Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُهُمۡ كَسَرَابٍۢ بِقِيۡعَةٍ يَّحۡسَبُهُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمۡ يَجِدۡهُ شَيۡــًٔـا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنۡدَهٗ فَوَفّٰٮهُ حِسَابَهٗ‌ ؕ وَاللّٰهُ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ ۙ‏ ﴿39﴾
اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں ہوجسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے ۔ اللہ بہت جلد حساب کر دینے والا ہے ۔
و الذين كفروا اعمالهم كسراب بقيعة يحسبه الظمان ماء حتى اذا جاءه لم يجده شيا و وجد الله عنده فوفىه حسابه و الله سريع الحساب
But those who disbelieved - their deeds are like a mirage in a lowland which a thirsty one thinks is water until, when he comes to it, he finds it is nothing but finds Allah before Him, and He will pay him in full his due; and Allah is swift in account.
Aur kafiron kay aemaal misil uss chamakti hui rait kay hain jo chatyal maidan mein ho jissay piyasa shaks door say pani samjhta hai lekin jab uss kay pass phonchta hai to ussay kuch bhi nahi pata haan Allah ko apnay pass pata hai jo uss ka hisab poora poora chuka deta hai. Allah boht jald hisab ker denay wala hai.
اور ( دوسری طرف ) جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل صحرا میں ایک سراب ہو جسے پیاسا آدمی پانی سمجھ بیٹھتا ہے ، یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا ( ٣٥ ) اور اس کے پاس اللہ کو پاتا ہے ، چنانچہ اللہ اس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے ۔ ( ٣٦ ) اور اللہ بہت جلدی حساب لے لیتا ہے ۔
اور جو کافر ہوئے ان کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے ، یہاں تک جب اس کے پاس آیا تو اسے کچھ نہ پایا ( ف۹۰ ) اور اللہ کو اپنے قریب پایا تو اس نے اس کا حساب پورا بھردیا ، اور اللہ جلد حساب کرلیتا ہے ( ف۹۱ )
﴿اس کے برعکس﴾ جنہوں نے کفر کیا 70 ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا ، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا ، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا ، جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا ، اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی ۔ 71
اور کافروں کے اعمال چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں جس کو پیاسا پانی سمجھتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ ( بھی ) نہیں پاتا ( اسی طرح اس نے آخرت میں ) اللہ کو اپنے پاس پایا مگر اللہ نے اس کا پورا حساب ( دنیا میں ہی ) چکا دیا تھا ، اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :70 یعنی اس تعلیم حق کو بصدق دل قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اللہ کی طرف سے اس کے پیغمبروں نے دی ہے اور جو اس وقت اللہ کے پیغمبر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے تھے ۔ اوپر کی آیات خود بتا رہی ہیں کہ اللہ کا نور پانے والوں سے مراد سچے اور صالح مومن ہیں ۔ اس لیے اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی حلت بتائی جا رہی ہے جو اس نور کو پانے کے اصلی اور واحد ذریعے ، یعنی رسول ہی کا ماننے اور اس کا اتباع کرنے سے انکار کر دیں ، خواہ دل سے انکار کریں اور محض زبان سے اقراری ہوں یا دل اور زبان دونوں ہی سے انکاری ہوں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :71 اس مثال میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو کفر و نفاق کے باوجود بظاہر کچھ نیک اعمال بھی کرتے ہوں اور فی الجملہ آخرت کے بھی قائل ہوں ، اور اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ ایمان صادق اور صفات اہل ایمان ، اور اطاعت و اتباع رسول کے بغیر ان کے یہ اعمال آخرت میں ان کے لیے کچھ مفید ہوں گے ۔ مثال کے پیرایے میں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم اپنے جن ظاہری و نمائشی اعمال خیر سے آخرت میں فائدے کی امید رکھتے ہو ان کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں ہے ۔ ریگستان میں چمکتی ہوئی ریت کو دور سے دیکھ کر جس طرح پیاسا یہ سمجھتا ہے کہ پانی کا ایک تالاب موجیں مار رہا ہے اور منہ اٹھائے اس کی طرف پیاس بجھانے کی امید لیے ہوئے دوڑتا چلا جاتا ہے ، اسی طرح تم ان اعمال کے جھوٹے بھروسے پر موت کی منزل کا سفر طے کرتے چلے جا رہے ہو ۔ مگر جس طرح سراب کی طرف دوڑنے والا جب اس جگہ پہنچتا ہے جہاں اسے تالاب نظر آ رہا تھا تو کچھ نہیں پاتا ، اسی طرح جب تم منزل موت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ یہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جس کا تم کوئی فائدہ اٹھا سکو ، بلکہ اس کے برعکس اللہ تمہارے کفر و نفاق کا ، اور ان بد اعمالیوں کا جو تم ان نمائشی نیکیوں کے ساتھ کر رہے تھے ۔ حساب لینے اور پورا پورا بدلہ دینے کے لیے موجود ہے ۔
دو قسم کے کافر یہ دو مثالیں ہیں اور دو قسم کے کافروں کی ہیں ۔ جیسے سورہ بقرہ کی شروع میں دو مثالیں دو قسم کی منافقوں کی بیان ہوئی ہیں ۔ ایک آگ کی ایک پانی کی ۔ اور جیسے کہ سورہ رعد میں ہدایت وعلم کی جو انسان کے دل میں جگہ پکڑ جائے ۔ ایسی ہی دو مثالیں ایک آگ کی ایک پانی کی بیان ہوئی ہیں ۔ دونوں سورتوں میں ان آیتوں کی تفسیر کامل گزر چکی ہے ۔ فالحمد للہ یہاں پہلی مثال تو ان کافروں کی ہے جو کفر کی طرف دوسروں کو بھی بلاتے ہیں ۔ اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ سخت گمراہ ہیں ۔ ان کی تو ایسی مثال ہے جیسے کسی پیاسے کو جنگل میں دور سے ریت کا چمکتا ہوا تودہ دکھائی دیتا ہے اور وہ اسے پانی کا موج دریا سمجھ بیٹھتا ہے ۔ قیعہ جمع ہے قاع کی جیسے جار کی جمع جیرہ اور قاع واحد بھی ہوتا ہے اور جمع قیعان ہوتی ہے جیسے جار کی جمع جیران ہے ۔ معنی اس کے چٹیل وسیع پھیلے ہوئے میدان کے ہیں ۔ ایسے ہی میدانوں میں سراب نظر آیا کرتے ہیں ۔ دوپہر کے وقت بالکل یہی معلوم ہوتا ہے کہ پانی کا وسیع دریا لہریں لے رہا ہے ۔ جنگل میں جو پیاسا ہو ، پانی کی تلاش میں اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور اسے پانی سمجھ کر جان توڑ کوشش کر کے وہاں تک پہنچتا ہے لیکن حیرت وحسرت سے اپنا منہ لپیٹ لیتا ہے ۔ دیکھتا ہے کہ وہاں پانی کا قطرہ چھوڑ نام ونشان بھی نہیں ۔ اسی طرح یہ کفار ہیں کہ اپنے دل میں سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ اعمال کئے ہیں ، بہت سی بھلائیاں جمع کر لی ہیں لیکن قیامت کے دن دیکھیں گے کہ ایک نیکی بھی ان کے پاس نہیں یا تو ان کی بدنیتی سے وہ غارت ہوچکی ہے یا شرع کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئی ہے ۔ غرض ان کے یہاں پہنچنے سے پہلے ان کے کام جہنم رسید ہوچکے ہیں ، یہاں یہ بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں ۔ حساب کے موقعہ پر اللہ خود موجود ہے اور ایک ایک عمل کا حساب لے رہا ہے اور کوئی عمل ان کا قابل ثواب نہیں نکلتا ۔ چنانچہ بخاری ومسلم میں ہے کہ یہودیوں سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے رہے ؟ وہ جواب دیں گے کہ اللہ کے بیٹے عزیر کی ۔ کہا جائے گا کہ جھوٹے ہو اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ۔ اچھا بتاؤ اب کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت پیاسے ہو رہے ہیں ، ہمیں پانی پلوایا جائے تو ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو وہ کیا نظر آرہا ہے ؟ تم وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ اب انہیں دور سے جہنم ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں سراب ہوتا ہے جس پر جاری پانی کا دھوکہ ہوتا ہے یہ وہاں جائیں گے اور دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے ۔ یہ مثال تو تھی جہل مرکب والوں کی ۔ اب جہل بسیط والوں کی مثال سنئے جو کورے مقلد تھے ، اپنی گرہ کی عقل مطلق نہیں رکھتے تھے ۔ مندرجہ بالا مثال والے ائمہ کفر کی تقلید کرتے تھے اور آنکھیں بند کر کے ان کی آواز پر لگے ہوئے تھے کہ ان کی مثال گہرے سمندر کی تہہ کے اندھیروں جیسی ہے جسے اوپر سے تہہ بہ تہہ موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو اور پھر اوپر سے ابر ڈھانکے ہوئے ہوں ۔ یعنی اندھیرے پر اندھیرا ہو ۔ یہاں تک کہ ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہ دیتا ہو ۔ یہی حال ان سفلے جاہل کافروں کاہے کہ نرے مقلد ہیں ۔ یہاں تک کہ جس کی تقلید کر رہے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ وہ انہیں کہاں لے جا رہا ہے ؟ چنانچہ مثالا کہا جاتا ہے کہ کسی جاہل سے پوچھا گیا کہاں جارہا ہے ؟ اس نے کہا ان کے ساتھ جا رہا ہوں ۔ پوچھنے والے نے پھر دریافت کیا کہ یہ کہاں جار ہے ہیں ؟ اس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں ۔ پس جیسے اس سمندر پر موجیں اٹھ رہی ہیں ، اسی طرح کافر کے دل پر ، اس کے کانوں پر ، اس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے آیت ( اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَة 23؀ ) 45- الجاثية:23 ) ، تو نے انہیں دیکھا ؟ جنہوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے اور اللہ نے انہیں علم پر بہکا دیا ہے اور ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ ابی بن کعب فرماتے ہیں ایسے لوگ پانچ اندھیروں میں ہوتے ہیں ( ١ ) کلام ( ٢ ) عمل ( ٣ ) جانا ( ٤ ) آنا ( ٥ ) اور انجام سب اندھیروں میں ہیں ۔ جسے اللہ اپنے نور کی طرف ہدایت نہ کرے وہ نورانیت سے خالی رہ جاتا ہے ۔ جہالت میں مبتلا رہ کر ہلاکت میں پڑ جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ ۭ وَيَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ١٨٦؁ ) 7- الاعراف:186 ) جسے اللہ گمراہ کرے اس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتا ۔ یہ اس کے مقابل ہے جو مومنوں کی مثال کے بیان میں فرمایا تھا کہ اللہ اپنے نور کی ہدایت کرتا ہے جسے چاہے ۔ اللہ تعالیٰ عظیم وکریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں نور پیدا کردے اور ہمارے دائیں بائیں بھی نور عطا فرمائے اور ہمارے نور کو بڑھا دے اور اسے بہت بڑا اور زیادہ کرے ۔ آمین ۔