Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
قُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَغُـضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِهِمۡ وَيَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَهُمۡ‌ ؕ ذٰ لِكَ اَزۡكٰى لَهُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ‏ ﴿30﴾
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے ، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے ۔
قل للمؤمنين يغضوا من ابصارهم و يحفظوا فروجهم ذلك ازكى لهم ان الله خبير بما يصنعون
Tell the believing men to reduce [some] of their vision and guard their private parts. That is purer for them. Indeed, Allah is Acquainted with what they do.
Musalman mardon say kaho apni nigahen neechi rakhen aur apni sharam gahon ki hifazat rakhen. Yeh hi unn kay liye pakeezgi hai log jo kuch keren Allah Taalaa sab say khabra daar hai.
مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے ۔ وہ جو کارروائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے ۔
مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں ( ف۵٤ ) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ( ف۵۵ ) یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے ، بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں 29 اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، 30 یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے ۔
آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں ، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے ۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :29 اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے ، گھٹانے اور پست کرنے کے ۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے ۔ لیکن دراصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے ، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے ۔ یہ مفہوم نظر بچانے سے ٹھیک ادا ہوتا ہے ، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹالی جائے ، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے ۔ مِنْ اَبْصَارِھِمْ میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے ۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے ، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے ۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا ، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا ، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا ۔ کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں : 1 : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے ۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے ، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے ۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے ۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے ۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے ۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے ۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں ، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں ( بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ) ۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فان لک الاولی ولیست لک الاٰخرۃ ، اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا ۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں ( احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، دارمی ) ۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں ۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو ، یا نیچی کر لو ( مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموم ، من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا ( طبرانی ) ۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما من مسلم ینظر الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا ، جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ( مسند احمد ) ۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ( جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے ۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا ( ابو داؤد ) ۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا ۔ ( بخاری ، ابو داؤد ، ترمذی ) ۔ 2: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا ، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال ۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی ۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جائے ۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے ۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہرحال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی ۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے ۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے ۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی ۔ صبح کو صفوان بن مُعطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا ۔ فعرفنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باسترجاعہ حین عرفنی فخمرت وجھی بجلبابی ، وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا ۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا ۔ ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ابن جریر ، سیرت ابن ہشام ) ابو داؤد ، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا ۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی ۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا ، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو ۔ جواب میں کہنے لگیں : ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی ، میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی ۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درخواست دی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا ؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے ۔ فرمایا عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے ، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے ۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتین غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں ۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے ۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں ، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ( ابو داؤد ، باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا ) ۔ 3 : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو ۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو ۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے ، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے ۔ مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے ۔ میں نے عرض کیا نہیں ۔ فرمایا : النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بینکما ، اسے دیکھ لو ۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی ( احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ) ۔ ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انظر الیھا فان فی اعین الانصار شیئاً ، لڑکی کو دیکھ لو ، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے ( مسلم ، نسائی ، احمد ) ۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا خطب احدکم المرأۃ فَقَدَ رَاَن یریٰ منھا بعض ما یدعوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل ، تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ہو ( احمد ، ابو داؤد ) ۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو : فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا ، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں ۔ مثلاً تفتیش جرائم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا ، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا ، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ ۔ 4 : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المرأۃ الیٰ عورۃ المرأۃ ، کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ( احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ) ۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذ حی ولا میت ، کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ) ۔
حرام چیزوں پر نگاہ نہ ڈالو حکم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو ۔ حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کر لو ۔ اگر بالفرض نظر پڑجائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو ۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا اپنی نگاہ فورا ہٹا لو ۔ نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ نے فرمایا ۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نظر پر نظر نہ جماؤ ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصدا معاف نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کام کاج کے لئے وہ تو ضروری ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو ۔ انہوں نے کہا وہ کیا ؟ فرمایا نیچی نگاہ رکھنا کسی کو ایذاء نہ دینا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا ، بری باتوں سے روکنا ۔ آپ فرماتے ہیں چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۔ بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ۔ امانت میں خیانت نہ کرو ۔ وعدہ خلافی نہ کرو ۔ نظر نیچی رکھو ۔ ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ۔ صحیح بخاری میں ہے جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے ۔ میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں ، عبیدہ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو ، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے ، اس لئے شرمگاہ کو بچانے کے لئے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا ۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے ۔ محرمات کو نہ دیکھنے سے دل پاک ہوتا ہے اور دین صاف ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے ۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے ۔ اور ان کے دل بھی نورانی کر دیتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں جس کی نظر کسی عورت کے حسن وجمال پر پڑجائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے ۔ اس حدیث کی سندیں تو ضعیف ہیں مگر یہ رغبت دلانے کے بارے میں ہے ۔ اور ایسی احادیث میں سند کی اتنی زیادہ دیکھ بھال نہیں ہوتی ۔ طبرانی میں ہے کہ یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کروگے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا ( اعاذنا اللہ من کل عذابہ ) فرماتے ہیں ۔ نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے ، اللہ اس کے دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لا محالہ پالے گا ، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ۔ زبان کا زنا بولنا ہے ۔ کانوں کا زنا سننا ہے ۔ ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے ۔ پیروں کا زنا چلنا ہے ۔ دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے ۔ پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے ۔ ( رواہ البخاری تعلیقا ) اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے ۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے ۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے ۔ گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو ۔