Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَللّٰهُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ‌ؕ مَثَلُ نُوۡرِهٖ كَمِشۡكٰوةٍ فِيۡهَا مِصۡبَاحٌ‌ ؕ الۡمِصۡبَاحُ فِىۡ زُجَاجَةٍ‌ ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوۡكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ زَيۡتُوۡنَةٍ لَّا شَرۡقِيَّةٍ وَّلَا غَرۡبِيَّةٍ ۙ يَّـكَادُ زَيۡتُهَا يُضِىۡٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَارٌ‌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰى نُوۡرٍ‌ ؕ يَهۡدِى اللّٰهُ لِنُوۡرِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۙ‏ ﴿35﴾
اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے ، نور پر نور ہے ، اللہ تعالٰی اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے لوگوں ( کے سمجھانے ) کو یہ مثالیں اللہ تعالٰی بیان فرما رہا ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کے حال سے بخوبی واقف ہے ۔
الله نور السموت و الارض مثل نوره كمشكوة فيها مصباح المصباح في زجاجة الزجاجة كانها كوكب دري يوقد من شجرة مبركة زيتونة لا شرقية و لا غربية يكاد زيتها يضيء و لو لم تمسسه نار نور على نور يهدي الله لنوره من يشاء و يضرب الله الامثال للناس و الله بكل شيء عليم
Allah is the Light of the heavens and the earth. The example of His light is like a niche within which is a lamp, the lamp is within glass, the glass as if it were a pearly [white] star lit from [the oil of] a blessed olive tree, neither of the east nor of the west, whose oil would almost glow even if untouched by fire. Light upon light. Allah guides to His light whom He wills. And Allah presents examples for the people, and Allah is Knowing of all things.
Allah noor hai aasmanon ka aur zamin ka uss kay noor ki misal misil aik taaq kay hai jiss mein chiragh ho aur chiragh seeshay ki qandeel mein ho aur seesha misil chamaktay huye roshan sitaray kay ho woh chiragh aik ba-barkat darakht zaitoon kay tel say jalaya jata ho jo darakht na mashriqi hai na maghribi khud woh tel qareeb hai kay aap hi roshni denay lagay agarcheh ussay aag na bhi chuye noor per noor hai Allah Taalaa apnay noor ki taraf rehnumaee kerta hai jissay chahaye logon ( kay samjhaney ) ko yeh misalen Allah Taalaa biyan farma raha hai aur Allah Taalaa her cheez kay haal say bakhoobi waqif hai.
اللہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے ( ٢٩ ) اس کے نور کی مثال کچھ یوں ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہو ( ٣٠ ) چراغ ایک شیشے میں ہو ، شیشہ ایسا ہو جیسے ایک ستارا ، موتی کی طرح چمکتا ہوا ، وہ چراغ ایسے برکت والے درخت یعنی زیتون سے روشن کیا جائے جو نہ ( صرف ) مشرقی ہو نہ ( صرف ) مغربی ( ٣١ ) ایسا لگتا ہو کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دیدے گا ۔ چاہے اسے آگ بھی نہ لگے ، ( ٣٢ ) نور بالائے نور ، اللہ اپنے نور تک جسے چاہتا ہے ، پہنچا دیتا ہے ، اور اللہ لوگوں کے فائدے کے لیے تمثیلیں بیان کرتا ہے ، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔
اللہ نور ہے ( ف۷۸ ) آسمانوں اور زمینوں کا ، اس کے نور کی ( ف۷۹ ) مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے ( ف۸۰ ) جو نہ پورب کا نہ پچھم کا ( ف۸۱ ) قریب ہے کہ اس کا تیل ( ف۸۲ ) بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے ( ف۸۳ ) اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے ، اور اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے لوگوں کے لیے ، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ،
61 اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔ 62 ﴿کائنات میں﴾ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو ، چراغ ایک فانوس میں ہو ، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا ، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت 63 کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی 64 ، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے ، ﴿اس طرح﴾ روشنی پر روشنی ﴿بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں 65 ﴾ ۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے 66 ، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے ، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے ۔ 67
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ، اس کے نور کی مثال ( جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے ) اس طاق ( نما سینۂ اقدس ) جیسی ہے جس میں چراغِ ( نبوت روشن ) ہے؛ ( وہ ) چراغ ، فانوس ( قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں رکھا ہے ۔ ( یہ ) فانوس ( نورِ الٰہی کے پرتَو سے اس قدر منور ہے ) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے ( یہ چراغِ نبوت ) جو زیتون کے مبارک درخت سے ( یعنی عالم قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے ) روشن ہوا ہے نہ ( فقط ) شرقی ہے اور نہ غربی ( بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالم گیر ہے ) ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل ( خود ہی ) چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے ( وحی ربّانی اور معجزاتِ آسمانی کی ) آگ نے چھوا بھی نہیں ، ( وہ ) نور کے اوپر نور ہے ( یعنی نورِ وجود پر نورِ نبوت گویا وہ ذات دوہرے نور کا پیکر ہے ) ، اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور ( کی معرفت ) تک پہنچا دیتا ہے ، اور اللہ لوگوں ( کی ہدایت ) کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے ، اور اللہ ہر چیز سے خوب آگاہ ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :61 یہاں سے روئے سخن منافقین کی طرف پھرتا ہے جو اسلامی معاشرے میں فتنوں پر فتنے اٹھائے چلے جا رہے تھے اور اسلام ، اسلامی تحریک اور اسلامی ریاست و جماعت کو زک دینے میں اسی طرح سرگرم تھے جس طرح باہر کے کھلے کھلے کافر دشمن سرگرم تھے ۔ یہ لوگ ایمان کے مدعی تھے ، مسلمانوں میں شامل تھے ، مسلمانوں کے ساتھ ، اور خصوصاً انصار کے ساتھ ، رشتہ و برادری کے تعلقات رکھتے تھے ، اسی لیے ان کو مسلمانوں میں اپنے فتنے پھیلانے کا زیادہ موقع ملتا تھا ، اور بعض مخلص مسلمان تک اپنی سادہ لوحی یا کمزوری کی بنا پر ان کے آلۂ کار بن جاتے تھے اور پشت پناہ بھی ۔ لیکن درحقیقت ان کی دنیا پرستی نے ان کی آنکھیں اندھی کر رکھی تھیں اور دعواے ایمان کے باوجود وہ اس نور سے بالکل بے بہرہ تھے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت دنیا میں پھیل رہا تھا ۔ اس موقع پر ان کو خطاب کیے بغیر ان کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا جا رہا ہے اس سے مقصود تین امور ہیں ۔ اول یہ کہ ان کو فہمائش کی جائے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جو بندہ بھی بہکا اور بھٹکا ہوا ہو اس کی تمام شرارتوں ور خباثتوں کے باوجود اسے آخر وقت تک سمجھانے کی کوشش کی جائے دوم یہ کہ ایمان اور نفاق کا فرق صاف صاف کھول کر بیان کر دیا جائے تاکہ کسی صاحب عقل و خرد انسان کے لیے مسلم معاشرے کے مومن اور منافق افراد کے درمیان تمیز کرنا مشکل نہ رہے ، اور اس توضیح و تصریح کے باوجود جو شخص منافقوں کے پھندے میں پھنسے یا ان کی پشتیبانی کرے وہ اپنے اس فعل کا پوری طرح ذمہ دار ہو ۔ سوم یہ کہ منافقین کو صاف صاف متنبہ کر دیا جائے کہ اللہ کے جو وعدے اہل ایمان کے تقاضے پورے کریں ۔ یہ وعدے ان سب لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو محض مسلمانوں کی مردم شماری میں شامل ہوں ۔ لہٰذا منافقین اور فاسقین کو یہ امید نہ رکھنی چاہیے کہ وہاں وعدوں میں سے کوئی حصہ پا سکیں گے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :62 آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم کائنات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے ۔ نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے ، یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے ۔ انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے ۔ کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے ، اور اس کے برعکس جب سب کچھ سجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہو گئی ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ نور کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے ، نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کے مرکز بینائی کو متأثر کرتی ہے ۔ روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لیے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے ، بلکہ اس پر اس لفظ کا اطلاق ہم ان روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں جو اس مادی دنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ ان کے مادی مدلولات کے اعتبار سے ۔ مثلاً ہم اس کے لیے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعہ سے دیکھتا ہے ۔ ہم اس کے لیے سننے کا لفظ بولتے ہیں ۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہماری طرح کانوں کے ذریعہ سے سنتا ہے ۔ اس کے لیے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں ۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہاتھ ناک کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے ۔ یہ سب الفاظ اس کے لیے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے ۔ اسی طرح نور کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف اس شعاع ہی کی صورت میں پایا جا سکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِرم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو ۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اس محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ مطلق معنی میں ہے ، یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل سبب ظہور ہے ، باقی یہ ان تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اسی کی بخشی ہوئی روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں ، ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں جس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں ۔ نور کا لفظ علم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے ۔ اس سے فیض حاصل کیے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجۃً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :63 مبارک ، یعنی کثیر المنافع ، بہت سے فائدوں کا حامل ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :64 یعنی جو کھلے میدان میں یا اونچی جگہ واقع ہو ، جہاں صبح سے شام تک اس پر دھوپ پڑتی ہو ۔ کسی آڑ میں نہ ہو کہ اس پر صرف صبح کی یا صرف شام کی دھوپ پڑے ۔ زیتون کے ایسے درخت کا تیل زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے ۔ محض شرقی یا محض غربی رخ کے درخت نسبۃً غلیظ تیل دیتے ہیں اور چراغ میں ان کی روشنی ہلکی رہتی ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :65 اس تمثیل میں چراغ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور طاق سے کائنات کو تشبیہ دی گئی ہے ، اور فانوس سے مراد وہ پردہ ہے جس میں حضرت حق نے اپنے آپ کو نگاہ خلق سے چھپا رکھا ہے ۔ گویا یہ پردہ فی الحقیقت خِفا کا نہیں ، شدت ظہور کا پردہ ہے ۔ نگاہ خلق جو اس کو دیکھنے سے عاجز ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ درمیان میں تاریکی حائل ہے ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ درمیان کا پردہ شفاف ہے اور اس شفاف پردے سے گزر کر آنے والا نور ایسا شدید اور بسیط اور محیط ہے کہ محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں اس کا ادراک کرنے سے عاجز رہ گئی ہیں ، یہ کمزور بینائیاں صرف ان محدود روشنیوں کا ادراک کر سکتی ہیں جن کے نادر کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے ، جو کبھی زائل ہوتی ہیں اور کبھی پیدا ہو جاتی ہیں ، جن کے مقابلے میں کوئی تاریکی موجود ہوتی ہے اور اپنی ضد کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہوتی ہیں ۔ لیکن نور مطلق جس کا کوئی مد مقابل نہیں ، جو کبھی زائل نہیں ہوتا ، جو سدا ایک ہی شان سے ہر طرف چھایا رہتا ہے ، اس کا ادراک ان کے بس سے باہر ہے ۔ رہا یہ مضمون کہ چراغ ایک ایسے درخت زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ، تو یہ صرف چراغ کی روشنی کے کمال اور اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے ہے ۔ قدیم زمانے میں زیادہ سے زیادہ روشنی روغن زیتوں کے چراغوں سے حاصل کی جاتی تھی ، اور ان میں روشن ترین چراغ وہ ہوتا تھا جو بلند اور کھلی جگہ کے درخت سے نکالے ہوئے تیل کا ہو ۔ تمثیل میں اس مضمون کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اللہ کی ذات ، جسے چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے ، کسی اور چیز سے طاقت ( Energy ) حاصل کر رہی ہے ، بلکہ مقصود یہ کہنا ہے کہ مثال میں معمولی چراغ نہیں بلکہ اس روشن ترین چراغ کا تصور کرو جو تمہارے مشاہدے میں آتا ہے ۔ جس طرح ایسا چراغ سارے مکان کو جگمگا دیتا ہے اسی طرح اللہ کی ذات نے ساری کائنات کو بقعۂ نور بنا رکھا ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اس کا تیل آپ سے آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے ، اس سے بھی چراغ کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ تیز ہونے کا تصور دلانا مقصود ہے ۔ یعنی مثال میں اس انتہائی تیز روشنی کے چراغ کا تصور کرو جس میں ایسا لطیف اور ایسا سخت اشتعال پذیر تیل پڑا ہوا ہو ۔ یہ تینوں چیزیں ، یعنی زیتون ، اور اس کا غیر شرقی و غربی ہونا ، اور اسکے تیل کا آگ لگے بغیر ہی آپ سے آپ بھڑکا پڑنا ، مستقل اجزائے تمثیل نہیں ہیں بلکہ پہلے جزء تمثیل یعنی چراغ کے ضمنی متعلقات ہیں اصل اجزائے تمثیل تین ہیں ، چراغ ، طاق ، اور فانوسِ شفاف ۔ آیت کا یہ فقرہ بھی لائق توجہ ہے کہ اس کے نور کی مثال ایسی ہے ۔ اس سے وہ غلط فہمی رفع ہو جاتی ہے جو اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے کے الفاظ سے کسی کو ہو سکتی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کو نور کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ اس کی حقیقت ہی بس نور ہونا ہے ۔ حقیقت میں تو وہ ایک ذات کامل و اکمل ہے جو صاحب علم ، صاحب قدرت ، صاحب حکمت وغیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب نور بھی ہے ۔ لیکن خود اس کو نور محض اس کے کمال نورانیت کی کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسے کسی کے کمال فیاضی کا حال بیان کرنے کے لیے اس کو خود فیض کہہ دیا جائے ، یا اس کے کمال خوبصورتی کا وصف بیان کرنے کے لیے خود اسی کو حسن کے لفظ سے تعبیر کر دیا جائے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :66 یعنی اگرچہ اللہ کا یہ نور مطلق سارے جہان کو منور کر رہا ہے ، مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ۔ اس کے ادراک کی توفیق ، اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ ہی جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے ۔ ورنہ جس طرح اندھے کے لیے دن اور رات برابر ہیں ، اسی طرح بے بصیرت انسان کے لیے بجلی اور سورج اور چاند اور تاروں کی روشنی تو روشنی ہے مگر اللہ کا نور اس کو سجھائی نہیں دیتا ۔ اس پہلو سے اس بد نصیب کے لیے کائنات میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے ۔ آنکھوں کا اندھا اپنے پاس کی چیز نہیں دیکھ سکتا ، یہاں تک کہ جب اس سے ٹکرا کر چوٹ کھاتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز یہاں موجود تھی ۔ اسی طرح بصیرت کا اندھا ان حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا جو عین اس کے پہلو میں اللہ کے نور سے جگمگا رہی ہوں ۔ اسے ان کا پتہ صرف اس وقت چلتا ہے جب وہ ان سے ٹکرا کر اپنی شامت میں گرفتار ہو چکا ہوتا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :67 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ جانتا ہے کس حقیقت کو کس مثال سے بہترین طریقہ پر سمجھایا جا سکتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ جانتا ہے کون اس نعمت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے ۔ جو شخص نور حق کا طالب ہی نہ ہو اور ہمہ تن اپنی دنیوی اغراض ہی میں گم اور مادی لذتوں اور منفعتوں ہی کی جستجو میں منہمک ہو ، اسے زبردستی نور حق دکھانے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اس عطیے کا مستحق تو وہی ہے جسے اللہ جانتا ہے کہ وہ اس کا طالب اور مخلص طالب ہے ۔
مدبر کائنات نور ہی نور ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ اللہ ہادی ہے ، آسمان والوں اور زمین والوں کا ۔ وہی ان دونوں میں سورج چاند اور ستاروں کی تدبیر کرتا ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ کا نور ہدایت ہے ۔ ابن جریر اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس کے نور کی مثال یعنی اس کا نور رکھنے والے مومن کی مثال جن کے سینے میں ایمان و قرآن ہے ، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ۔ اولا اپنے نور کا ذکر کیا پھر مومن کی نورانیت کا کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے کے نور کی مثال بلکہ حضرت ابی اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت ( مثل نور من امن بہ ) ابن عباس کا اس طرح پڑھنا بھی مروی ہے آیت ( کذالک نور من امن باللہ ) بعض کی قرأت میں اللہ نور ہے یعنی اس نے آسمان وزمین کو نورانی بنا دیا ہے ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی کے نور سے آسمان وزمین روشن ہیں ۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ جس دن اہل طائف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ایذاء پہنچائی تھی آپ نے اپنی دعا میں فرمایا تھا دعا ( اعوذ بنور وجہک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخرۃ ان یحل بی غضبک او ینزل بی سخطک لک العتبی حتی ترضی ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) اس دعا میں ہے کہ تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ میں آرہا ہوں جو اندھیروں کو روشن کر دیتا ہے اور جس پر دنیا آخرت کی صلاحیت موقوف ہے الخ ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تب یہ فرماتے کہ اللہ تیرے ہی لئے ہے سب تعریف سزاوار ہے تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نورہے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمہارے رب کے ہاں رات اور دن نہیں ، اس کے چہرے کے نور کی وجہ سے اس کے عرش کا نور ہے ۔ نورہ کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک تو لفظ اللہ ہی ہے یعنی اللہ کی ہدایت جو مومن کے دل میں ہے اس کی مثال یہ ہے اور بعض کے نزدیک مومن ہے جس پر سیاق کلام کی دلالت ہے یعنی مومن کے دل کے نور کی مثال مثل طاق کے ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ایک شخص ہے جو اپنے رب کی دلیل اور ساتھ ہی شہادت لئے ہوئے ہے پس مومن کے دل کی صفائی کو بلور کے فانوس سے مشابہت دی اور پھر قرآن اور شریعت سے جو مدد اسے ملتی رہتی ہے اس کی زیتون کے اس تیل سے تشبیہ دی جو خود صاف شفاف چمکیلا اور روشن ہے ۔ پس طاق اور طاق میں چراغ اور وہ بھی روشن چراغ ۔ یہودیوں نے اعتراضا کہا تھا کہ اللہ کانور آسمانوں کے پار کیسے ہوتا ہے ؟ تو مثال دے کر سمجھایا گیا کہ جیسے فانوس کے شیشے سے روشنی ۔ پس فرمایا کہ اللہ آسمان زمین کا نور ہے ۔ مشک ۃ کے معنی گھر کے طاق کے ہیں یہ مثال اللہ نے اپنی فرمانبرداری کی دی ہے اور اپنی اطاعت کو نور فرمایا ہے پھر اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں ۔ مجاہد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ حبشہ کی لغت میں اسے طاق کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں ایسا طاق جس میں کوئی اور سوراخ وغیرہ نہ ہو ۔ فرماتے ہیں اسی میں قندیل رکھی جاتی ہے ۔ پہلا قول زیادہ قوی ہے یعنی قندیل رکھنے کی جگہ ۔ چنانچہ قرآن میں بھی ہے کہ اس میں چراغ ہے ۔ پس مصباح سے مراد نور ہے یعنی قرآن اور ایمان جو مسلمان کے دل میں ہوتا ہے ۔ سدی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں چراغ مراد ہے پھر فرمایا یہ روشنی جس میں بہت ہی خوبصورتی ہے ، یہ صاف قندیل میں ہے ، یہ مومن کے دل کی مثال ہے ۔ پھر وہ قندیل ایسی ہے جیسے موتی جیسا چمکیلا روشن ستارہ ۔ اس کی دوسری قرأت درءی اور دراءی بھی ہے ۔ یہ ماخوذ ہے در سے جس کے معنی دفع کے ہیں ۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ٹوٹتا ہے اس وقت وہ بہت روشن ہوتا ہے اور جو ستارے غیر معروف ہیں انہیں بھی عرب دراری کہتے ہیں ۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ہے جو خوب ظاہر ہو اور بڑا ہو ۔ پھر اس چراغ میں تیل بھی مبارک درخت زیتون کا ہو ۔ زیتونتہ کا لفظ بدل ہے یا عطف بیان ہے ۔ پھر وہ زیتون کا درخت بھی نہ مشرقی ہے کہ اول دن سے اس پر دھوپ آجائے ۔ اور نہ مغربی ہے کہ غروب سورج سے پہلے اس پر سے سایہ ہٹ جائے بلکہ وسط جگہ میں ہے ۔ صبح سے شام تک سورج کی صاف روشنی میں رہے ۔ پس اس کا تیل بھی بہت صاف ، چمکدار اور معتدل ہوتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ درخت میدان میں ہے کوئی درخت ، پہاڑ ، غار یا کوئی اور چیز اسے چھپائے ہوئے نہیں ہے ۔ اس وجہ سے اس درخت کا تیل بہت صاف ہوتا ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صبح سے شام تک کھلی ہوا اور صاف دھوپ اسے پہنچتی رہتی ہے کیونکہ وہ کھلے میدان میں درمیان کی جگہ ہے ۔ اسی وجہ سے اس کا تیل بہت پاک صاف اور روشن چمک دار ہوتا ہے اور اسے نہ مشرقی کہہ سکتے ہیں نہ مغربی ۔ ایسا درخت بہت سرسبز اور کھلا ہوتا ہے پس جیسے یہ درخت آفتوں سے بچا ہوا ہوتا ہے ، اسی طرح مومن فتنوں سے محفوظ ہوتا ہے اگر کسی فتنے کی آزمائش میں پڑتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم رکھتا ہے ۔ پس اسے چار صفتیں قدرت دے دیتی ہے ( ١ ) بات میں سچ ( ٢ ) حکم میں عدل ( ٣ ) بلا پر صبر ( ٤ ) نعمت پر شکر پھر وہ اور تمام انسانوں میں ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی زندہ جو مردوں میں ہو ۔ حسن بصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں اگر یہ درخت دنیا میں زمین پر ہوتا تو ضرور تھا کہ مشرقی ہوتا یا مغربی لیکن یہ تو نور الہٰی کی مثال ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے نیک مرد کی جو نہ یہودی ہے نہ نصرانی ۔ ان سب اقول میں بہترین قول پہلا ہے کہ وہ درمیانہ زمین میں ہے کہ صبح سے شام تک بےروک ہوا اور دھوپ پہنچتی ہے کیونکہ چاروں طرف سے کوئی آڑ نہیں تو لامحالہ ایسے درخت کا تیل بہت زیادہ صاف ہوگا اور لطیف اور چمکدار ہوگا ۔ اسی لئے فرمایا کہ خود وہ تیل اتنا لطیف ہے کہ گویا بغیر جلائے روشنی دے ۔ نور پر نور ہے ۔ یعنی ایمان کانور پھر اس پر نیک اعمال کا نور ۔ خود زیتون کا تیل روشن پھر وہ جل رہا ہے اور روشنی دے رہا ہے پس اسے پانچ نور حاصل ہو جاتے ہیں اس کا کلام نور ہے اس کا عمل نورہے ۔ اس کا آنا نور اس کا جانا نور ہے اور اس کا آخری ٹھکانا نورہے یعنی جنت ۔ کعب رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ آپ کی نبوت اس قدر ظاہر ہے کہ گو آپ زبانی نہ بھی فرمائیں تاہم لوگوں پر ظاہر ہوجائے ۔ جیسے یہ زیتون کہ بغیر روشن کئے روشن ہے ۔ تو دونوں یہاں جمع ہیں ایک زیتون کا ایک آگ کا ۔ ان کے مجموعے سے روشنی حاصل ہوتی ہوئی ۔ اسی طرح نور قرآن نور ایمان جمع ہو جاتے ہیں اور مومن کا دل روشن ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسے پسند فرمائے ، اپنی ہدایت کی راہ لگا دیتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو ایک اندھیرے میں پیدا کیا پھر اس دن ان پر اپنا نور ڈالا جیسے وہ نور پہنچا اس نے راہ پائی اور جو محروم رہا وہ گمراہ ہوا ۔ اس لئے کہتا ہوں کہ قلم اللہ کے علم کے مطابق چل کر خشک ہوگیا ۔ ( مسند وغیرہ ) اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل کی ہدایت کی مثال نور سے دے کر پھر فرمایا کہ اللہ یہ مثالیں لوگوں کے سمجھنے لگ لئے بیان فرما رہا ہے ، اسکے علم میں بھی کوئی اس جیسا نہیں ، وہ ہدایت وضلالت کے ہر مستحق کو بخوبی جانتا ہے ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے دلوں کی چار قسمیں ہیں ایک تو صاف اور روشن ، ایک غلاف دار اور بندھا ہوا ، ایک یلٹا اور اور اوندھا ، ایک پھرا ہوا الٹا سیدھا ۔ پہلا دل تو مومن کا دل ہے جو نورانی ہوتا ہے ۔ اور دوسرا دل کافر کا دل ہے اور تیسرا دل منافق کا دل ہے کہ اس نے جانا پھر انجان ہوگیا ۔ پہچان لیا پھر منکر ہوگیا ۔ چوتھا دل وہ دل ہے جس میں ایمان بھی ہے اور نفاق بھی ہے ۔ ایمان کی مثال تو اس میں ترکاری کے درخت کی مانند ہے کہ اچھا پانی اسے بڑھا دیتا ہے اور اس میں نفاق کی مثال دمثل پھوڑے کے ہے کہ خون پیپ اسے ابھاردیتا ہے ۔ اب ان میں سے جو غالب آگیا وہ اس دل پر چھا جاتا ہے ۔