Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ‏ ﴿38﴾
اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی عطا فرمائے ، اللہ تعالٰی جس چاہے بے شمار روزیاں دیتا ہے ۔
ليجزيهم الله احسن ما عملوا و يزيدهم من فضله و الله يرزق من يشاء بغير حساب
That Allah may reward them [according to] the best of what they did and increase them from His bounty. And Allah gives provision to whom He wills without account.
Iss iraday say kay Allah unhen unn kay aemaal ka behtareen badla dey bulkay apnay fazal say aur kuch ziyadti ata faramye. Allah Taalaa jissay chahaye bey shumaar roziyan deta hai.
نتیجہ یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے گا ، اور اپنے فضل سے مزید کچھ اور بھی دے گا ( ٣٤ ) اور اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے ۔
تاکہ اللہ انھیں بدلہ دے ان کے سب سے بہتر کام کام اور اپنے فضل سے انھیں انعام زیادہ دے ، اور اللہ روزی دیتا ہے جسے چاہے بےگنتی ،
﴿اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں ﴾ تاکہ اللہ ان کے بہترین اعمال کی جزا ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے ، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے ۔ 69
تاکہ اللہ انہیں ان ( نیک ) اعمال کا بہتر بدلہ دے جو انہوں نے کئے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں اور ( بھی ) زیادہ ( عطا ) فرما دے ، اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق ( و عطا ) سے نوازتا ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :69 یہاں ان صفات کی تشریح کر دی گئی جو اللہ کے نور مطلق کا ادراک کرنے اور اس کے فیض سے بہرہ مند ہونے کے لیے درکار ہیں ۔ اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے کہ یونہی جسے چاہا مالا مال کر دیا اور جسے چاہا دھتکار دیا ۔ وہ جسے دیتا ہے کچھ دیکھ کر ہی دیتا ہے ، اور نعمت حق دینے کے معاملے میں جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے دل میں اس کی محبت ، اور اس سے دلچسپی ، اور اس کا خوف ، اور اس کے انعام کی طلب ، اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش موجود ہے ۔ وہ دنیا پرستی میں گم نہیں ہے ۔ بلکہ ساری مصروفیتوں کے باوجود اس کے دل میں اپنے خدا کی یاد بسی رہتی ہے ۔ وہ پستیوں میں پڑا نہیں رہنا چاہتا بلکہ اس بلندی کو عملاً اختیار کرتا ہے جس کی طرف اس کا مالک اس کی رہنمائی کرے ۔ وہ اسی حیات چند روزہ کے فائدوں کا طلبگار نہیں ہے بلکہ اس کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی ہوئی ہے ۔ یہی کچھ دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آدمی کو اللہ کے نور سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشی جائے ۔ پھر جب اللہ دینے پر آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ آدمی کا اپنا دامن ہی تنگ ہو تو دوسری بات ہے ، ورنہ اس کی دین کے لیے کوئی حد و نہایت نہیں ہے ۔