Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اِذَا فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿48﴾
جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے جھگڑے چکا دے تو بھی ان کی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے ۔
و اذا دعوا الى الله و رسوله ليحكم بينهم اذا فريق منهم معرضون
And when they are called to [the words of] Allah and His Messenger to judge between them, at once a party of them turns aside [in refusal].
Jab yeh iss baat ki taraf bulaye jatay hain kay Allah aur iss ka rasool unn kay jharay chuka dey to bhi inn ki aik jamat mun morney wali bann jati hai.
اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان میں سے کچھ لوگ ایک دم رخ پھیر لیتے ہیں ۔
اور جب بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو جبھی ان کا ایک فریق منہ پھیر جاتا ہے ،
جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف ، تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے 77 تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے ۔ 78
اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو اس وقت ان میں سے ایک گروہ ( دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آنے سے ) گریزاں ہوتا ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :77 یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ رسول کا فیصلہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اس کا حکم اللہ کا حکم ہے ۔ رسول کی طرف بلایا جانا صرف رسول ہی کی طرف بلایا جانا نہیں بلکہ اللہ اور رسول دونوں کی طرف بلایا جانا ہے ۔ نیز اس آیت اور اوپر والی آیت سے یہ بات بلا کسی اشتباہ کے بالکل واضح ہو جاتی ہے اللہ اور رسول کی اطاعت کے بغیر ایمان کا دعویٰ بے معنی ہے اور اطاعت خدا و رسول کا کوئی مطلب اس کے سوا نہیں ہے کہ مسلمان بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم اس قانون کے آگے جھک جائیں جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا ہے ۔ یہ طرز عمل اگر وہ اختیار نہیں کرتے تو ان کا دعویٰ ایمان ایک منافقانہ دعویٰ ہے ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء آیات 59 ۔ 61 ۔ مع حواشی 89 تا 92 ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :78 واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی کے لیے نہ تھا ، بلکہ آپ کے بعد جو بھی اسلامی حکومت کے منصب قضا پر ہو اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلے کرے اس کی عدالت کا سمن دراصل اللہ اور رسول کی عدالت کا سمن ہے ، اور اس سے منہ موڑنے والا درحقیقت اس سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول سے منہ موڑنے والا ہے ۔ اس مضمون کی یہ تشریح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرسل حدیث میں مروی ہے جسے حسن بصری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ : من دُعِیَ الیٰ حاکم من حکام المسلمین فلم یجب فھو ظالم لا حق لہ جو شخص مسلمانوں کے حکام عدالت میں سے کسی حاکم کی طرف بلایا جائے اور وہ حاضر نہ ہو تو وہ ظالم ہے ۔ اس کا کوئی حق نہیں ہے ( احکام القرآن جصاص ج 3 ، ص 405 ) ۔ بالفاظ دیگر ایسا شخص سزا کا بھی مستحق ہے ، اور مزید براں اس کا بھی مستحق ہے کہ اسے برسر باطل فرض کر کے اس کے خلاف یک طرفہ فیصلہ دے دیا جائے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :79 یہ آیت اس حقیقت کو صاف صاف کھول کر بیان کر رہی ہے کہ جو شخص شریعت کی مفید مطلب باتوں کو خوشی سے لپک کر لے لے ، مگر جو کچھ خدا کی شریعت میں اس کی اغراض و خواہشات کے خلاف ہو اسے رد کر دے ، اور اس کے مقابلے میں دنیا کے دوسرے قوانین کو ترجیح دے وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے ۔ اس کا دعوائے ایمان جھوٹا ہے ، کیونکہ وہ ایمان خدا اور رسول پر نہیں ، اپنی اغراض اور خواہشات پر رکھتا ہے ۔ اس رویے کے ساتھ خدا کی شریعت کے کسی جز کو اگر وہ مان بھی رہا ہے تو خدا کی نگاہ میں اس طرح کے ماننے کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔