Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فِىۡ بُيُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَيُذۡكَرَ فِيۡهَا اسۡمُهٗۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيۡهَا بِالۡغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِۙ‏ ﴿36﴾
ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالٰی کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔
في بيوت اذن الله ان ترفع و يذكر فيها اسمه يسبح له فيها بالغدو و الاصال
[Such niches are] in mosques which Allah has ordered to be raised and that His name be mentioned therein; exalting Him within them in the morning and the evenings
Unn gharon mein jin kay buland kerney aur jin mein apnay naam ki yaad ka Allah Taalaa ney hukum diya hai wahan subha-o-shaam Allah Taalaa ki tasbeeh biyan kertay hain.
جن گھروں کے بارے میں اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ ان کو بلند مقام دیا جائے اور ان میں اس کا نام لے کر ذکر کیا جائے ، ان میں صبح و شام وہ لوگ تسبیح کرتے ہیں
ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ( ف۸٤ ) اور ان میں اس کا نام لیا جاتا ہے ، اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ان میں صبح اور شام ( ف۸۵ )
﴿اس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے﴾ ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا ، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ۔ 68 ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں
۔ ( اللہ کا یہ نور ) ایسے گھروں ( مساجد اور مراکز ) میں ( میسر آتا ہے ) جن ( کی قدر و منزلت ) کے بلند کئے جانے اور جن میں اللہ کے نام کا ذکر کئے جانے کا حکم اللہ نے دیا ہے ( یہ وہ گھر ہیں کہ اللہ والے ) ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :68 بعض مفسرین نے ان گھروں سے مراد مساجد لی ہیں ، اور ان کو بلند کرنے سے مراد ان کو تعمیر کرنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا لیا ہے ۔ اور بعض دوسرے مفسرین ان سے مراد اہل ایمان کے گھر لیتے ہیں اور انہیں بلند کرنے کا مطلب ان کے نزدیک انہیں اخلاقی حیثیت سے بلند کرنا ہے ۔ ان مین اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ، یہ الفاظ بظاہر مسجد والی تفسیر کے زیادہ مؤید نظر آتے ہیں ، مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری تفسیر کے بھی اتنے ہی مؤید ہیں جتنے پہلی تفسیر کے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ کی شریعت کہانت زدہ مذاہب کی طرح عبادت کو صرف معبدوں تک ہی محدود نہیں رکھتے جہاں کاہن یا پوجاری طبقے کے کسی فرد کی پیشوائی کے بغیر مراسم بندگی ادا نہیں کیے جا سکتے ، بلکہ یہاں مسجد کی طرح گھر بھی عبادت گاہ ہے اور ہر شخص اپنا پروہت آپ ہے ۔ چونکہ اس سورے میں تمام تر خانگی زندگی کو اعلیٰ و ارفع بنانے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں ، اس لیے دوسری تفسیر ہم کو موقع و محل کے لحاظ سے زیادہ لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، اگرچہ پہلی تفسیر کو بھی رد کر دینے کے لیے کوئی معقول دلیل نہیں ہے ۔ کیا مضائقہ ہے اگر اس سے مراد مومنوں کے گھر اور ان کی مسجدیں ، دونوں ہی ہوں ۔
مومن کے دل سے مماثلت مومن کے دل کی اور اس میں جو ہدایت وعلم ہے اس کی مثال اوپر والی آیت میں اس روشن چراغ سے دی تھی جو شیشہ کی ہانڈی میں ہو اور صاف زیتون کے روشن تیل سے جل رہا ہے ۔ اس لیئے یہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کی توحید بیان کی جاتی ہے ۔ جن کی نگہبانی اور پاک صاف رکھنے کا اور بیہودہ اقوال وافعال سے بچانے کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ان ترفع کے معنی اس میں بیہودگی نہ کرنے کے ہیں ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے یہی مسجدیں ہیں جن کی تعمیر ، آبادی ، ادب اور پاکیزگی کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ کعب رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ زمین پر مسجدیں میرا گھر ہیں ، جو بھی باوضو میرے گھر پر میری ملاقات کے لئے آئے گا ، میں اس کی عزت کرونگا ہر اس شخص پر جس سے ملنے کے لئے کوئی اس کے گھر آئے حق ہے کہ وہ اس کی تکریم کرے ( تفسیر ابن ابی حاتم ) مسجدوں کے بنانے اور ان کا ادب احترام کرنے انہیں خوشبودار اور پاک صاف رکھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جنہیں بحمد اللہ میں نے ایک مستقل کتاب میں لکھا ہے یہاں بھی ان میں سے تھوڑی بہت وارد کرتا ہوں ، اللہ مدد کرے اسی پر بھروسہ اور توکل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے ( بخاری ومسلم ) فرماتے ہیں نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لئے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے ۔ ( ابن ماجہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں ( ترمذی شریف ) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے لوگوں کے لئے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں ۔ ( بخاری شریف ) ایک ضعیف سند سے مروی ہے کہ جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا ، نقش ونگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے ( ابن ماجہ ) اس کی سند ضعیف ہے ۔ آپ فرماتے ہیں مجھے مسجدوں کو بلند وبالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ ابن عباس راوی حدیث فرماتے ہیں کہ تم یقینا مسجدوں کو مزین ، منقش اور رنگ دار کروگے جیسے کہ یہودونصاری نے کیا ( ابو داؤد ) فرماتے ہیں قیامت قارئم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخروغرور نہ کرنے لگیں ( ابوداؤد وغیرہ ) ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے ۔ آپ نے بددعا کی کہ اللہ کرے تجھے نہ ملے ۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لئے بنائی گئی ہیں ، اسی کام کے لئے ہیں ( مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں خریدوفروخت ، تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرمادیا ہے ( احمد وغیرہ ) فرمان ہے کہ جسے مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گم شدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے ۔ ( ترمذی ) بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں ، مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے ، نہ تیر پھیلائے جائیں نہ کچا گوشت لایا جائے ، نہ یہاں حد ماری جائے ، نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں نہ اسے بازار بنایا جائے ( ابن ماجہ ) فرمان ہے کہ ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو ، دیوانوں کو ، خیریدوفروخت کو ، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو ۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو ( ابن ماجہ ) اس کی سند ضعیف ہے ۔ بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزر گاہ بنانا مکروہ کہا ہے ۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے ، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں ۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لئے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسان نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے ۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے ۔ کچا گوشت لانا اس لئے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لئے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کردے ۔ بازار بنانا اس لئے منع ہے کہ وہ خریدوفروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں ۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا تھا ، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کردیا تھا کہ مسجدیں اس لئے نہیں بنیں ، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے ۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا ۔ دوسری حدیث میں ہے اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو اس لئے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں ۔ چنانچہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی بچے کو مسجد میں کھیلتا ہوا دیکھ لیتے تو اسے کوڑے سے پیٹتے اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں کسی کو نہ رہنے دیتے ۔ دیوانوں کو بھی مسجدوں سے روکا گیا کیونکہ وہ بےعقل ہوتے ہیں اور لوگوں کے مذاق کا ذریعہ ہوتے ہیں اور مسجد اس تماشے کے لائق نہیں ۔ اور یہ بھی ہے کہ ان کی نجاست وغیرہ کا خوف ہے ۔ بیع وشرا سے روکا گیا کیونکہ وہ ذکر اللہ سے مانع ہے ۔ جھگڑوں کی مصالحتی مجلس منعقد کرنے سے اس لئے منع کر دیا گیا کہ اس میں آوازیں بلند ہوتی ہیں ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں جو آداب مسجد کے خلاف ہیں ۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ فیصلے مسجد میں نہ کئے جائیں اسی لئے اس جملے کے بعد بلند آواز سے منع فرمایا ۔ سائب بن یزید کندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں میں مسجد میں کھڑا تھا کہ اچانک مجھ پر کسی نے کنکر پھینکا ، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے مجھ سے فرمانے لگے ، جاؤ ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لاؤ ، جب میں آپ کے پاس انہیں لایا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا ۔ تم کون ہو ؟ یا پوچھا کہ تم کہاں کے ہو ؟ انہوں نے کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اگر تم یہاں رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا تم مسجد نبوی میں اونچی اونچی آوازوں سے بول رہے ہو ؟ ( بخاری ) ایک شخص کی اونچی آواز سن کر جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا ۔ جانتا بھی ہے تو کہاں ہے ۔ ( نسائی ) اور مسجد کے دروازوں پر وضوکرنے والے اور پاکیزگی حاصل کرنے کی جگہ بنانے کا حکم دیا ۔ مسجد نبوی کے قریب ہی کنویں تھے جن میں سے پانی کھینچ کر پیتے تھے اور وضو اور پاکیزگی حصل کرتے تھے ۔ اور جمعہ کے دن اسے خوشبودار کرنے کا حکم ہوا ہے کیونکہ اس دن لوگ بکثر جمع ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر جمعہ کے دن مسجد نبوی کو مہکایا کرتے تھے ۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جماعت کی نماز انسان کی اکیلی نماز پر جو گھر میں یا دوکان پر پڑھی جائے ، پچیس درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے ، یہ اس لئے کہ جب وہ اچھی طرح سے وضو کرکے صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے تو ہر ایک قدم کے اٹھانے پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور جب نماز پڑھ چکتا ہے پھر جت تک وہ اپنی نماز کی جگہ رہے ، فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرما اور اس پر رحم کر ۔ اور جب تک جماعت کے انتظار میں رہے نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے ۔ دار قطنی میں ہے مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا نہیں ہوتی ۔ سنن میں ہے اندھیروں میں مسجد جانے والوں کو خوشخبری سنادو کہ انہیں قیامت کے دن پورا پورا نور ملے گا ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں جانے والا پہلے اپنا داہنا قدم رکھے اور یہ دعا پڑھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں آتے یہ کہتے دعا ( اعوذ باللہ العظیم وبوجہہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم ) فرمان ہے کہ جب کوئی شخص یہ پڑھتا ہے شیطان کہتا ہے میرے شر سے یہ تمام دن محفوظ ہوگیا ۔ مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ تم میں سے کوئی مسجد میں جانا چاہے یہ دعا پڑھے ( اللہم افتح لی ابو ابک رحمتک ) اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے پھر دعا ( اللہم افتح لی ابو اب رحمتک ) پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیج کر دعا ( اللم اعصمنی من الشیطان الرجیم ) پڑھے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ جب آپ مسجد میں آتے تو درود پڑھ کر دعا ( اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب رحمتک ) پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود کے بعد دعا ( اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب فضلک ) پڑھتے ۔ اس حدیث کی سند متصل نہیں ۔ الغرض یہ اور ان جیسی اور بہت سی حدیثیں اس آیت کے متعلق ہیں جو مسجد اور احکام مسجد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ۔ اور آیت میں ہے تم ہر مسجد میں اپنا منہ سیدھا رکھو ۔ اور خلوص کے ساتھ صرف اللہ کو پکارو ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں ۔ اس کا نام ان میں لیا جائے یعنی کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے ۔ صبح شام وہاں اس اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں آصال جمع ہے اصیل کی ، شام کے وقت کو اصیل کہتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جہاں کہیں قرآن میں تسبیح کا لفظ ہے وہاں مراد نماز ہے ۔ پس یہاں مراد صبح کی اور عصر کی نماز ہے ۔ پہلے پہلے یہی دو نمازیں فرض ہوئی تھیں پس وہی یاد دلائی گئیں ۔ ایک قرأت میں یسبح ہے اور اس قرأت پر آصال پر پورا وقف ہے اور رجال سے پھر دوسری بات شروع ہے گویا کہ وہ مفسر ہے فاعل محذوف کے لئے ۔ تو گویا کہا گیا کہ وہاں تسبیح کون کرتے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ ایسے لوگ اور یسبح کی قرأت پر رجال فاعل ہے تو وقف فاعل کے بیان کے بعد چاہئے ۔ کہتے ہیں رجال اشارہ ہے ان کے بہترین مقاصد اور ان کی پاک نیتوں اور اعلی کاموں کی طرف یہ اللہ کے گھروں کے آباد رکھنے والے ہیں ۔ اس کی عبادت کی جگہیں ان سے زینت پاتی ہیں ، توحید اور شکر گزری کرنے والے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ 23؀ۙ ) 33- الأحزاب:23 ) ، یعنی مومنوں میں ایسے بھی مرد ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کئے تھے انہیں پورے کر دکھایا ۔ ہاں عورتوں کی بہترین مسجد گھر کے اندر کا کونا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت پسند کرتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا یہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تیری اپنے گھر کی نماز صحن کی نماز سے اور حجرے کی نماز گھر کی نماز سے اور گھر کی کوٹھڑی کی نماز حجرے کی نماز سے افضل ہے ۔ اور محلے کی مسجد سے افضل گھر کی نماز ہے اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے افضل ہے ۔ یہ سن کر مائی صاحبہ نے اپنے گھر کے بالکل انتہائی حصے میں ایک جگہ کو بطور مسجد کے مقرر کر لیا اور آخری گھڑی تک وہیں نماز پڑھتی رہیں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ ہاں البتہ عورتوں کے لئے بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ضرور ہے ۔ بشرطیکہ مردوں پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں اور نہ خوشبو لگا کر نکلیں ۔ صحیح حدیث میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ( بخاری مسلم وغیرہ ) ابو داؤد میں ہے کہ عورتوں کے لئے ان کے گھر افضل ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ وہ خوشبو استعمال کر کے نہ نکلیں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد آنا چاہے تو خوشبو کو ہاتھ بھی نہ لگائے ۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ مسلمان عورتیں صبح کی نماز میں آتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی چلی جاتی تھیں اور بوجہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے یہ جو نئی نئی باتیں نکالیں ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو پالیتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنو اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں ۔ ( بخاری مسلم ) ایسے لوگ جنہیں خرید و فروخت یاد الہٰی سے نہیں روکتی ۔ جیسے ارشاد ہے ایمان والو ، مال واولاد تمہیں ذکر اللہ سے غافل نہ کر دے ۔ سورہ جمعہ میں ہے کہ جمعہ کی اذان سن کر ذکر اللہ کی طرف چل پڑو اور تجارت چھوڑ دو ۔ مطلب یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کو دنیا اور متاع آخرت اور ذکر اللہ سے غافل نہ کر سکتی ، انہیں آخرت اور آخرت کی نعمتوں پر یقین کامل ہے اور انہیں ہمیشہ رہنے والا سمجھتے ہیں اور یہاں کی چیزوں کو فانی جانتے ہیں اس لئے انہیں چھوڑ کر اس طرف توجہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ، اس کی محبت کو ، اس کے احکام کو مقدم کرتے ہیں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ تجارت پیشہ حضرات کو اذان سن کر اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا یہ لوگ انہی میں سے ہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سوداگری یا تجارت کروں اگرچہ اس میں مجھے ہر دن تین سو اشرفیاں ملتی ہوں لیکن میں نمازوں کے وقت یہ سب چھوڑ کر ضرور چلا جاؤں گا ۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تجارت کرنا حرام ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم میں یہ وصف ہونا چاہئے ، جو اس آیت میں بیان ہو رہا ہے ۔ سالم بن عبداللہ نماز کے لئے جا رہے تھے ۔ دیکھا کہ مدینہ شریف کے سوداگر اپنی اپنی دوکانوں پر کپڑے ڈھک کر نماز کے لئے گئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی دوکان پر موجود نہیں تو یہی آیت پڑھی اور فرمایا یہ انہی میں سے ہیں جن کی تعریف جناب باری نے فرمائی ہے ۔ اس بات کا سلف میں یہاں تک خیال تھا کہ ترازو اٹھائے تول رہے ہیں اور اذان کان میں پڑی تو ترازو رکھ دی اور مسجد کی طرف چل دئے فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے کا انہیں عشق تھا ۔ وہ نماز کے اوقات کی ارکان اور آداب کی حفاظت کے ساتھ نمازوں کے پابند تھے ۔ یہ اس لئے کہ دلوں میں خوف الہٰی تھا قیامت کا آنا برحق جانتے تھے اس دن کی خوفناکی سے واقف تھے کہ سخت تر گھبراہٹ اور کامل پریشانی اور بیحد الجھن کی وجہ سے آنکھیں پتھرا جائیں گی ، دل اڑ جائیں گے ، کلیجے دہل جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے کہ میرے نیک بندے میری محبت کی بناپر مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں محض اللہ کی رضاجوئی کے لئے کھلا رہے ہیں ، ہمارا مقصد تم سے شکریہ طلب کرنے یا بدلہ لینے کا نہیں ۔ ہمیں تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جب کہ لوگ مارے رنج وغم کے منہ بسورے ہوئے اور تیوریاں بدلے ہوئے ہوں گے ۔ پس اللہ ہی انہیں اس دن کی مصیبتوں سے نجات دے گا اور انہیں تروتازگی بشاشت ، ہنسی خوشی اور راحت وآرام سے ملا دے گا ۔ اور ان کے صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کی نیکیاں مقبول ہیں ، برائیاں معاف ہیں ان کے ایک ایک عمل کا بہترین بدلہ مع زیادتی اور اللہ کے فضل کے انہیں ضرور ملنا ہے ۔ جیسے فرمان ہے اللہ تعالیٰ بقدر ایک ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا ۔ اور آیت میں ہے نیکی دس گناہ کر دی جاتی ہے ۔ اور آیت میں ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے گا ، اسے اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر زیادہ سے زیادہ کر کے دے گا ۔ فرمان ہے آیت ( يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ٢٦١؁ ) 2- البقرة:261 ) وہ بڑھا دیتا ہے جس کے لئے چاہے ۔ یہاں فرمان ہے وہ جسے چاہے بےحساب دیتا ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک مرتبہ دودھ لایا گیا ، آپ نے اپنی مجلس کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو پلانا چاہا مگر سب روزے سے تھے ۔ اس لئے آپ ہی کے پاس پھر برتن آیا ۔ آپ نے یہی آیت یخافون سے پڑھی اور پی لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہونگے ، اللہ تعالیٰ ایک منادی کو حکم دے گا جو باآواز بلند ندا کرے گا جسے تمام اہل محشر سنیں گے کہ آج سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ پھر فرمائے گا وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جنہیں لین دین اور تجارت ذکر اللہ سے روکتا نہ تھا پس وہ کھڑے ہو جائیں گے اور وہ بہت ہی کم ہوں گے سب سے پہلے انہیں حساب سے فارغ کیا جائے گا ۔ آپ فرماتے ہیں ان کی نیکیوں کا اجر یعنی جنت بھی انہیں ملے گی اور مزید فضل الہٰی یہ ہوگا کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ احسان کئے ہوں گے اور وہ مستحق شفاعت ہونگے ان سب کی شفاعت کا منصب انہیں حاصل ہوجائے گا ۔