Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلۡيَسۡتَعۡفِفِ الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغۡنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ يَبۡتَغُوۡنَ الۡـكِتٰبَ مِمَّا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ فَكَاتِبُوۡهُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِيۡهِمۡ خَيۡرًا ‌‌ۖ  وَّاٰ تُوۡهُمۡ مِّنۡ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِىۡۤ اٰتٰٮكُمۡ ‌ؕ وَلَا تُكۡرِهُوۡا فَتَيٰتِكُمۡ عَلَى الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّـتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ ؕ وَمَنۡ يُّكۡرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنۡۢ بَعۡدِ اِكۡرَاهِهِنَّ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿33﴾
اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیے جو اپنا نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل سے مالدار بنا دے ، تمہارے غلاموں میں سے جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں کر دیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو اور اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو ، تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور جو انہیں مجبور کر دے تو اللہ تعالٰی ان پر جبر کے بعد بخش دینے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ۔
و ليستعفف الذين لا يجدون نكاحا حتى يغنيهم الله من فضله و الذين يبتغون الكتب مما ملكت ايمانكم فكاتبوهم ان علمتم فيهم خيرا و اتوهم من مال الله الذي اتىكم و لا تكرهوا فتيتكم على البغاء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحيوة الدنيا و من يكرههن فان الله من بعد اكراههن غفور رحيم
But let them who find not [the means for] marriage abstain [from sexual relations] until Allah enriches them from His bounty. And those who seek a contract [for eventual emancipation] from among whom your right hands possess - then make a contract with them if you know there is within them goodness and give them from the wealth of Allah which He has given you. And do not compel your slave girls to prostitution, if they desire chastity, to seek [thereby] the temporary interests of worldly life. And if someone should compel them, then indeed, Allah is [to them], after their compulsion, Forgiving and Merciful.
Aur unn logon ko pak daman rehna chahaye jo apna nikah kerney ka maqdoor nahi rakhtay yahan tak kay Allah Taalaa unhen apnay fazal say maal daar bana dey tumharay ghulamon mein say jo koi kuch tumhen dey ker azadi ki tehreer kerani chahaye to tum aisi tehreer unhen ker diya kero agar tum ko inn mein koi bhalaee nazar aati ho aur Allah ney jo maal tumhen dey rakha hai uss mein sya unhen bhi do tumhari jo londiyan pak daman rehna chahati hain unhen duniya ki zindagi kay faeeday ki gharaz say bad-kaari per majboor na kero aur jo unhen majboor ker dey to Allah Taalaa unn per jabar kay baad bakhsish denay wala aur meharbaani kerney wala hai.
اور جن لوگوں کو نکاح کے مواقع میسر نہ ہوں ، وہ پاک دامنی کے ساتھ رہیں ، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیں بے نیاز کردے ۔ اور تمہاری ملکیت کے غلام باندیوں میں سے جو مکاتبت کا معاہدہ کرنا چاہیں ، اگر ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کا معاہدہ کرلیا کرو ( ٢٦ ) اور ( مسلمانو ) اللہ نے تمہیں جو مال دے رکھا ہے اس میں سے ایسے غلام باندیوں کو بھی دیا کرو ، اور اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا سازوسامان حاصل کرنے کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامنی چاہتی ہوں ، ( ٢٧ ) اور جو کوئی انہیں مجبور کرے گا تو ان کو مجبور کرنے کے بعد اللہ ( ان باندیوں کو ) بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔ ( ٢٨ )
اور چاہیے کہ بچے رہیں ( ف٦۹ ) وہ جو نکاح کا مقدور نہیں رکھتے ( ف۷۰ ) یہاں تک کہ اللہ مقدور والا کردے اپنے فضل سے ( ف۷۱ ) اور تمہارے ہاتھ کی مِلک باندی غلاموں میں سے جو یہ چاہیں کہ کچھ مال کمانے کی شرط پر انھیں آزادی لکھ دو تو لکھ دو ( ف۷۲ ) اگر ان میں کچھ بھلائی جانو ( ف۷۳ ) اور اس پر ان کی مدد کرو اللہ کے مال سے جو تم کو دیا ( ف۷٤ ) اور مجبور نہ کرو اپنی کنیزوں کو بدکاری پر جب کہ وہ بچنا چاہیں تاکہ تم دنیوی زندگی کا کچھ مال چاہو ( ف۷۵ ) اور جو انھیں مجبور کرے گا تو بیشک اللہ بعد اس کے کہ وہ مجبوری ہی کی حالت پر رہیں بخشنے والا مہربان ہے ( ف۷٦ )
اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انھیں چاہیے کہ عفّت مآبی اختیار کریں ، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے ۔ 54 اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں 55 ان سے مکاتبت کر لو 56 اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے 57 ، اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے ۔ 58 اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں 59 ، اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفور و رحیم ہے ۔
اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح ( کی استطاعت ) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے ، اور تمہارے زیردست ( غلاموں اور باندیوں ) میں سے جو مکاتب ( کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد ) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب ( مذکورہ شرط پر آزاد ) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو ، اور تم ( خود بھی ) انہیں اللہ کے مال میں سے ( آزاد ہونے کے لئے ) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے ، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن ( یا حفاطتِ نکاح میں ) رہنا چاہتی ہیں ، اور جو شخص انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد ( بھی ) بڑا بخشنے والا مہربان ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :54 ان آیات کی بہترین تفسیر وہ احادیث ہیں جو اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : یا معشر الشباب ، من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر و احصن للفرج و من لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء ، نوجوانو ، تم میں سے جو شخص شادی کر سکتا ہو اسے کر لینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو بد نظری سے بچانے اور آدمی کی عفت قائم رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے ۔ اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے ، کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں ۔ ( بخاری و مسلم ) ۔ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا : ثلٰثۃ حق علی اللہ عونہم ، الناکح یرید العفاف ، والمکاتب یرید الاداء ، والغازی فی سبیل اللہ ، تین آدمی ہیں جن کی مدد اللہ کے ذمے ہے ، ایک وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے لیے نکاح کرے ، دوسرے وہ مکاتب جو مال کتابت ادا کرنے کی نیت رکھے ، تیسرے وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے ( ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، احمد ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء ، آیت 25 ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :55 مُکاتَبت کے لفظی معنی تو ہیں لکھا پڑھی ، مگر اصطلاح میں یہ لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے کہ کوئی غلام یا لونڈی اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کو ایک معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کرے اور جب آقا اسے قبول کر لے تو دونوں کے درمیان شرائط کی لکھا پڑھی ہو جائے ۔ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے لیے جو صورتیں رکھی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ معاوضہ مال ہی کی شکل میں ہو ۔ آقا کے لیے کوئی خاص خدمت انجام دینا بھی معاوضہ بن سکتا ہے ، بشرطیکہ فریقین اس پر راضی ہو جائیں ۔ معاہدہ ہو جانے کے بعد آقا کو یہ حق نہیں رہتا کہ غلام کی آزادی میں بیجا رکاوٹیں ڈالے ۔ وہ اس کو مال کتابت فراہم کرنے کے لیے کام کرنے کا موقع دے گا اور مدت مقررہ کے اندر جب بھی غلام اپنے ذمے کی رقم یا خدمت انجام دے دے وہ اس کو آزاد کردے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک غلام نے اپنی مالکہ سے مکاتبت کی اور مدت مقررہ سے پہلے ہی مال کتابت فراہم کر کے اس کے پاس لے گیا ۔ مالکہ نے کہا کہ میں تو یک مشت نہ لوں گی بلکہ سال بسال اور ماہ بماہ قسطوں کی صورت میں لوں گی ۔ غلام نے حضرت عمر سے شکایت کی ۔ انہوں نے فرمایا یہ رقم بیت المال میں داخل کر دے اور جا تو آزاد ہے ۔ پھر مالکہ کو کہلا بھیجا کہ تیری رقم یہاں جمع ہو چکی ہے ، اب تو چاہے یک مشت لے لے ورنہ ہم تجھے سال بسال اور ماہ بماہ دیتے رہیں گے ( دار قطنی بروایت ابو سعید مقبری ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :56 اس آیت کا مطلب فقہاء کے ایک گروہ نے یہ لیا ہے کہ جب کوئی لونڈی یا غلام مکاتبت کی درخواست کرے تو آقا پر اس کا قبول کرنا واجب ہے ۔ یہ عطاء ، عمر و بن دینار ، ابن سیرین ، مسروق ، ضحاک ، عکرمہ ، ظاہریہ ، اور ابن جریر طبری کا مسلک ہے اور امام شافعی بھی پہلے اسی کے قائل تھے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب اور مندوب ہے ۔ اس گروہ میں شعبی ، مقاتل بن حیان ، حسن نصری ، عبد الرحمٰن بن زید ، سفیان ثوری ، ابو حنیفہ اور مالک بن انس جیسے بزرگ شامل ہیں ، اور آخر میں امام شافعی بھی اسی کے قائل ہو گئے تھے ۔ پہلے گروہ کے مسلک کی تائید دو چیزیں کرتی ہیں ۔ ایک یہ کہ آیت کے الفاظ ہیں کَاتِبُوْھُمْ ، ان سے مکاتبت کر لو ۔ یہ الفاظ صاف طور پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔ دوسرے یہ کہ معتبر روایات سے ثابت ہے کہ مشہور فقیہ ( محدث حضرت محمد بن سیرین کے والد سیرین نے اپنے آقا حضرت انس سے جب مکاتبت کی درخواست کی اور انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو سیرین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس شکایت لے گئے ۔ انہوں نے واقعہ سنا تو درہ لے کر حضرت انس پر پل پڑے اور فرمایا اللہ کا حکم ہے کہ مکاتبت کر لو ( بخاری ) ۔ اس واقعہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا ذاتی فعل نہیں بلکہ صحابہ کی موجودگی میں کیا گیا تھا اور کسی نے اس پر اظہار اختلاف نہیں کیا ، لہٰذا یہ اس آیت کی مستند تفسیر ہے ۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف فکاتبوھم نہیں فرمایا ہے بلکہ فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا ارشاد فرمایا ہے ، یعنی ان سے مکاتبت کرلو اگر ان کے اندر بھلائی پاؤ یہ بھلائی پانے کی شرط ایسی ہے جس کا انحصار مالک کی رائے پر ہے ، اور کوئی متعین معیار اس کا نہیں ہے جسے کوئی عدالت جانچ سکے ۔ قانونی احکام کی یہ شان نہیں ہوا کرتی ۔ اس لیے اس حکم کو تلقین اور ہدایت ہی کے معنی میں لیا جائے گا نہ کہ قانونی حکم کے معنی میں ۔ اور سیرین کی نظیر کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی ایک غلام تو نہ تھا جس نے مکاتبت کی درخواست کی ہو ۔ ہزارہا غلام عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ میں موجود تھے ، اور بکثرت غلاموں نے مکاتبت کی ہے ۔ سیرین والے واقعہ کے سوا کوئی مثال ہم کو نہیں ملتی کہ کسی آقا کو عدالتی حکم کے ذریعہ سے مکاتبت پر مجبور کیا گیا ہو ۔ لہٰذا حضرت عمر کے اس فعل کو ایک عدالتی فعل سمجھنے کے بجائے ہم اس معنی میں لیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محض قاضی ہی نہ تھے بلکہ افراد ملت کے ساتھ ان کا تعلق باپ اور اولاد کا سا تھا ۔ بسا اوقات وہ بہت سے ایسے معاملات میں بھی دخل دیتے تھے جن میں ایک باپ تو دخل دے سکتا ہے مگر ایک حاکم عدالت دخل نہیں دے سکتا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :57 بھلائی سے مراد تین چیزیں ہیں : ایک یہ کہ غلام میں مال کتابت ادا کرنے کی صلاحیت ہو ، یعنی وہ کما کر یا محنت کر کے اپنی آزادی کا فدیہ ادا کر سکتا ہو ، جیسا کہ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان علمتم فیھم حرفۃ ولا ترسلوھم کلَّا علی الناس ، اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ کما سکتا ہے تو مکاتبت کرو ۔ یہ نہ ہو کہ اسے لوگوں سے بھیک مانگتے پھرنے کے لیے چھوڑ دو ۔ ( ابن کثیر بحوالہ ابو داؤد ) دوسرے یہ کہ اس میں اتنی دیانت اور راست بازی موجود ہو کہ اس کے قول پر اعتماد کر کے معاہدہ کیا جا سکے ۔ ایسا نہ ہو مکاتبت کر کے وہ مالک کی خدمت سے چھٹی بھی پالے اور جو کچھ اس دوران میں کمائے اسے کھا پی کر برابر بھی کر دے ۔ تیسرے یہ کہ مالک اس میں ایسے برے اخلاقی رجحانات ، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کے ایسے تلخ جذبات نہ پاتا ہو جن کی بنا پر یہ اندیشہ ہو کہ اس کی آزادی مسلم معاشرے کے لیے خطرناک ہو گی ۔ بالفاظ دیگر اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہو کہ مسلم معاشرے کا ایک اچھا آزاد شہری بن سکے گا نہ کہ آستین کا سانپ بن کر رہے گا ۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ معاملہ جنگی قیدیوں کا بھی تھا جن کے بارے میں یہ احتیاطیں ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت تھی ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :58 یہ عام حکم ہے جس کے مخاطب آقا بھی ہیں ، عام مسلمان بھی اور اسلامی حکومت بھی ۔ آقاؤں کی ہدایت ہے کہ مال کتابت میں سے کچھ نہ کچھ معاف کر دو ، چنانچہ متعدد روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام اپنے مکاتبوں کو مال کتابت کا ایک معتدبہ حصہ معاف کر دیا کرتے تھے ، حتیٰ کہ حضرت علی نے تو ہمیشہ ¼ حصہ معاف کیا ہے اور اس کی تلقین فرمائی ہے ( ابن جریر ) ۔ عام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ جو مکاتب بھی اپنا مال کتابت ادا کرنے کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرے ، وہ دل کھول کر اس کی امداد کریں ۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے جو مصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک فی الرقاب بھی ہے ، یعنی گردنوں کو بند غلامی سے رہا کرانا ( سورہ توبہ ، آیت 60 ) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک فک رقبہ گردن کا بند کھولنا’ ’ایک بڑی نیکی کا کام ہے ( سورہ بلد آیت 13 ) ۔ حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں پہنچا دے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے بڑے مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات پوچھ ڈالی ۔ غلام آزاد کر ، غلاموں کو آزادی حاصل کرنے میں مدد دے ، کسی کو جانور دے تو خوب دودھ دینے والا دے ، اور تیرا جو رشتہ دار تیرے ساتھ ظلم سے پیش آئے اس کے ساتھ نیکی کر ۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو بھوکے کو کھانا کھلا ، پیاسے کو پانی پلا ، بھلائی کی تلقین کر ، برائی سے منع کر ۔ اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو اپنی زبان کو روک کر رکھ ۔ کھلے تو بھلائی کے لیے کھلے ورنہ بند رہے ( بیہقی فی شعب الایمان عن البرائ بن عازب ) ۔ اسلامی حکومت کو بھی ہدایت ہے کہ بیت المال میں جو زکوٰۃ جمع ہو اس میں سے مکاتب غلاموں کی رہائی کے لیے ایک حصہ خرچ کریں ۔ اس موقع پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے تھے ۔ ایک جنگی قیدی ۔ دوسرے ، آزاد آدمی جن کو پکڑ پکڑ کر غلام بنایا اور بیچ ڈالا جاتا تھا ۔ تیسرے وہ جو نسلوں سے غلام چلے آ رہے تھے اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے آباء و اجداد کب غلام بنائے گئے تھے اور دونوں قسموں میں سے کس قسم کے غلام تھے ۔ اسلام جب آیا تو عرب اور بیرون عرب ، دنیا بھر کا معاشرہ ان تمام اقسام کے غلاموں سے بھرا ہوا تھا اور سارا معاشی نظام مزدوروں اور نوکروں سے زیادہ ان غلاموں کے سہارے چل رہا تھا ۔ اسلام کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ یہ غلام جو پہلے سے چلے آ رہے ہیں ان کا کیا کیا جائے ۔ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آئندہ کے لیے غلامی کے مسئلے کا کیا حل ہے ۔ پہلے سوال کے جواب میں اسلام نے یہ نہیں کیا کہ یکلخت قدیم زمانے کے تمام غلاموں پر ایسے لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کر دیتا ، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ پورا معاشرتی و معاشی نظام مفلوج ہو جاتا ، بلکہ عرب کو امریکہ کی خانہ جنگی سے بھی بدرجہا زیادہ سخت تباہ کن خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑتا اور پھر بھی اصل مسئلہ حل نہ ہوتا جس طرح امریکہ میں حل نہ ہو سکا اور سیاہ فام لوگوں ( Negroes ) کی ذات کا مسئلہ بہرحال باقی رہ گیا ۔ اس احمقانہ طریق اصلاح کو چھوڑ کر اسلام نے فکّ رَقَبَہ کی ایک زبردست اخلاق تحریک شروع کی اور تلقین و ترغیب مذہبی احکام اور ملکی قوانین کے ذریعہ سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ یا تو آخرت کی نجات کے لیے طوعاً غلاموں کو آزاد کریں ، یا اپنے قصوروں کے کفارے ادا کرنے کے لیے مذہبی احکام کے تحت انہیں رہا کریں ، یا مالی معاوضہ لے کر ان کو چھوڑ دیں ، اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود 63 غلام آزاد کیے ۔ آپ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 تھی ۔ حضور کے چچا حضرت عباس نے اپنی زندگی میں 70 غلاموں کو آزاد کیا ۔ حکیم بن جزام نے 100 ، عبد اللہ بن عمر نے ایک ہزار ، ذوالکلاع حمیری نے آٹھ ہزار ، اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی ۔ ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے نام بہت ممتاز ہیں ۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے ۔ اس طرح جہاں تک سابق دور کے غلاموں کا تعلق ہے ، وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً سب کے سب رہا ہو چکے تھے ۔ اب رہ گیا آئندہ کا مسئلہ ۔ اس کے لیے اسلام نے غلامی کی اس شکل کو تو قطعی حرام اور قانوناً مسدود کر دیا کہ کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنایا اور بیچا اور خریدا جائے ۔ البتہ جنگی قیدیوں کو صرف اس صورت میں غلام بنا کر رکھنے کی اجازت ( حکم نہیں بلکہ اجازت ) دی جبکہ ان کی حکومت ہمارے جنگی قیدیوں سے ان کا تبادلہ کرنے پر راضی نہ ہو ، اور وہ خود بھی اپنا فدیہ ادا نہ کریں ۔ پھر ان غلاموں کے لیے ایک طرف اس امر کا موقع کھلا رکھا گیا کہ وہ اپنے مالکوں سے مکاتبت کر کے رہائی حاصل کرلیں اور دوسری طرف وہ تمام ہدایات ان کے حق میں موجود رہیں جو قدیم غلاموں کے بارے میں تھیں کہ نیکی کا کام سمجھ کر رضائے الٰہی کے لیے انہیں آزاد کیا جائے ، یا گناہوں کے کفارے میں ان کو آزادی بخش دی جائے ، یا کوئی شخص اپنی زندگی تک اپنے غلام کو غلام رکھے اور بعد کے لیے وصیت کر دے کہ اس کے مرتے ہی وہ آزاد ہو جائے گا ( جسے اسلامی فقہ کی اصطلاح میں تدبیر اور ایسے غلام کو مدبر کہتے ہیں ) ، یا کوئی شخص اپنی لونڈی سے تمتع کرے اور اس کے ہاں اولاد ہو جائے ، اس صورت میں مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی خواہ مالک نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حل ہے جو اسلام نے غلامی کے مسئلے کا کیا ہے ۔ جاہل معترضین اس کو سمجھے بغیر اعتراضات جڑتے ہیں ، اور معذرت پیشہ حضرات اس کی معذرتیں پیش کرتے کرتے آخر کار اس امر واقعہ ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے غلام کو کسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا تھا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :59 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں خود پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہوں تو ان کو قحبہ گری پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لونڈی خود اپنی مرضی سے بد کاری کی مرتکب ہو تو وہ اپنے جرم کی آپ ذمہ دار ہے ، قانون اس کے جرم پر اسی کو پکڑے گا ، لیکن اگر اس کا مالک جبر کر کے اس سے یہ پیشہ کرائے تو ذمہ داری مالک کی ہے اور وہی پکڑا جائے گا ۔ اور ظاہر ہے کہ جبر کا سوال پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جبکہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی کام پر مجبور کیا جائے ۔ رہا دنیوی فائدوں کی خاطر کا فقرہ ، تو دراصل یہ ثبوت حکم کے لیے شرط اور قید کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے کہ اگر مالک اس کی کمائی نہ کھا رہا ہو تو لونڈی کو قحبہ گری پر مجبور کرنے میں وہ مجرم نہ ہو ، بلکہ اس سے مقصود اس کمائی کو بھی حرمت کے حکم میں شامل کرنا ہے جو اس ناجائز جبر کے ذریعہ حاصل کی گئی ہو ۔ لیکن اس حکم کا پورا مقصد محض اس کے الفاظ اور سیاق و سباق سے سمجھ میں نہیں آ سکتا ۔ اسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں یہ نازل ہوا ہے ۔ اس وقت عرب میں قحبہ گری کی دو صورتیں رائج تھیں ۔ ایک خانگی کا پیشہ ۔ دوسرے باقاعدہ چکلہ ۔ خانگی کا پیشہ کرنے والی زیادہ تر آزاد شدہ لونڈی ہوتی تھیں جن کا کوئی سرپرست نہ ہوتا ، یا ایسی آزاد عورتیں ہوتی تھیں جن کی پشت پناہی کرنے والا کوئی خاندان یا قبیلہ نہ ہوتا ۔ یہ کسی گھر میں بیٹھ جاتیں اور کئی کئی مردوں سے بیک وقت ان کا معاہدہ ہو جاتا کہ وہ ان کو مدد خرچ دیں گے اور اپنی حاجت رفع کرتے رہیں گے ۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو عورت ان مردوں میں سے جس کے متعلق کہہ دیتی کہ یہ بچہ اس کا ہے اسی کا بچہ وہ تسلیم کر لیا جاتا تھا ۔ یہ گویا معاشرے میں ایک مسلَّم ادارہ تھا جسے اہل جاہلیت ایک قسم کا نکاح سمجھتے تھے ۔ اسلام نے آ کر نکاح کے صرف اس معروف طریقے کو قانونی نکاح قرار دیا جس میں ایک عورت کا صرف ایک شوہر ہوتا ہے اور اس طرح باقی تمام صورتیں زنا میں شمار ہو کر آپ سے آپ جرم ہو گئیں ( ابو داؤد ، باب فی وجوہ النکاح التی کان یتناکح اہل الجاہلیہ ) ۔ دوسری صورت ، یعنی کھلی قحبہ گری ، تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی ۔ اس کے دو طریقے تھے ۔ ایک یہ کہ لوگ اپنی جوان لونڈیوں پر ایک بھری رقم عائد کر دیتے تھے کہ ہر مہینے اتنا کما کر ہمیں دیا کرو ، اور وہ بے چاریاں بدکاری کرا کرا کر یہ مطالبہ پورا کرتی تھیں ، اس کے سوا نہ کسی دوسرے ذریعہ سے وہ اتنا کما سکتی تھیں ، نہ مالک ہی یہ سمجھتے تھے کہ وہ کسی پاکیزہ کسب کے ذریعہ سے یہ رقم لایا کرتی ہیں ، اور نہ جوان لونڈیوں پر عام مزدوری کی شرح سے کئی کئی گنی رقم عائد کرنے کی کوئی دوسری معقول وجہ ہی ہو سکتی تھی ۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی جوان جوان اور خوبصورت لونڈیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیتے تھے اور ان کے دروازوں پر جھنڈے لگا دیتے تھے جنہیں دیکھ کر دور ہی سے معلوم ہو جاتا تھا کہ حاجتمند آدمی کہاں اپنی حاجت رفع کر سکتا ہے ۔ یہ عورتیں قلیقیات کہلاتی تھیں اور ان کے گھر مواخیر کے نام سے مشہور تھے ۔ بڑے بڑے معزز رئیسوں نے اس طرح کے چکلے کھول رکھے تھے ۔ خود عبد اللہ بن ابی ( رئیس المنافقین ، وہی صاحب جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا طے کر چکے تھے ، اور وہی صاحب جو حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں سب سے پیش پیش تھے ) مدینے میں ان کا ایک باقاعدہ چکلہ موجود تھا جس میں چھ خوبصورت لونڈیاں رکھی گئی تھیں ۔ ان کے ذریعہ سے وہ صرف دولت ہی نہیں کماتے تھے بلکہ عرب کے مختلف حصوں سے آنے والے معزز مہمانوں کی تواضع بھی ان ہی سے فرمایا کرتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد سے اپنے خدم و حشم کی فوج بھی بڑھاتے تھے ۔ ان ہی لونڈیوں میں سے ایک ، جس کا نام مُعاذہ تھا ، مسلمان ہو گئی اور اس نے توبہ کرنی چاہی ۔ ابن ابی نے اس پر تشدد کیا ۔ اس نے جا کر حضرت ابو بکر سے شکایت کی ۔ انہوں نے معاملہ سرکار تک پہنچایا ، اور سرکار رسالت مآپ نے حکم دے دیا کہ لونڈی اس ظالم کے قبضے سے نکال لی جائے ( ابن جریر ، ج 18 ، ص 55 تا 58 ۔ 103 ۔ 104 ۔ الانتِیعاب لا بن عبد البر ، ج 2 ، ص 762 ۔ ابن کثیر ، ج3 ، 288 ۔ 289 ) ۔ یہی زمانہ تھا جب بارگاہ خداوندی سے یہ آیت نازل ہوئی ۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اصل مقصود محض لونڈیوں کو جرم زنا پر مجبور کرنے سے روکنا نہیں ہے بلکہ دولت اسلامیہ کے حدود میں قحبہ گری ( Prostitution ) کے کاروبار کو بالکل خلاف قانون قرار دے دینا ہے ، اور ساتھ ساتھ ان عورتوں کے لیے اعلان معافی بھی ہے جو اس کاروبار میں جبراً استعمال کی گئی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان آ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ : لا مُسَاعاۃ فی الاسلام اسلام میں قحبہ گری کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ( ابو داؤد بروایت ابن عباس ، باب فی ادعاء ولد الزنا ) دوسرا حکم جو آپ نے دیا وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام ، ناپاک اور قطعی ممنوع ہے ۔ رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ آپ نے مہر البغیِ یعنی زنا کے معاوضے کو خبیث اور شرّ المکاسب ، ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا ( ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ) ۔ ابو جُحَیفَہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسب البغی ، یعنی پیشۂ زنا سے کمائی ہوئی آمدنی کو حرام ٹھہرایا ( بخاری ، مسلم ، احمد ) ۔ ابو مسعود بن عمرو کی روایت ہے کہ آپ نے مَھر البَغیِ کا لین دین ممنوع قرار دیا ( صحاح ستہ و احمد ۔ ) تیسرا حکم آپ نے یہ دیا کہ لونڈی سے جائز طور پر صرف ہاتھ پاؤں کی خدمت لی جا سکتی ہے اور مالک کوئی ایسی رقم اس پر عائد ، یا اس سے وصول نہیں کر سکتا جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ یہ رقم وہ کہاں سے اور کیا کر کے لاتی ہے ۔ رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کسْب الْاَمَۃ حتی یُعلَم من این ھو ، رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے لونڈی سے کوئی آمدنی وصول کرنا ممنوع قرار دیا جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ یہ آمدنی اسے کہاں سے حاصل ہوتی ہے ( ابو داؤد ، کتاب الاجارہ ) ۔ رافع بن رِفَاعَہ انصاری کی روایت میں اس سے زیادہ واضح حکم ہے کہ نھانا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کسب الامۃ الا ماعملت بیدھا و قال ھٰکذا باصابعہ نحو الخبز والغزل و النفش ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو لونڈی کی کمائی سے منع کیا بجز اس کے جو وہ ہاتھ کی محنت سے حاصل کرے ، اور آپ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یوں ، جیسے روٹی پکانا ، صوت کاتنا ، یا اون اور روئی دھنکنا ( مسند اھمد ، ابو داؤد ، و کتاب الجارہ ) ۔ اسی معنی میں ایک روایت ابو داؤد اور مسند احمد میں حضرت ابو ہُریرہ سے بھی مروی ہے جس میں کسب الاماء ( لونڈیوں کی کمائی ) اور مھر البغی ( زنا کی آمدنی وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی اس آیت کے منشا کے مطابق قحبہ گری کی ان تمام صورتوں کو مذہباً ناجائز اور قانوناً ممنوع قرار دے دیا جو اس وقت عرب میں رائج تھیں ۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ، عبد اللہ بن ابی کی لونڈی معاذہ کے معاملہ میں جو کچھ آپ نے فیصلہ فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی سے اس کا مالک جبراً پیشہ کرائے اس پر سے مالک کی ملکیت بھی ساقط ہو جاتی ہے ۔ یہ امام زُہری کی روایات ہے جسے ابن کثیر نے مسند عبدالرزاق کے حوالہ سے نقل کیا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :60 اس آیت کا تعلق صرف اوپر کی آخری آیت ہی سے نہیں ہے بلکہ اس پورے سلسلۂ بیان سے ہے جو آغاز سورہ سے یہاں تک چلا آ ٍرہا ہے ۔ صاف صاف ہدایتیں دینے والی آیات سے مراد وہ آیات ہیں جنمیں زنا اور قذف اور لعان کا قانون بیان کیا گیا ہے ، بد کار مردوں اور عورتوں سے اہل ایمان کو شادی بیاہ کے معاملہ میں مقاطعہ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، شریف لوگوں پر بے بنیاد تہمتیں لگانے اور معاشرے میں فواحش کی اشاعت کرنے سے روکا گیا ہے ، مردوں اور عورتوں کو غض بصر اور حفظ فروج کی تاکید کی گئی ہے ، عورتوں کے لیے پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں ، شادی کے قابل لوگوں کے مجرد بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے ، غلاموں کی آزادی کے لیے کتابت کی صورت تجویز کی گئی ہے ، اور معاشرے کو قحبہ گری کی لعنت سے پاک کرنے کا حکام دیا گیا ہے ۔ ان ارشادات کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے ڈر کر سیدھی راہ اختیار کر لینے والوں کو جس طرح تعلیم دی جاتی ہے وہ تو ہم نے دے دی ہے ، اب اگر تم اس تعلیم کے خلاف چلو گے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تم ان قوموں کا سا انجام دیکھنا چاہتے ہو جن کی عبرتناک مثالیں خود اسی قرآن میں ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غالباً ایک حکم نامے کے اختتام پر اس سے زیادہ سخت تنبیہ کے الفاظ اور کوئی نہیں ہو سکتے ۔ مگر آفرین ہے اس قوم پر جو ماشاء اللہ مومن بھی ہو اور اس حکم نامے کی تلاوت بھی کرے اور پھر ایسی سخت تنبیہ کے باوجود اس حکم نامے کی خلاف ورزی بھی کرتی رہے !