڑا نہ رہے بلکہ دائیں بائیں قدرے کھسک کے کھڑا رہے ۔ کیونکہ ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے ہاں جاتے تو اس کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ ادھر یا ادھر قدرے دور ہو کر زور سے سلام کہتے اس وقت تک دروازوں پر پردے بھی نہیں ہوتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے دروازے کے سامنے ہی کھڑے ہو کر ایک شخص نے اجازت مانگی تو آپ نے اسے تعلیم دی کہ نظر نہ پڑے اسی لیے تو اجازت مقرر کی گئی ہے ۔ پھر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر آواز دینے کے کیا معنی ؟ یا تو ذرا سا ادھر ہو جاؤ یا ادھر ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اگر کوئی تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر جھانکنے لگے اور تو اسے کنکر مارے جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا ۔ حضرت جابر ایک مرتبہ اپنے والد مرحوم کے قرضے کی ادائیگی کے فکر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، دروازہ پر دستک دی تو آپ نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں ہوں ۔ آپ نے فرمایا میں میں گویا آپ نے ناپسند فرمایا کیونکہ میں کہنے سے یہ تو معلوم نہیں ہوسکتاکون ہے جب تک کے نام یا مشہور کنیت نہ بتائی جائے میں تو ہر شخص اپنے لئے کہہ سکتا ہے ۔ پس اجازت طلبی کا اصلی مقصود حاصل نہیں ہو سکتا ۔ استذان استناس ایک ہی بات ہے ۔ ابن عباس فرماتے تھے تستانسوا کاتبوں کی غلطی ہے ۔ تستاذنوا لکھنا چاہئے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہی قرأت تھی اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی ۔ لیکن یہ بہت غریب ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے مصحف میں حتی تسلموا علی اہلہا وتستاذنوا ہے ۔ صفوان بن امیہ جب مسلمان ہوگئے تو ایک مرتبہ کلدہ بن حنبل کو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ آپ اس وقت وادی کے اونچے حصے میں تھے یہ سلام کئے بغیر اور اجازت لئے بغیر ہی آپ کے پاس پہنچ گئے آپ نے فرمایا لوٹ جاؤ ۔ اور کہو السلام علیکم کیا میں آؤں ؟ اور حدیث میں ہے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص آپ کے گھر آیا اور کہنے لگا میں اندر آجاؤں ؟ آپ نے اپنے غلام سے فرمایا جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ پہلے تو سلام کرے پھر دریافت کرے ۔ اس شخص نے یہ سن لیا اور اسی طرح سلام کر کے اجازت چاہی آپ نے اجازت دے دی اور وہ اندر گئے ۔ ایک اور حدیث میں ہے آپ نے اپنی خادمہ سے فرمایا تھا ( ترمذی ) اور حدیث میں ہے کلام سے پہلے سلام ہونا چاہئے ۔ یہ حدیث ضعیف ہے ، ترمذی میں موجود ہے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قضا حاجت سے فارغ ہو کر آرہے تھے لیکن دھوپ کی تاب نہ لا سکے تو ایک قریشی کی جھونپڑی کے پاس پہنچ کر فرمایا السلام علیکم کیا میں اندر آجاؤں اس نے کہا سلامتی سے آجاؤ آپ نے پھر یہی کہا اس نے پھر یہی جواب دیا ۔ آپ کے پاؤں جل رہے تھے کبھی اس قدم پر سہارا لیتے ، کبھی اس قدم پر ، فرمایا یوں کہو کہ آجاؤ ، اب آپ اندر تشریف لے گئے ۔ حضرت عائشہ کے پاس چار عورتیں گئیں ۔ اجازت چاہی کہ کیا ہم آجائیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! تم میں جو اجازت کا طریقہ جانتی ہو اسے کہو کہ وہ اجازت لے ۔ تو ایک عورت نے پہلے سلام کیا ، پھر اجازت مانگی ، حضرت عائشہ نے اجازت دے دی ۔ پھر یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بھی جانا ہو تو ضرور اجازت لے لیا کرو ۔ انصار ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی ایک عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بعض دفعہ گھر میں اس حالت میں ہوتی ہوں کہ اس وقت اگر میرے باپ بھی آجائیں یا میرا اپنا لڑکا بھی اس وقت آجائے تو مجھے برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ حالت ایسی نہیں ہوتی کہ اس وقت کسی کی بھی نگاہ مجھ پر پڑے تو میں ناخوش نہ ہوؤں ۔ اور گھر والوں میں سے کوئی آہی جاتا ہے اس وقت یہ آیت اتری ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ تین آیتیں ہیں کہ لوگوں نے ان پر عمل چھوڑ رکھا ہے ایک تو یہ کہ اللہ فرماتا ہے تم میں سے سب سے زیادہ بزرگی والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہو ۔ اور لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سب سے بڑا وہ ہے جو سب سے زیادہ امیر ہو ۔ اور ادب کی آیتیں بھی لوگ چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔ حضرت عطار حمۃ اللہ علیہ نے پوچھا ۔ میرے گھر میں میری یتیم بہنیں ہیں جو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں اور میں ہی انہیں پالتا ہوں کیا ان کے پاس جانے کے لئے بھی مجھے اجازت کی ضرورت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ضرور اجازت طلب کیا کرو ، میں نے دوبارہ یہی سوال کیا کہ شاید کوئی رخصت کا پہلو نکل آئے آپ نے فرمایا کیا تم انہیں ننگا دیکھنا پسند کروگے ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا پھر ضرور اجازت مانگا کرو ۔ میں نے یہی سوال دوہرایا تو آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کا حکم مانے گا یا نہیں ؟ میں نے کہا ہاں مانوں گا ۔ آپ نے فرمایا پھر بغیر اطلاع ہرگز ان کے پاس بھی نہ جاؤ ۔ حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں محرمات ابدیہ پر ان کی عریانی کی حالت میں نظر پڑجائے اس سے زیادہ برائی میرے نزدیک اور کوئی نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اپنی ماں کے پاس بھی گھر میں بغیر اطلاع کے نہ جاؤ ۔ عطار حمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ بیوی کے پاس بھی بغیر اجازت کے نہ جائے ؟ فرمایا یہاں اجازت کی ضرورت نہیں ۔ یہ قول بھی محمول ہے اس پر کہ اس سے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں لیکن تاہم اطلاع ضرور ہونی چاہئے ممکن ہے وہ اس وقت ایسی حالت میں ہو کہ وہ نہیں چاہتی کہ خاوند بھی اس حالت میں اسے دیکھے ۔ حضرت زینب فرماتی ہیں کہ میرے خاوند حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب میرے پاس گھر میں آتے تو کھنکار کر آتے ۔ کبھی بلند آواز سے دروازے کے باہر کسی سے باتیں کرنے لگتے تاکہ گھر والوں کو آپ کی اطلاع ہوجائے چنانچہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے تستانسوا کے معنی بھی یہی کئے ہیں کہ کھنکار دے یا جوتیوں کی آہٹ سنا دے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ سفر سے رات کے وقت بغیر اطلاع گھر آجانے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ کیونکہ اس سے گویا گھر والوں کی خیانت کا پوشیدہ طور پر ٹٹولنا ہے ۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک سفر سے صبح کے وقت آئے تو حکم دیا کہ بستی کے پاس لوگ اتریں تاکہ مدینے میں خبر مشہور ہوجائے ، شام کو اپنے گھروں میں جانا ۔ اس لئے کہ اس اثناء میں عورتیں اپنی صفائی ستھرائی کرلیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سلام تو ہم جانتے ہیں لیکن استیناس کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ یا الحمد اللہ یا اللہ اکبر بلند آواز سے کہہ دینا یا کھنکار دینا جس سے گھر والے معلوم کرلیں کہ فلاں آرہا ہے حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تین بار کی اجازت اس لئے مقرر ہے کی ہے کہ پہلی دفعہ میں تو گھروالے معلوم کرلیں کہ فلاں ہے ۔ دوسری دفعہ میں وہ سنبھل جائیں اور ہوشیار ہوجائیں ۔ تیسری مرتبہ میں اگر وہ چاہیں اجازت دیں چاہیں منع کردیں ۔ جب اجازت نہ ملے پھر دروازے پر ٹھہرا رہنا برا ہے ، لوگوں کو اپنے کام اور اشغال ایسے ضروری ہوتے ہیں کہ وہ اس وقت اجازت نہیں دے سکتے ۔ مقاتل میں حیان فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں دستور نہ تھا ، ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن سلام نہ کرتے تھے ۔ کسی کے ہاں جاتے تھے تو اجازت نہیں لیتے تھے یونہی جا دھمکے پھر کہہ دیا کہ میں آگیا ہوں ۔ تو بسا اوقات یہ گھر والے پر گراں گزرتا ۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے گھر میں کبھی ایسے حال میں ہوتا ہے کہ اسمیں اس کا آنا بہت برا لگتا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام برے دستور اچھے آداب سکھا کر بدل دئیے ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہی طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اس میں مکان والے کو آنے والے کو دونوں کو راحت ہے ۔ یہ چیزیں تمہاری نصیحت اور خیر خواہی کی ہیں ۔ اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو بے اجازت اندر نہ جاؤ ۔ کیونکہ یہ دوسرے کی ملک میں تصرف کرنا ہے جو ناجائز ہے ۔ مالک مکان کو حق ہے اگر وہ چاہے اجازت دے ، چاہے روک دے ۔ اگر تمہیں کہا جائے ، لوٹ جاؤ تو تمہیں واپس چلا جانا چاہے ۔ اس میں برا ماننے کی بات نہیں بلکہ یہ تو بڑا ہی پیارا طریقہ ہے ۔ بعض مہاجرین رضی اللہ عنہم اجمعین افسوس کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی پوری عمر میں اس وقت آیت پر عمل کرنے کا موقعہ نہیں ملا کہ کوئی ہم سے کہتا لوٹ جاؤ اور ہم اس آیت کے ماتحت وہاں سے واپس ہو جاتے ، اجازت نہ ملنے پر دروازے پر ٹھہرے رہنا بھی منع فرما دیا ۔ اللہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے ۔ یہ آیت اگلی آیت سے مخصوص ہے اس میں ان گھروں میں بلا اجازت جانے کی رخصت ہے جہاں کوئی نہ ہو اور وہاں اس کا کوئی سامان وغیرہ ہو ۔ جیسے کہ مہمان خانہ وغیرہ ۔ یہاں جب پہلی مربتہ اجازت مل گئی پھر ہربار کی اجازت ضروری نہیں ۔ تو گویا یہ آیت پہلی آیت سے استثنا ہے ۔ اسی طرح کی ایسے تاجروں کے گودام مسافر خانے وغیرہ ۔ اور اول بات زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ زید کہتے ہیں مراد اس سے بیت الشعر ہے ۔