Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَقُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنٰتِ يَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِهِنَّ وَيَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَهُنَّ وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَا‌ وَلۡيَـضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوۡبِهِنَّ‌ وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اٰبَآٮِٕهِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اَبۡنَآٮِٕهِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِهِنَّ اَوۡ بَنِىۡۤ اِخۡوَانِهِنَّ اَوۡ بَنِىۡۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوۡ نِسَآٮِٕهِنَّ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيۡنَ غَيۡرِ اُولِى الۡاِرۡبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِيۡنَ لَمۡ يَظۡهَرُوۡا عَلٰى عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ‌ وَلَا يَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِهِنَّ لِيُـعۡلَمَ مَا يُخۡفِيۡنَ مِنۡ زِيۡنَتِهِنَّ‌ ؕ وَتُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِيۡعًا اَيُّهَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‏ ﴿31﴾
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے ، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔
و قل للمؤمنت يغضضن من ابصارهن و يحفظن فروجهن و لا يبدين زينتهن الا ما ظهر منها و ليضربن بخمرهن على جيوبهن و لا يبدين زينتهن الا لبعولتهن او اباىهن او اباء بعولتهن او ابناىهن او ابناء بعولتهن او اخوانهن او بني اخوانهن او بني اخوتهن او نساىهن او ما ملكت ايمانهن او التبعين غير اولي الاربة من الرجال او الطفل الذين لم يظهروا على عورت النساء و لا يضربن بارجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن و توبوا الى الله جميعا ايه المؤمنون لعلكم تفلحون
And tell the believing women to reduce [some] of their vision and guard their private parts and not expose their adornment except that which [necessarily] appears thereof and to wrap [a portion of] their headcovers over their chests and not expose their adornment except to their husbands, their fathers, their husbands' fathers, their sons, their husbands' sons, their brothers, their brothers' sons, their sisters' sons, their women, that which their right hands possess, or those male attendants having no physical desire, or children who are not yet aware of the private aspects of women. And let them not stamp their feet to make known what they conceal of their adornment. And turn to Allah in repentance, all of you, O believers, that you might succeed.
Musalman aurton say kaho kay woh bhi apni nigahen neechi rakhen aur apni ismat mein farq na aaney den aur apni zeenat ko zahir na keren siwaye uss kay hi zahir hai aur apnay girbano per apni orhniyan dalay rahen aur apni aaraeesh ko kissi kay samney zahir na kerensiwaye apnay khawindo kay ya apnay walid kay ya apnay khusar kay ya apnay larkon kay ya apnay khawind kay larkon kay ya apnay bhaiyon kay ya apnay bhatijon kay ya apnay bhanjon kay ya apnay mail jol ki aurton kay ya ghulamon kay ya aisay naukar chaakar mardon kay jo shewat walay na hon ya aisay bachon kay jo aurton kay parday ki baaton kay baray mein mutlaa nahi.aur iss tarah zor zor say paon maar ker na chalen kay unn ki posheeda zeenat maloom ho jaye aey musalmano! Tum sab kay sab Allah ki janab mein toba kero takay tum nijat pao.
اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں ، سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہوجائے ۔ ( ١٨ ) اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں ، اور اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ کریں ، ( ١٩ ) سوائے اپنے شوہروں کے ، یا اپنے باپ ، یا اپنے شوہروں کے باپ کے ، یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے ، یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں ، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے ، یا اپنی عورتوں کے ، ( ٢٠ ) یا ان کے جو اپنے ہاتھوں کی ملکیت میں ہیں ( ٢١ ) یا ان خدمت گذاروں کے جن کے دل میں کوئی ( جنسی ) تقاضا نہیں ہوتا ( ٢٢ ) یا ان بچوں کے جو ابھی عورتوں کے چھپے ہوئے حصوں سے آشنا نہیں ہوئے ( ٢٣ ) اور مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہوجائے ۔ ( ٢٤ ) اور اے مومنو ! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو ، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو ۔
اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں ( ف۵٦ ) اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں ( ف۵۷ ) مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں ، اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ ( ف۵۸ ) یا شوہروں کے باپ ( ف۵۹ ) یا اپنے بیٹوں ( ف٦۰ ) یا شوہروں کے بیٹے ( ف٦۱ ) یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے ( ف٦۲ ) یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں ( ف٦۳ ) یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں ( ف٦٤ ) یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں ( ف٦۵ ) اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگھار ( ف٦٦ ) اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو! سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ ،
اور اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، 31 اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، 32 اور 33 اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں 34 بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے ، 35 اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ 36 وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے 37 : شوہر ، باپ ، شوہروں کے باپ 38 ، اپنے بیٹے ، شوہروں کے بیٹے 39 ، بھائی 40 ، بھائیوں کے بیٹے 41 ، بہنوں کے بیٹے 42 ، اپنے میل جول کی عورتیں 43 ، اپنے مملوک 44 ، وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں 45 ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ 46 وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے ۔ 47 اے مومنو ، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو 48 ، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے ۔ 49
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ ( بھی ) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے ( اسی حصہ ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے ( اور چادریں ) اپنے گریبانوں اور سینوں پر ( بھی ) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو ( کسی پر ) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی ( ہم مذہب ، مسلمان ) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو ( کم سِنی کے باعث ابھی ) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے ( یہ بھی مستثنٰی ہیں ) اور نہ ( چلتے ہوئے ) اپنے پاؤں ( زمین پر اس طرح ) مارا کریں کہ ( پیروں کی جھنکار سے ) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ ( حکمِ شریعت سے ) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں ، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم ( ان احکام پر عمل پیرا ہو کر ) فلاح پا جاؤ
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :30 شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد محض نا جائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے ۔ مرد کے لیے ستر کے حدود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناف سے گھٹنے تک مقرر فرمائے ہیں : عورۃ الرجل ما بین سُرَّتہ الیٰ رکبتہ ، مرد کا ستر اس کی ناف سے گھٹنے تک ہے ( دارقطنی بیہقی ) ۔ اس حصہ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے ۔ حضرت جَرھَدِ اَسْلمی ، جو اصحاب صُفَّہ میں سے ایک بزرگ تھے ، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اما علمت ان الفخذ عورۃ ، کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے کے قابل چیز ہے ؟ ( ترمذی ، ابو داؤد ، مؤطا ) ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تُبرِز ( یا لا تکشف ) فخذک ، اپنی ران کبھی نہ کھولو ۔ ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ) ۔ صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں ، تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے ۔ چنانچہ حضور کا ارشاد ہے : ایاکم ولا تعری فان معکم من لا یفارقکم الا عند الغائط وحین یفضی الرجل الیٰ اھلہ فاستحیوھم و اکرموھم ، خبردار ، کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے ( یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے ) سوائے اس وقات کے جب تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو ، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو ( ترمذی ) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احفظ عورتک الا من زوجتک او ما ملکت یمینک ، اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو ۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا : فاللہ تبارک و تعالیٰ احق ان یستحیا منہ ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے ، ( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :31 عورتوں کے لئے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لئے ہیں ، یعنی انہیں قصدا غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہئے ، نگاہ پڑ جاءے تو ہٹا لینی ثاہئے ، اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہئے ، لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کو مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں ۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا احتجبا منہ ان سے پردہ کرو ، بیویوں نے عرض کیا یا رسول اللہ الیس اعمی لا یبصرنا و لا یعرفنا ، یا رسول اللہ کیا یہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ، فرمایا افعمیا وان انتما ، الستما تبصرانہ ، کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تما نہیں دیکھتیں؟ حضرت ام سلمہ تصریح کرتی ہیں کہ ذلک بعد ان امر بالجاب ، یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آچکا تھا ۔ ( احمد ابو داؤد ، ترمذی ) اور اس کی تائید مؤطا کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک نابینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا ، کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں؟ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا ۔ جواب میں ام المومنین نے فرمایا لکنی انظر الیہ ، میں تو اسے دیکھتی ہوں ۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ ۷ہجری میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبوی کے احاطے میں ایک تماشا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت عائشہ کو یہ تماشا دکھایا ۔ ( بخاری ، مسلم ، احمد ) تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس کو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں ، پہلے حضور نے فرمایا ام شریک انصاریہ کے ہاں رہو ، پھر فرمایا ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں ( کیونکہ وہ ایک بڑی مالدار اور فیاض خاتون تھیں ، بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں ) لہذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو ، وہ اندھے آدمی ہیں ، تم ان کے ہاں بے تکلف رہ سکو گی ( مسلم ، ابوداؤد ) ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے ۔ ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھنا ممنوع ہے ، راستہ چلتے ہوئے یا دور سے کوئی جائز قسم کا کھیل تماشا دیکھتے ہوئے مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے ۔ اور کوءی حقیقی ضرورت پیش آجاءے تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی دیکھنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ امام غزالی اور ابن جر عسقلانی نے بھی روایات سے قریب قریب یہی نتیجہ اخذ کیا ہے ۔ سوکانی نیل الاوطار میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ جوزا کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز ہی پر عمل رہا ہے ۔ مسجدوں میں ، بازاروں میں ، اور سفروں میں عورتیں تو نقاب منہ پر ڈال کر جاتی تھیں کہ مرد ان کو نہ دیکھیں ، مگر مردوں کو کبھی یہ حخم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب اوڑھیں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے ۔ ( جلد ٦ ، صفحہ ۱۰۱ ) تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتیں اطمینان سے مردوں کو گھوریں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :32 یعنی ناجائز شہوت رانی سے بھی پرہیز کریں ، اور اپنا ستر دونوں کے سامنے کھونے سے بھی ، اس معاملے میں عورتوں کے لئے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لئے ہیں ، لیکن عورت کے ستر کے حدود مردوں سے مختلف ہیں ، نیز عورت کا ستر مردوں کے لئے الگ ہے اور عورتوں کے لئے الگ ۔ مردوں کے لئے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد حتی کہ باپ اور بھائی کے سامنے بھی نہ کھلنا چاہئے ، اور عورت کو ایسا باریک یا چست لباس بھی نہ پہننا چاہئے جس سے بدن اندر سے جھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو ۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں ۔ حضور نے فورا منہ پھیر لیا اور فرمایا یا اسماء ان المرأۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا انیری منھا الا ھذا و ھذا و اسار الی وجھہ وکفیہ ، اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے ۔ ( ابوداؤد ) اسی قسم کا ایک اور واقعہ ابن جریر نےحضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ان کے ہاں اکے اخیافی بھائی عبداللہ بن الطفیل کی صاحبزادی آئی ہوئی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاے تو انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا ۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میری بھتیجی ہے ۔ آپ نے فرمایا اذا عرکت المرأۃ لم یحل لھا ان تظھر الا وجھھا و الا مادون ھذا و قبض علی ذراع نفسہ وترک بین قبضتہ و بین الکف مثل قبضۃ اخری ، جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا ، اور ہاتھ کی حد آپ نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آپ کی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی ۔ اس معاملے میں صرف اتنی رعایت ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں ( مثلا باپ بھائی وغیرہ ) کے سامنے عورت اپنے جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے آٹا گوندھتے ہوئے آستینیں اوپر چڑھا لینا ، یا گھر کا فرش دھوتے ہوئے پانچے کچھ اوپر کرلینا ۔ اور عورت کے لئے عوعرت کے ستر کے حدود وہی ہیں جو مرد کے لئے مرد کے ستر کے ہیں ، یعنی ناف اور گھٹنے کےدرمیان کا حصہ ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت نیم برہنہ رہے ۔ بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصوں کا ڈھانکنا فرض نہیں ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :33 یہ بات نگاہ میں رہے کہ شریعت الٰہی عورتوں سے صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں کرتی جو مردوں سے اس نے کیا ہے ، یعنی نظر بچانا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا ، بلکہ وہ ان سے کچھ اور مطالبے بھی کرتی ہے جو اس نے مردوں سے نہیں کیے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں عورت اور مرد یکساں نہیں ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :34 بناؤ سنگھار ہم نے زینت کا ترجمہ کیا ہے ، جس کے لیے دوسرا لفظ آرائش بھی ہے ۔ اس کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے : خوشنما کپڑے ، زیور ، اور سر ، منہ ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ کی مختلف آرائشیں جو بالعموم عورتیں دنیا میں کرتی ہیں ، جن کے لیے موجودہ زمانے میں ( Make up ) کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ یہ بناؤ سنگھار کس کو نہ دکھایا جائے ، اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :35 اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے ، ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے ۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے کہ : لا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ ، وہ اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں ۔ اور دوسرے فقرے میں اِلَّا بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے ما ظَھَرَ مِنْھَا ، جو کچھ اس آرائش و زیبائش میں سے ظاہر ہو ، یا ظاہر ہو جائے ۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمائش نہ کرنی چاہیے ، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے ( جیسے چادر کا ہوا سے اڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا ) یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو ( جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے ، کیونکہ بہرحال اس کا چھپانا تو ممکن نہیں ہے ، اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہرحال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے ) اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حسن بصری ، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے ۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین نے ما ظھر منھا کا مطلب لیا ہے : مایظھرہ الانسان علی العادۃ الجاریۃ ( جسے عادۃً انسان ظاہر کرتا ہے ) ، اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرائشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں ۔ یعنی ان کے نزدیک یہ جائز ہے کہ عورت اپنے منہ کو مسِّی اور سرمے اور سرخی پاوڈر سے ، اور اپنے ہاتھوں کو انگوٹھی چھلے اور چوڑیوں اور کنگن وغیرہ سے آراستہ رکھ کر لوگوں کے سامنے کھولے پھرے ۔ یہ مطلب ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے ( احکام القرآن جصاص ، جلد 3 ، صفحہ 388 ۔ 389 ) ۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ : مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُ عربی زبان کے کس قاعدے سے ہو سکتے ہیں ۔ ظاہر ہونے اور ظاہر کرنے میں کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ظاہر کرنے سے روک کر ظاہر ہونے کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے ۔ اس رخصت کو ظاہر کرنے کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حکم حجاب آ جانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں ، اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا ، اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا ۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں ۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی نا جائز ہے ۔ رہا حجاب ، تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیر محرم مردوں کے درمیان حائل کیا گیا ہے ، اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکام حجاب کی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :36 زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی ۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا ۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی ۔ اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں ( تفسیر کشاف جلد 2 ، صفحہ 90 ۔ ابن کثیر جلد 3 ، صفحہ 283 ۔ 284 ) ۔ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دو پٹہ رائج کیا گیا ، جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے ، بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر ، کمر ، سینہ ، سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں ۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہی فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں ، بیٹیوں ، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں ۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت : ولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو ۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا ۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں حاضر ہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں ۔ اسی سلسلے کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے ( ابن کثیر ، ج 3 ، ص 284 ۔ ابو داؤد ، کتاب اللباس ) ۔ یہ بات کہ دوپٹہ باریک کپڑے کا نہ ہونا چاہیے ، ان احکام کے مزاج اور مقصد پر غور کرنے سے خود ہی آدمی کی سمجھ میں آ جاتی ہے ، چنانچہ انصار کی خواتین نے حکم سنتے ہی سمجھ لیا تھا کہ اس کا منشا کس طرح کے کپڑے کا دوپٹہ بنانے سے پورا ہو سکتا ہے ۔ لیکن صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی صرف لوگوں کے فہم پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ خود اس کی تصریح فرما دی ۔ دِحْیَہ کَلْبی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ ( قَبَاطِی ) آئی ۔ آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا ایک حصہ پھاڑ کر اپنا کرتہ بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لیے دے دو ، مگر ان سے کہہ دینا کہ تجعل تحتہ ثوباً لا یصفھا ، اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے ۔ ( ابو داؤد ، کتاب اللباس ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :37 یعنی جس حلقے میں ایک عورت اپنی پوری زینت کے ساتھ آزادی سے رہ سکتی ہے وہ ان لوگوں پر مشتمل ہے ۔ اس حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہیں ، خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی ، بہرحال ایک عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آئے ۔ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا کے فقرے میں جو حکم دیا گیا تھا اس کا مطلب یہاں کھول دیا گیا ہے کہ اس محدود حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہوں ، ان کے سامنے ایک عورت کو اپنی آرائش قصداً یا بے پروائی کے ساتھ خود نہ ظاہر کرنی چاہیے ، البتہ جو ان کی کوشش کے باوجود یا ان کے ارادے کے بغیر ظاہر ہو جائے ، یا جس کا چھپانا ممکن نہ ہو وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :38 اصل میں لفظ آباء استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا پردادا اور نانا پرنانا بھی شامل ہیں ۔ لہٰذا ایک عورت اپنی ددھیال اور ننہیال ، اور اپنے شوہر کی ددھیال اور ننہیال کے ان سب بزرگوں کے سامنے اسی طرح آ سکتی ہے جس طرح اپنے والد اور خسر کے سامنے آ سکتی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :39 بیٹیوں میں پوتے پرپوتے اور نواسے پرنواسے سب شامل ہیں ۔ اور اس معاملے میں سگے سوتیلے کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ اپنے سوتیلے بچوں کی اولاد کے سامنے عورت اسی طرح آزادی کے ساتھ اظہار زینت کر سکتی ہے جس طرح خود اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کے سامنے کر سکتی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :40 بھائیوں میں سگے اور سوتیلے اور ماں جائے بھائی سب شامل ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :41 بھائی بہنوں کے بیٹوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد ہے ، یعنی ان کے پوتے پرپوتے اور نواسے پرنواسے سب اس میں شامل ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :42 یہاں چونکہ رشتہ داروں کا حلقہ ختم ہو رہا ہے اور آگے غیر رشتہ دار لوگوں کا ذکر ہے ، اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے تین مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیجیے ، کیونکہ ان کو نہ سمجھنے سے متعدد الجھنیں واقع ہوتی ہیں : پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اظہار زینت کی آزادی کو صرف ان رشتہ داروں تک محدود سمجھتے ہیں جن کا نام یہاں لیا گیا ہے ، باقی سب لوگوں کو ، حتیٰ کہ سگے چچا اور سگے ماموں تک کو ان رشتہ داروں میں شمار کرتے ہیں جن سے پردہ کیا جانا چاہیے ۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انکا نام قرآن میں نہیں لیا گیا ہے ۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ سگے چچا اور ماموں تو درکنار ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو رضاعی چچا اور ماموں سے بھی پردہ کرنے کی حضرت عائشہ کو اجازت نہ دی ۔ صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ابو القُعیس کے بھائی اَفْلَح ان کے ہاں آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ چونکہ پردے کا حکم آ چکا تھا اس لیے حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی ۔ انہوں نے کہلا کر بھیجا کہ تم تو میری بھتیجی ہو ، کیونکہ میرے بھائی ابو القعیس کی بیوی کا تم نے دودھ پیا ہے ۔ لیکن حضرت عائشہ کو اس میں تامل تھا کہ یہ رشتہ بھی ایسا ہے جس میں پردہ اٹھا دینا جائز ہو ۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس آیت کو اس معنی میں نہیں لیا ہے کہ اس میں جن جن رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے ان سے پردہ نہ ہو ۔ اور باقی سب سے ہو ۔ بلکہ آپ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ جن جن رشتہ داروں سے ایک عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اسی آیت کے حکم میں داخل ہیں ، مثلاً چچا ، ماموں ، داماد اور رضاعی رشتہ دار ۔ تابعین میں سے حضرت حسن بصری نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ، اور اسی کی تائید علامہ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمائی ہے ( ج ۔ 3 ، ص ۔ 390 ) ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو ( یعنی جن سے ایک کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح جائز ہو ) وہ نہ تو محرم رشتہ داروں کے حکم میں ہیں کہ عورتیں بے تکلف ان کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ آئیں ، اور نہ بالکل اجنبیوں کے حکم میں کہ عورتیں ان سے ویسا ہی مکمل پردہ کریں جیسا غیروں سے کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک کیا رویہ ہونا چاہیے ، یہ شریعت میں متعین نہیں کیا گیا ہے ، کیونکہ اس کا تعین ہو نہیں سکتا ۔ اس کے حدود مختلف رشتہ داروں کے معاملے میں ان کے رشتے ، ان کی عمر ، عورت کی عمر ، خاندانی تعلقات و روابط ، اور فریقین کے حالات ( مثلاً مکان کا مشترک ہونا یا الگ الگ مکانوں میں رہنا ) کے لحاظ سے لا محالہ مختلف ہوں گے اور ہونے چاہییں ۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا طرز عمل جو کچھ تھا اس سے ہم کو یہی رہنمائی ملتی ہے ۔ بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی تھیں ، آپ کے سامنے ہوتی تھیں ، اور آخر وقت تک آپ کے اور ان کے درمیان کم از کم چہرے اور ہاتھوں کی حد تک کوئی پردہ نہ تھا ۔ حجۃ الوداع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم تھی ( ملاحظہ ہو ابو داؤد ، کتاب الحج ، باب المحرم یؤدِّب غلامہ ) ۔ اسی طرح حضرت ام ہانی ، جو ابو طالب کی صاحبزادی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں ، آخر وقت تک حضور کے سامنے ہوتی رہیں ، اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انہوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا ۔ فتح مکہ کے موقع کا ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتا ہے ( ملاحظہ ہو ابو داؤد ، کتاب الصوم ، باب فی النیہ فی الصوم والرخصۃ فیہ ) ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس اپنے بیٹے فضل کو ، اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی ) اپنے بیٹے عبدالمطلب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں یہ کہہ کر بھیجتے ہیں کہ اب تم لوگ جوان ہو گئے ہو ، تمہیں جب تک روزگار نہ ملے تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں ، لہٰذا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر نوکری کی درخواست کرو ۔ یہ دونوں حضرت زینب کے مکان پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔ حضرت زینب فضل کی حقیقی پھوپھی زاد بہن ہیں ۔ اور عبد المطلب بن ربیعہ کے والد سے بھی ان کا وہی رشتہ ہے جو فضل سے ۔ لیکن وہ ان دونوں کے سامنے نہیں ہوتیں اور حضور کی موجودگی میں ان کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں ( ابو داؤد ، کتاب الخراج ) ۔ ان دونوں قسم کے واقعات کو ملا کر دیکھا جائے تو مسئلے کی صورت وہی کچھ سمجھ میں آتی ہے جو اوپر ہم بیان کر آئے ہیں ۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں رشتے میں شبہ پڑ جائے وہاں محرم رشتہ دار سے بھی احتیاطاً پردہ کرنا چاہیے ۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں ہے کہ حضرت سودہ ام المومنین کا ایک بھائی لونڈی زادہ تھا ( یعنی ان کے باپ کی لونڈی کے بطن سے تھا ) اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص کو ان کے بھائی عتبہ نے وصیت کی کہ اس لڑکے کو اپنا بھتیجا سمجھ کر اس کی سر پرستی کرنا ، کیونکہ وہ دراصل میرے نطفے سے ہے ۔ یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے حضرت سعد کا دعویٰ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ بیٹا اس کا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ، رہا زانی تو اس کے حصے میں کنکر پتھر ۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے حضرت سودہ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کرنا ( احتجبی منہ ) ، کیونکہ یہ اطمینان نہ رہا تھا کہ وہ واقعی ان کا بھائی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :43 اصل میں لفظ نِسَآئِھِنَّ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ان کی عورتیں ۔ اس سے کون عورتیں مراد ہیں ، یہ بحث تو بعد کی ہے ۔ سب سے پہلے جو بات قابل غور اور قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ محض عورتوں ( النسآء ) کا لفظ استعمال نہیں کیا جس سے مسلمان عورت کے لیے تمام عورتوں اور ہر قسم کی عورتوں کے سامنے بے پردہ ہونا اور اظہار زینت کرنا جائز ہو جاتا ، بلکہ نِسَآئِھِنَّ کہہ کر عورتوں کے ساتھ اس کی آزادی کو بہرحال ایک خاص دائرے تک محدود کر دیا ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ دائرہ کوئی سا ہو ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کونسا دائرہ ہے ، اور وہ کون عورتیں ہیں جن پر لفظ نِسَآءِھِنَّ کا اطلاق ہوتا ہے ، اس میں فقہاء اور مفسرین کے اقوال مختلف ہیں : ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسلمان عورتیں ہیں ۔ غیر مسلم عورتیں خواہ وہ ذمی ہوں یا کسی اور قسم کی ، ان سے مسلمان عورتوں کو اسی طرح پردہ کرنا چاہیے جس طرح مردوں سے کیا جاتا ہے ۔ ابن عباس ، مجاہد اور ابن جریج کی یہی رائے ہے ، اور یہ لوگ اپنی تائید میں یہ واقعہ بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو عُبیدہ کو لکھا میں نے سنا ہے مسلمانوں کی بعض عورتیں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے لگی ہیں ۔ حالانکہ جو عورت اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کے جسم پر اس کے اہل ملت کے سوا کسی اور کی نظر پڑے ۔ یہ خط جب حضرت ابو عبیدہ کو ملا تو وہ ایک دم گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے خدایا جو مسلمان عورت محض گوری ہونے کے لیے ان حماموں میں جائے اس کا منہ آخرت میں کالا ہو جائے ۔ ( ابن جریر ، بیہقی ، ابن کثیر ) ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد تمام عورتیں ہیں ۔ امام رازی کے نزدیک یہی صحیح مطلب ہے ۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی تھا تو پھر نِسَآءِھِنَّ کہنے کا کیا مطلب ؟ اس صورت میں تو النساء کہنا چاہیے تھا ۔ تیسری رائے یہ ہے اور یہی معقول بھی ہے اور قرآن کے الفاظ سے قریب تر بھی کہ اس سے دراصل ان کے میل جول کی عورتیں ، ان کی جانی بوجھی عورتیں ، ان سے تعلقات رکھنے والی اور ان کے کام کاج میں حصہ لینے والی عورتیں مراد ہیں ، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ۔ اور مقصود ان عورتوں کو اس دائرے سے خارج کرنا ہے جو یا تو اجنبی ہوں کہ ان کے اخلاق و تہذیب کا حال معلوم نہ ہو ، یا جن کے ظاہری حالات مشتبہ ہوں اور ان پر اعتماد نہ کیا جا سکے ۔ اس رائے کی تائید ان صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس ذمی عورتوں کی حاضری کا ذکر آتا ہے ۔ اس معاملے میں اصل چیز جس کا لحاظ کیا جائے گا وہ مذہبی اختلاف نہیں بلکہ اخلاقی حالت ہے ۔ شریف ، با حیا اور نیک اطوار عورتیں جو معروف اور قابل اعتماد خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ہوں ، ان سے مسلمان عورتیں پوری طرح بے تکلف ہو سکتی ہیں ، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں ۔ لیکن بے حیا ، آبرو باختہ اور بد اطوار عورتیں ، خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ہر شریف عورت کو ان سے پردہ کرنا چاہیے ، کیونکہ اخلاق کے لیے ان کی صحبت غیر مردوں کی صحبت سے کچھ کم تباہ کن نہیں ہے ۔ رہیں اَن جانی عورتیں ، جن کی حالت معلوم نہیں ہے ، تو ان سے ملاقات کی حد ہمارے نزدیک وہی ہے جو غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے آزادی کی زیادہ سے زیادہ حد ہو سکتی ہے ، یعنی یہ کہ عورت صرف منہ اور ہاتھ ان کے سامنے کھولے ، باقی اپنا سارا جسم اور آرائش چھپا کر رکھے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :44 اس حکم کا مطلب سمجھنے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے ۔ ایک گروہ اس سے مراد صرف وہ لونڈیاں لیتا ہے جو کسی عورت کی ملک میں ہوں ۔ ان حضرات کے نزدیک ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشرکہ ہو یا اہل کتاب میں سے ، مسلمان مالکہ اس کے سامنے تو اظہار زینت کر سکتی ہے مگر غلام ، چاہے وہ عورت کا اپنا مملوک ہی کیوں نہ ہو ، پردے کے معاملہ میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے ۔ یہ عبد اللہ بن مسعود ، مجاہد ، حسن بصری ، ابن سیرین ، سعید بن مُسَیَّب ، طاؤس اور امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام شافعی کا بھی اسی کی تائید میں ہے ۔ ان بزرگوں کا استدلال یہ ہے کہ غلام کے لیے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے ۔ اگر وہ آزاد ہو جائے تو اپنی اسی سابق مالکہ سے نکاح کر سکتا ہے ۔ لہٰذا محض غلامی اس امر کا سبب نہیں بن سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت محرم مردوں کے سامنے برتنے کے لیے دی گئی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ : ما ملکت ایمانھن کے الفاظ عام ہیں ، جو لونڈی اور غلام دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، پھر اسے لونڈیوں کے لیے خاص کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ الفاظ اگرچہ عام ہیں مگر موقع و محل ان کا مفہوم لونڈیوں کے لیے خاص کر رہا ہے ۔ پہلے نِسَآءِھِنَّ فرمایا ، پھر ما ملکت ایمانھن ارشاد ہوا ۔ نِسَآءِھِنَّ کے الفاظ سن کر عام آدمی یہ سمجھ سکتا تھا کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کسی عورت کی ملنے جلنے والی یا رشتہ دار ہوں ۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ شاید لونڈیاں اس میں شامل نہ ہوں ۔ اس لیے ما ملکت ایمانھن کہہ کر یہ بات صاف کر دی گئی کہ آزاد عورتوں کی طرح لونڈیوں کے سامنے بھی اظہار زینت کیا جا سکتا ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس اجازت میں لونڈی اور غلام دونوں شامل ہیں ۔ یہ حضرت عائشہ اور ام سَلَمہ اور بعض ائمۂ اہل بیت کا مذہب ہے اور امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے ۔ ان کا استدلال صرف لفظ ما ملکت ایمانھن کے عموم ہی سے نہیں ہے بلکہ وہ سنت سے بھی اپنی تائید میں شواہد پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ واقعہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام عبد اللہ بن مسعدۃ الفَزاری کو لیے ہوئے حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے گئے ۔ وہ اس وقت ایک ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھیں جس سے سر ڈھانکتی تھیں تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتی تھیں تو سر کھل جاتا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر فرمایا : لیس علیک باسٌ ، انماھو ابوک و غلامک ۔ کوئی حرج نہیں ، یہاں بس تمہارا باپ ہے اور تمہارا غلام ( ابو داؤد ، احمد ، بیہقی بروایت انس بن مالک ۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ غلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو دے دیا تھا ، انہوں نے اسے پرورش کیا اور پھر آزاد کر دیا ، مگر اس احسان کا جو بدلہ اس نے دیا وہ یہ تھا کہ جنگ صفین کے زمانے میں وہ حضرت علی کا بد ترین دشمن اور امیر معاویہ کا پر جوش حامی تھا ) ۔ اسی طرح وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ : اذا کان لاحد اکن مکاتب و کان لہ مایؤدی فلتحتجب منہ ، جب تم میں سے کوئی اپنے غلام سے مکاتبت کر لے اور وہ مال کتابت ادا کرنے کی مقدرت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ایسے غلام سے پردہ کرے ( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، بروایت ام سلمہ ) سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :45 اصل میں : التابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہو گا مردوں میں سے وہ مرد جو تابع ہوں خواہش نہ رکھنے والے ۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ محرم مردوں کے سوا دوسرے کسی مرد کے سامنے ایک مسلمان عورت صرف اس صورت میں اظہار زینت کر سکتی ہے جبکہ اس میں دو صفات پائی جاتی ہوں : ایک یہ کہ وہ تابع ، یعنی زیر دست اور ماتحت ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والا ہو ، یعنی اپنی عمر یا جسمانی عدم اہلیت ، یا عقلی کمزوری ، یا فقر و مسکنت ، یا زیر دستی و محکومی کی بنا پر جس میں یہ طاقت یا جرأت نہ ہو کہ صاحب خانہ کی بیوی ، بیٹی ، بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری نیت دل میں لا سکے ۔ اس حکم کو جو شخص بھی فرمانبرداری کی نیت سے ، نہ کہ نافرمانی کی گنجائشیں ڈھونڈنے کی نیت سے ، پڑھے گا وہ اول نظر ہی میں محسوس کر لے گا کہ آج کل کے بیرے خانسامے ، شوفر اور دوسرے جوان جوان نوکر تو بہرحال اس تعریف میں نہیں آتے ۔ مفسرین اور فقہاء نے اس کی جو تشریحات کی ہیں ان پر ایک نظر ڈال لینے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اہل علم ان الفاظ کا کیا مطلب سمجھتے رہے ہیں : ابن عباس: اس سے مراد وہ سیدھا بدھو ( مُغَفَّل ) آدمی ہے جو عورتوں سے دلچسپی نہ رکھتا ہو ۔ قَتَادہ: ایسا دست نگر آدمی جو پیٹ کی روٹی پانے کے لیے تمہارے ساتھ لگا رہے ۔ مجاہد : ابلہ جو روٹی چاہتا ہے اور عورتوں کا طالب نہیں ہے ۔ شَعبِی : وہ جو صاحب خانہ کا تابع و دست نگر ہو اور جس کی اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ عورتوں پر نگاہ ڈال سکے ۔ ابن زید : وہ جو کسی خاندان کے ساتھ لگا رہے ، حتیٰ کہ گویا اسی گھر کا ایک فرد بن گیا ہو اور اسی گھر میں پلا بڑہا ہو ۔ جو گھر والوں کی عورتوں پر نگاہ نہ رکھتا ہو ، نہ اس کی ہمت ہی کر سکتا ہو ۔ وہ ان کے ساتھ اس لیے لگا رہتا ہو کہ ان سے اس کو روٹی ملتی ہے ۔ طاؤس اور زُہری: بے وقوف آدمی جس میں نہ عورتوں کی طرف رغبت ہو اور نہ اس کی ہمت ۔ ( ابن جریر ، ج 18 ۔ ص 95 ۔ 96 ۔ ابن کثیر ، ج3 ص 285 ) ان تشریحات سے بھی زیادہ واضح تشریح وہ واقعہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا تھا اور جسے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور احمد وغیرہ محدثین نے حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے روایت کیا ہے ۔ مدینہ طیبہ میں ایک مخنّث تھا جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غیر اولی الاربہ میں شمار کر کے اپنے ہاں آنے دیتی تھیں ۔ ایک روز جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین ام سلمہ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ نے اس کو حضرت ام سلمہ کے بھائی عبد اللہ بن ابی امیہ سے باتیں کرتے سن لیا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل اگر طائف فتح ہو جائے تو غیلان ثَقَفِی کی بیٹی باویہ کو حاصل کیے بغیر نہ رہنا ۔ پھر اس نے باویہ کے حسن اور اس کے جسم کی تعریف کرنی شروع کی اور اس کے پوشیدہ اعضاء تک کی صفت بیان کر ڈالی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا خدا کے دشمن ، تو نے تو اس میں نظریں گاڑ دیں ۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو ، آئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پائے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے مدینے سے باہر نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھروں میں گھسنے سے منع فرما دیا ، کیونکہ ان کو مخنّث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہ کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ : غیر اولی الاربہ ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص جسمانی طور پر بد کاری کے لائق نہیں ہے ۔ اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو بہرحال وہ بہت سے فتنوں کا موجب بن سکتا ہے ۔ سوْرَةُ النُّوْر حاشیہ نمبر :46 یعنی جن میں ابھی صنفی احساسات بیدار نہ ہوئے ہوں ۔ یہ تعریف زیادہ سے زیادہ دس بارہ برس کی عمر تک کے لڑکوں پر صادق آ سکتی ہے ۔ اس سے زیادہ عمر کے لڑکے اگرچہ نابالغ ہوں ، مگر ان میں صنفی احساسات بیدار ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :47 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو صرف زیوروں کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا ہے ، بلکہ اس سے یہ اصول اخذ فرمایا ہے کہ نگاہ کے سوا دوسرے حواس کو مشتعل کرنے والی چیزیں بھی اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اظہار زینت سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا کہ خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں ۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مَسَاجد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات ، اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو ، مگر وہ خوشبو لگا کر نہ آئیں ۔ ( ابو داؤد ، احمد ) ۔ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد سے نکل کر جا رہی تھی کہ حضرت ابو ہریرہ اس کے پاس سے گزرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ خوشبو لگائے ہوئے ہے ۔ انہوں نے اسے روک کر پوچھا اے خدائے جبار کی بندی ، کیا تو مسجد سے آ رہی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ بولے میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت مسجد میں خوشبو لگا کر آئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جا کر غسل جنابت نہ کر لے ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ، احمد ، نسائی ) ۔ ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذا استعطرت المرأۃ فمرت علی القوم لیجدوا ریحھا فھی کذا وکذا قال قولا شدیدا ، جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے ۔ آپ نے اس کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرمائے ( ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ آپ کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں کو وہ خوشبو استعمال کرنی چاہیے جس کا رنگ تیز ہو اور بو ہلکی ہو ( ابو داؤد ) ۔ اسی طرح آپ نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ عورتیں بلا ضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں ۔ ضرورت پڑنے پر بات کرنے کی اجازت تو خود قرآن میں دی گئی ہے ، اور لوگوں کو دینی مسائل خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بتایا کرتی تھیں ۔ لیکن جہاں اس کی نہ ضرورت ہو اور نہ کوئی دینی یا اخلاقی فائدہ ، وہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنی آواز غیر مردوں کو سنائیں ۔ چنانچہ نماز میں اگر امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں ، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو متنبہ کریں ۔ التسبیح للرجال والتصفیق للنساء ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :48 یعنی ان لغزشوں اور غلطیوں سے توبہ کرو جو اس معاملے میں اب تک کرتے رہے ہو ، اور آئندہ کے لیے اپنے طرز عمل کی اصلاح ان ہدایات کے مطابق کر لو جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :49 اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دوسری اصلاحات کا بھی ایک خلاصہ دے دیا جائے جو ان احکام کے نزول کے بعد قرآن کی روح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے میں رائج فرمائیں : 1: آپ نے محرم رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں دوسرے لوگوں کو ( خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ) کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرما دیا ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : لا تلجوا علی المغیبات فان الشیطان یجری من احدکم مجری الدم ، جن عورتوں کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں ان کے پاس نہ جاؤ ، کیونکہ شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے ( ترمذی ) ۔ انہی حضرت جابر کی دوسری روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من کان یؤمن باللہ والیوم الاٰخر فلا یخلون بامرأۃ لیس معھا ذو محرم منھا فان ثالثھما الشیطان ، جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس عورت کا کوئی محرم نہ ہو ، کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے ( احمد ) ۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک اور روایت امام احمد نے عامر بن ربیعہ سے نقل کی ہے ۔ اس معاملے میں حضور کی اپنی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ رات کے وقت آپ حضرت صفیہ کے ساتھ ان کے مکان کی طرف جا رہے تھے ۔ راستے میں دو انصاری پاس سے گزرے ۔ آپ نے ان کو روک کر ان سے فرمایا یہ میرے ساتھ میری بیوی صفیہ ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا سبحان اللہ ، یا رسول اللہ ، بھلا آپ کے متعلق بھی کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے ؟ فرمایا شیطان آدمی کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے ، مجھے اندیشہ ہوا کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی برا گمان نہ ڈال دے ( ابو داؤد ، کتاب الصوم ) ۔ 2 : آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت کے جسم کو لگے ۔ چنانچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لے کر کرتے تھے ، لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ آپ نے کبھی اختیار نہیں فرمایا ۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی غیر عورت کے جسم کو نہیں لگا ۔ آپ عورت سے صرف زبانی عہد لیتے تھے اور جب وہ عہد کر چکتی تھی تو فرماتے ، جاؤ بس تمہاری بیعت ہو گئی ( ابو داؤد ، کتاب الخراج ) ۔ 3 : آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا ۔ بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے خطبہ میں فرمایا : یخلون رجل بامرأۃ الا و معھا ذو محرم ، ولا تسافر المرأۃ لا مع ذی محرم ، ’ کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو ، اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو ۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا میری بیوی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں مہم پر جانے والوں میں لکھا جا چکا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانطلق فحج مع امرأتک ، اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو چلے جاؤ
مومنہ عورتوں کو تاکید یہاں اللہ تعالیٰ مومنہ عورتوں کو چند حکم دیتا ہے تاکہ ان کے باغیرت مردوں کو تسکین ہو اور جاہلیت کی بری رسمیں نکل جائیں ۔ مروی ہے کہ اسماء بنت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مکان بنوحارثہ کے محلے میں تھا ۔ ان کے پاس عورتیں آتی تھیں اور دستور کے مطابق اپنے پیروں کے زیور ، سینے اور بال کھولے آیا کرتی تھیں ۔ حضرت اسماء نے کہا یہ کیسی بری بات ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پس حکم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہئیں ۔ سوا اپنے خاوند کے کسی کو بہ نظر شہوت نہ دیکھنا چاہئے ۔ اجنبی مردوں کی طرف تو دیکھنا ہی حرام ہے خواہ شہوت سے ہو خواہ بغیر شہوت کے ۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیٹھی تھیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے آئے ۔ یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پردہ کر لو ۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ ! وہ تو نابینا ہیں ، نہ ہمیں دیکھیں گے ، نہ پہچانیں گے ۔ آپ نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو کہ اس کو نہ دیکھو ؟ ہاں بعض علماء نے بےشہوت نظر کرنا حرام نہیں کہا ۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ عید والے دن حبشی لوگوں نے مسجد میں ہتھیاروں کے کرتب شروع کئے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا آپ دیکھ ہی رہی تھیں یہاں تک کہ جی بھر گیا اور تھک کر چلی گئیں ۔ عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچاؤ چاہئے ، بدکاری سے دور رہیں ، اپنا آپ کسی کو نا دکھائیں ۔ اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں ہاں جس کاچھپانا ممکن ہی نہ ہو ، اس کی اور بات ہے جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ جنکا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لئے ناممکنات سے ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ ، پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں ، جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کردی ہے ۔ جب کہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں یعنی بالیاں ہار پاؤں کا زیور وغیرہ ۔ فرماتے ہیں زینت دو طرح کی ہے ایک تو وہ جسے خاوند ہی دیکھے جیسے انگوٹھی اور کنگن اور دوسری زینت وہ جسے غیر بھی دیکھیں جیسے اوپر کا کپڑا ۔ زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ان کے سامنے تو کنگن دوپٹہ بالیاں کھل جائیں تو حرج نہیں لیکن اور لوگوں کے سامنے صرف انگوٹھیاں ظاہر ہوجائیں تو پکڑ نہیں ۔ اور روایت میں انگوٹھیوں کے ساتھ ہی پیر کے خلخال کا بھی ذکر ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ما ظہر منہا کی تفیسر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منہ اور پہنچوں سے کی ہو ۔ جیسے ابو داؤد میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کپڑے باریک پہنے ہوئے تھیں تو آپ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا جب عورت بلوغت کو پہنچ جائے تو سوا اس کے اور اس کے یعنی چہرہ کے اور پہنچوں کے اس کا کوئی عضو دکھانا ٹھیک نہیں ۔ لیکن یہ مرسل ہے ۔ خالد بن دریک رحمۃاللہ علیہ اسے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا ام المومنین سے ملاقات کرنا ثابت نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ عورتوں کو چاہئے کہ اپنے دوپٹوں سے یا اور کپڑے سے بکل مار لیں تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے ۔ جاہلیت میں اس کا بھی رواج نہ تھا ۔ عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتیں تھیں بسا اوقات گردن اور بال چوٹی بالیاں وغیرہ صاف نظر آتی تھیں ۔ ایک اور آیت میں ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے ، اپنی بیٹیوں سے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں ۔ خمر خمار کی جمع ہے خمار کہتے ہیں ہر اس چیز کو جو ڈھانپ لے ۔ چونکہ دوپٹہ سر کو ڈھانپ لیتا ہے اس لئے اسے بھی خمار کہتے ہیں ۔ پس عورتوں کو چاہے کہ اپنی اوڑھنی سے یا کسی اور کپڑے سے اپنا گلا اور سینہ بھی چھپائے رکھیں ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے شروع شروع ہجرت کی تھی کہ جب یہ آیت اتری انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے ۔ بعض نے اپنے تہمد کے کنارے کاٹ کر ان سے سر ڈھک لیا ۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس عورتوں نے قریش عورتوں کی فضیلت بیان کرنی شروع کی تو آپ نے فرمایا ان کی فضیلت کی قائل میں بھی ہوں لیکن واللہ میں نے انصار کی عورتوں سے افضل عورتیں نہیں دیکھیں ، ان کے دلوں میں جو کتاب اللہ کی تصدیق اور اس پر کامل ایمان ہے ، وہ بیشک قابل قدر ہے ۔ سورہ نور کی آیت ( ولیضربن بخمرھن ) جب نازل ہوئی اور ان کے مردوں نے گھر میں جاکر یہ آیت انہیں سنائی ، اسی وقت ان عورتوں نے اس پر عمل کر لیا اور صبح کی نماز میں وہ آئیں تو سب کے سروں پر دوپٹے موجود تھے ۔ گویا ڈول رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد ان مردوں کا بیان فرمایا جن کے سامنے عورت ہوسکتی ہے اور بغیر بناؤ سنگھار کے ان کے سامنے شرم وحیا کے ساتھ آجاسکتی ہے گو بعض ظاہری زینت کی چیزوں پر بھی ان کی نظر پڑ جائے ۔ سوائے خاوند کے کہ اس کے سامنے تو عورت اپنا پورا سنگھار زیب زینت کرے ۔ گو چچا اور ماموں بھی ذی محرم ہیں لیکن ان کا نام یہاں اس لئے نہیں لیا گیا کہ ممکن ہے وہ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کے محاسن بیان کریں ۔ اس لئے ان کے سامنے بغیر دوپٹے کے نہ آنا چاہئے ۔ پھر فرمایا تمہاری عورتیں یعنی مسلمان عورتوں کے سامنے بھی اس زینت کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ۔ اہل ذمہ کی عورتوں کے سامنے اس لئے رخصت نہیں دی گئی کہ بہت ممکن ہے وہ اپنے مردوں میں ان کی خوبصورتی اور زینت کا ذکر کریں ۔ گو مومن عورتوں سے بھی یہ خوف ہے مگر شریعت نے چونکہ اسے حرام قرار دیا ہے اس لئے مسلمان عورتیں تو ایسا نہ کریں گی لیکن ذمی کافروں کی عورتوں کو اس سے کون سی چیز روک سکتی ہے ؟ بخاری مسلم میں ہے کہ کسی عورت کو جائز نہیں کہ دوسری عورت سے مل کر اس کے اوصاف اپنے خاوند کے سامنے اس طرح بیان کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض مسلمان عورتیں حمام میں جاتی ہیں ، ان کے ساتھ مشرکہ عورتیں بھی ہوتی ہیں ۔ سنو کسی مسلمان عورت کو حلال نہیں کہ وہ اپناجسم کسی غیر مسلمہ عورت کو دکھائے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بھی آیت ( اونساءھن ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں مراد اس سے مسلمان عورتیں ہیں تو ان کے سامنے وہ زینت ظاہر کر سکتی ہے جو اپنے ذی محرم رشتے داروں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے ۔ یعنی گلابالیاں اور ہار ۔ پس مسلمان عورت کو ننگے سر کسی مشرکہ عورت کے سامنے ہونا جائز نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب صحابہ بیت المقدس پہنچے تو ان کی بیویوں کے لئے دایہ یہودیہ اور نصرانیہ عورتیں ہی تھیں ۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے تو محمول ہوگا ضرورت پر یا ان عورتوں کی ذلت پر ۔ پھر اس میں غیر ضروری جسم کا کھلنا بھی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ہاں مشرکہ عورتوں میں جو لونڈیاں باندیاں ہوں وہ اس حکم سے خارج ہیں ۔ بعض کہتے ہیں غلاموں کا بھی یہی حکم ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس انہیں دینے کے لیے ایک غلام لے کر آئے ۔ حضرت فاطمہ اسے دیکھ کر اپنے آپ کو اپنے دو پٹے میں چھپانے لگیں ۔ لیکن چونکہ کپڑا چھوٹا تھا ، سر ڈھانپتی تھیں تو پیر کھل جاتے تھے اور پیر ڈھانپتی تھیں تو سرکھل جاتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا بیٹی کیوں تکلیف کرتی ہو میں تو تمہارا والد ہوں اور یہ تمہارا غلام ہے ۔ ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ اس غلام کا نام عبداللہ بن مسعدہ تھا ۔ یہ فزاری تھے ۔ سخت سیاہ فام ۔ حضرت فاطمۃالزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں پرورش کر کے آزاد کر دیا تھا ۔ صفین کی جنگ میں یہ حضرت معاویہ کے ساتھ تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت مخالف تھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا ۔ تم میں سے جس کسی کا مکاتب غلام ہو جس سے یہ شرط ہوگئی ہو کہ اتنا روپیہ دے دے تو تو آزاد ، پھر اس کے پاس اتنی رقم بھی جمع ہوگئی ہو تو چاہئے کہ اس سے پردہ کرے پھر بیان فرمایا کہ نوکر چاکر کام کاج کرنے والے ان مردوں کے سامنے جو مردانگی نہیں رکھتے عورتوں کی خواہش جنہیں نہیں ۔ اس مطلب کے ہی وہ نہیں ، ان کا حکم بھی ذی محرم مردوں کا ہے یعنی ان کے سامنے بھی اپنی زینت کے اظہار میں مضائقہ نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سست ہوگئے ہیں عورتوں کے کام کے ہی نہیں ۔ لیکن وہ مخنث اور ہیجڑے جو بد زبان اور برائی کے پھیلانے والے ہوتے ہیں ان کا یہ حکم نہیں ۔ جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک ایسا ہی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آیا تھا چونکہ اسے اسی آیت کے ماتحت آپ کی ازواج مطہرات نے سمجھا اسے منع نہ کیا تھا ۔ اتفاق سے اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ، اس وقت وہ حضرت ام سلمہ کے بھائی عبداللہ سے کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب طائف کو فتح کرائے گا تو میں تجھے غیلان کی لڑائی دکھاؤں گا کہ آتے ہوئے اس کے پیٹ پر چار شکنیں پڑتی ہیں اور واپس جاتے ہوئے آٹھ نظر آتی ہیں ۔ اسے سنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار ایسے لوگوں کو ہرگز نہ آنے دیا کرو ۔ اس سے پردہ کر لو ۔ چنانچہ اسے مدینے سے نکال دیا گیا ۔ بیداء میں یہ رہنے لگا وہاں سے جمعہ کے روز آجاتا اور لوگوں سے کھانے پینے کو کچھ لے جاتا ۔ چھوٹے بچوں کے سامنے ہونے کی اجازت ہے جو اب تک عورتوں کے مخصوص اوصاف سے واقف نہ ہوں ۔ عورتوں پر ان کی للچائی ہوئی نظریں نہ پڑتی ہوں ۔ ہاں جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں کہ ان میں تمیز آجائے ۔ عورتوں کی خوبیاں ان کی نگاہوں میں جچنے لگیں ، خوبصورت بد صورت کا فرق معلوم کرلیں ۔ پھر ان سے بھی پردہ ہے گو وہ پورے جوان نہ بھی ہوئے ہوں ۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو ! عورتوں کے پاس جانے سے بچو پوچھا گیا کہ یارسول اللہ دیور جیٹھ ؟ آپ نے فرمایا وہ تو موت ہے ۔ پھر فرمایا کہ عورتیں اپنے پیروں کو زمین پر زور زور سے مار مار کر نہ چلیں جاہلیت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ زور سے پاؤں زمین پر رکھ کر چلتی تھیں تاکہ پیر کا زیور بجے ۔ اسلام نے اس سے منع فرما دیا ۔ پس عورت کو ہر ایک ایسی حرکت منع ہے جس سے اس کا کوئی چھپا ہوا سنگھار کھل سکے ۔ پس اسے گھر سے عطر اور خوشبو لگا کر باہر نکلنا بھی ممنوع ہے ۔ ترمذی میں ہے کہ ہر آنکھ زانیہ ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک عورت خوشبو سے مہکتی ہوئی ملی ۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو مسجد سے آرہی ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تم نے خوشبو لگائی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ آپ نے فرمایا ۔ میں نے اپنے حبیب ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو عورت اس مسجد میں آنے کے لئے خوشبو لگائے ، اس کی نماز نا مقبول ہے جب کہ وہ لوٹ کر جنابت کی طرح غسل نہ کر لے ۔ ترمذی میں ہے کہ اپنی زینت کو غیر جگہ ظاہر کرنے والی عورت کی مثال قیامت کے اس اندھیرے جیسی ہے جس میں نور نہ ہو ۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں عورتوں کو راستے میں ملے جلے چلتے ہوئے دیکھ کر فرمایا عورتو! تم ادھر ادھر ہو جاؤ ، تمہیں بیچ راہ میں نہ چلنا چاہئے ۔ یہ سن کر عورتیں دیوار سے لگ کر چلنے لگیں یہاں تک کہ ان کے کپڑے دیواروں سے رگڑتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے مومنو! میری بات پر عمل کرو ، ان نیک صفتوں کو لے لو ، جاہلیت کی بدخصلتوں سے رک جاؤ ۔ پوری فلاح اور نجات اور کامیابی اسی کے لئے ہے جو اللہ کا فرمانبردار ہو ، اس کے منع کردہ کاموں سے رک جاتا ہو ، اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔