Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَـيۡسَ عَلَى الۡاَعۡمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡمَرِيۡضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ اَنۡ تَاۡكُلُوۡا مِنۡۢ بُيُوۡتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اٰبَآٮِٕكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اُمَّهٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اِخۡوَانِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَخَوٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَعۡمَامِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ عَمّٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَخۡوَالِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ خٰلٰتِكُمۡ اَوۡ مَا مَلَكۡتُمۡ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوۡ صَدِيۡقِكُمۡ‌ؕ لَـيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَاۡكُلُوۡا جَمِيۡعًا اَوۡ اَشۡتَاتًا‌ ؕ فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُيُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ تَحِيَّةً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً‌  ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿61﴾
اندھے پر لنگڑے پر بیمار پر اور خود تم پر ( مطلقاً ) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں سے تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ ۔ پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کر لیا کرو ، دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل شدہ ، یوں ہی اللہ تعالٰی کھول کھول کر تم سے اپنے احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو ۔
ليس على الاعمى حرج و لا على الاعرج حرج و لا على المريض حرج و لا على انفسكم ان تاكلوا من بيوتكم او بيوت اباىكم او بيوت امهتكم او بيوت اخوانكم او بيوت اخوتكم او بيوت اعمامكم او بيوت عمتكم او بيوت اخوالكم او بيوت خلتكم او ما ملكتم مفاتحه او صديقكم ليس عليكم جناح ان تاكلوا جميعا او اشتاتا فاذا دخلتم بيوتا فسلموا على انفسكم تحية من عند الله مبركة طيبة كذلك يبين الله لكم الايت لعلكم تعقلون
There is not upon the blind [any] constraint nor upon the lame constraint nor upon the ill constraint nor upon yourselves when you eat from your [own] houses or the houses of your fathers or the houses of your mothers or the houses of your brothers or the houses of your sisters or the houses of your father's brothers or the houses of your father's sisters or the houses of your mother's brothers or the houses of your mother's sisters or [from houses] whose keys you possess or [from the house] of your friend. There is no blame upon you whether you eat together or separately. But when you enter houses, give greetings of peace upon each other - a greeting from Allah , blessed and good. Thus does Allah make clear to you the verses [of ordinance] that you may understand.
Andhay per langray per beemar per aur khud tum per ( mutlaqan ) koi harj nahi kay tum apnay gharon say khalo ya apnay bapon kay gharon say ya apni maaon kay gharon say ya apnay bhiyon kay gharon say ya apni behno kay gharon say ya apnay chachaon kay gharon say ya apni phoophiyon kay gharon say ya apnay mamoo’on kay gharon say ya apni khalaon kay gharon say ya unn kay gharon say jin ki kunjiyon kay tum malik ho ya apnay doston kay gharon say. Tum per iss mein bhi koi gunah nahi kay tum sab sath beht ker khana khao ya alag alag. Pus jab tum gharon mein janey lago to apnay ghar walon ko salam ker liya kero duya-e-khair hai jo ba-barkat aur pakeeza hai Allah Taalaa ki taraf say nazil shuda yun hi Allah Taalaa khol khol ker tum say apnay ehkaam biyan farma raha hai takay tum samajh lo.
نہ کسی نابینا کے لیے اس میں کوئی گناہ ہے ، نہ کسی پاؤں سے معذور شخص کے لیے کوئی گناہ ہے ، نہ کسی بیمار شخص کے لیے کوئی گناہ ہے ، اور نہ خود تمہارے لیے کہ تم اپنے گھروں سے کچھ کھالو ( ٤٤ ) ، یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے ، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے ، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے ، ( ٤٥ ) یا اپنی بہنوں کے گھروں سے ، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے ، یا اپنی پھوپیوں کے گھروں سے ، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے ، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے ، یا ان گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے اختیار میں ہوں ۔ ( ٤٦ ) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے ، اس میں بھی تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں ہے کہ سب ملکر کھاؤ ، یا الگ الگ ۔ چنانچہ جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو ، کہ یہ ملاقات کی وہ بابرکت پاکیزہ دعا ہے جو اللہ کی طرف سے آئی ہے ۔ اللہ اسی طرح آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے ، تاکہ تم سمجھ جاؤ ۔
نہ اندھے پر تنگی اور نہ لنگڑے پر مضائقہ اور نہ بیمار پر روک اور نہ تم میں کسی پر کہ کھاؤ اپنی اولاد کے گھر ( ف۱٤٦ ) یا اپنے باپ کے گھر یا اپنی ماں کے گھر یا اپنے بھائیوں کے یہاں یا اپنی بہنوں کے گھر یا اپنے چچاؤں کے یہاں یا اپنی پھپیوں کے گھر یا اپنے ماموؤں کے یہاں یا اپنی خالاؤں کے گھر یا جہاں کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہیں ( ف۱٤۷ ) یا اپنے دوست کے یہاں تم پر کوئی الزام نہیں کہ مل کر کھاؤ یا الگ الگ ( ف۱٤۰ ) پھر جب کسی گھر میں جاؤ تو اپنوں کو سلام کرو ( ف۱۵۰ ) ملتے وقت کی اچھی دعا اللہ کے پاس سے مبارک پاکیزہ ، اللہ یونہی بیان فرماتا ہے تم سے آیتیں کہ تمہیں سمجھ ہو ،
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا ، یا لنگڑا ، یا مریض﴿کسی کے گھر سے کھا لے﴾ اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے ، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے ، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے ، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے ، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے ، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے ، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے ، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے ، یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں ، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے ۔ 95 اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ ۔ 96 البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو ، دعائے خیر ، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی ، بڑی با برکت اور پاکیزہ ۔ اس طرح اللہ تعالی تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے ۔ ؏ 8
اندھے پر کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے اور نہ خود تمہارے لئے ( کوئی مضائقہ ہے ) کہ تم اپنے گھروں سے ( کھانا ) کھا لو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جن گھروں کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں ( یعنی جن میں ان کے مالکوں کی طرف سے تمہیں ہر قسم کے تصرّف کی اجازت ہے ) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے ( کھانا کھا لینے میں مضائقہ نہیں ) ، تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم سب کے سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ ، پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) پر سلام کہا کرو ( یہ ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے ، اس طرح اللہ اپنی آیتوں کو تمہارے لئے واضح فرماتا ہے تاکہ تم ( احکامِ شریعت اور آدابِ زندگی کو ) سمجھ سکو
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :95 اس آیت کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے ۔ اول یہ کہ آیت کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ بیمار ، لنگڑے ، اندھے اور اسی طرح دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں ہے ، اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں ۔ دوم یہ کہ قرآن کی اخلاقی تعلیمات سے اہل عرب کی ذہنیت میں جو زبردست انقلاب واقع ہوا تھا اس کی وجہ سے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کے معاملے میں ان کی حس انتہائی نازک ہو گئی تھی ۔ ابن عباس کے بقول ، اللہ تعالیٰ نے جب ان کو حکم دیا کہ لَا تَأکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ( ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ ) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے تھے ، حتیٰ کہ بالکل قانونی شرطوں کے مطابق صاحب خانہ کی دعوت و اجازت جب تک نہ ہو ، وہ سمجھتے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا بھی نا جائز ہے ۔ سوم یہ کہ اس میں اپنے گھروں سے کھانے کا جو ذکر ہے وہ اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں کھانا بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاں کھانا ، اور نہ ظاہر ہے کہ اپنے گھر سے کھانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی ۔ ان تین باتوں کو سمجھ لینے کے بعد آیت کا یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک معذور آدمی کا تعلق ہے ، وہ اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے ، اس کی معذوری بجائے خود سارے معاشرے پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے ۔ اس لیے جہاں سے بھی اس کو کھانے کے لیے ملے وہ اس کے لیے جائز ہے ۔ رہے عام آدمی ، تو ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان لوگوں کے گھر جن کا ذکر کیا گیا ہے ، یکساں ہیں ۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں ورنہ خیانت ہو گی ۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے ہاں جائے اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بے تکلف کھایا جا سکتا ہے ۔ جن رشتہ داروں کے نام یہاں لیے گئے ہیں ان میں اولاد کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آدمی کی اولاد کا گھر اس کا اپنا ہی گھر ہے ۔ دوستوں کے معاملے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان سے مراد بے تکلف اور جگری دوست ہیں جن کی غیر موجودگی میں اگر یار لوگ ان کا حلوا اڑا جائیں تو نا گوار گزرنا تو درکنار انہیں اس پر الٹی خوشی ہو ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :96 قدیم زمانے کے اہل عرب میں بعض قبیلوں کی تہذیب یہ تھی کہ ہر ایک الگ الگ کھانا لے کر بیٹھے اور کھائے ۔ وہ مل کر ایک ہی جگہ کھانا برا سمجھتے تھے ، جیسا کہ ہندوؤں کے ہاں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس بعض قبیلے تنہا کھانے کو برا جانتے تھے ، حتیٰ کہ فاقہ کر جاتے تھے اگر کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہو ۔ یہ آیت اسی طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے ۔
جہاد میں شمولیت کی شرائط اس آیت میں جس حرج کے نہ ہونے کا ذکر ہے اس کی بابت حضرت عطاء وغیرہ تو فرماتے ہیں مراد اس سے اندھے لولے لنگڑے کا جہاد میں نہ آنا ہے ۔ جیسے کہ سورہ فتح میں ہے تو یہ لوگ اگر جہاد میں شامل نہ ہوں تو ان پر بوجہ ان کے معقول شرعی عذر کے کوئی حرج نہیں ۔ سورہ براۃ میں ہے آیت ( لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭمَا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 91۝ۙ ) 9- التوبہ:91 ) بوڑھے بڑوں پر اور بیماروں پر اور مفلسوں پر جب کہ وہ تہ دل سے دین حق کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ ہوں کوئی حرج نہیں ، بھلے لوگوں پر کوئی حرج نہیں ہے ۔ بھلے لوگوں پر کوئی سرزنش نہیں ، اللہ غفور ورحیم ہے ۔ ان پر بھی اسی طرح کوئی حرج نہیں جو سواری نہیں پاتے اور تیرے پاس آتے ہیں تو تیرے پاس سے بھی انہیں سواری نہیں مل سکتی حضرت سعید رحمۃاللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں لوگ اندھوں ، لولوں ، لنگڑوں اور بیماروں کے ساتھ کھانا کھانے میں حرج جانتے تھے کہ ایسا نہ ہو وہ کھا نہ سکیں اور ہم زیادہ کھالیں یا اچھا اچھا کھالیں تو اس آیت میں انہیں اجازت ملی کہ اس میں تم پر کوئی حرج نہیں ۔ بعض لوگ کراہت کر کے بھی ان کے ساتھ کھانے کو نہیں بیٹھتے تھے ، یہ جاہلانہ عادتیں شریعت نے اٹھا دیں ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ لوگ ایسے لوگوں کو اپنے باپ بھائی بہن وغیرہ قریب رشتہ داروں کے ہاں پہنچا آتے تھے کہ وہ وہاں کھالیں یہ لوگ اس عار سے کرتے کہ ہمیں اوروں کے گھر لے جاتے ہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ سدی رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ انسان جب اپنے بہن بھائی وغیرہ کے گھر جاتا ہے وہ نہ ہوتے اور عورتیں کوئی کھانا انہیں پیش کرتیں تو یہ اسے نہیں کھاتے تھے کہ مرد تو ہیں نہیں نہ ان کی اجازت ہے ۔ تو جناب باری تعالیٰ نے اس کے کھالینے کی رخصت عطا فرمائی ۔ یہ جو فرمایا کہ خود تم پر بھی حرج نہیں یہ تو ظاہر ہی تھا ۔ اس کا بیان اس لئے کیا گیا کہ اور چیز کا اس پر عطف ہو اور اس کے بعد کا بیان اس حکم میں برابر ہو ۔ بیٹوں کے گھروں کا بھی یہی حکم ہے گو لفظوں میں بیان نہیں آیا لیکن ضمنا ہے ۔ بلکہ اسی آیت کے استدلال کر کے بعض نے کہا ہے کہ بیٹے کا مال بمنزلہ باپ کے مال کے ہے ۔ مسند اور سنن میں کئی سندوں سے حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے ۔ اور جن لوگوں کے نام آئے ان سے استدلال کر کے بعض نے کہا ہے کہ قرابت داروں کا نان ونفقہ بعض کا بعض پر واجب ہے جیسے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا اور امام احمد رحمۃاللہ علیہ کے مذہب کا مشہور مقولہ ہے جس کی کنجیاں تمہاری ملکیت میں ہیں اس سے مراد غلام اور داروغے ہیں کہ وہ اپنے آقا کے مال سے حسب ضرورت و دستور کھاپی سکتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں جاتے تو ہر ایک کی چاہت یہی ہوتی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں ۔ جاتے ہوئے اپنے خاص دوستوں کو اپنی کنجیاں دے جاتے اور ان سے کہہ دیتے کہ جس چیز کے کھانے کی تمہیں ضرورت ہو ہم تمہیں رخصت دیتے ہیں لیکن تاہم یہ لوگ اپنے آپ کو امین سمجھ کر اور اس خیال سے کہ مبادا ان لوگوں نے بادل ناخواستہ اجازت دی ہو ، کسی کھانے پینے کی چیز کو نہ چھوتے اس پر یہ حکم نازل ہوا ۔ پھر فرمایا کہ تمہارے دوستوں کے گھروں سے بھی کھالینے میں تم پر کوئی پکڑ نہیں جب کہ تمہیں علم ہو کہ وہ اس سے برا نہ مانے گے اور ان پر یہ شاق نہ گزرے گا ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تو جب اپنے دوست کے ہاں جائے تو بلا اجازت اس کے کھانے کو کھالینے کی رخصت ہے ۔ پھر فرمایا تم پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں اور جدا جدا ہو کر کھانے میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ 29؀ ) 4- النسآء:29 ) اتری یعنی ایمان والو ایک دوسرے کے ساتھ کھائیں چنانچہ وہ اس سے بھی رک گئے اس پر یہ آیت اتری اسی طرح سے تنہاخوری سے بھی کراہت کرتے تھے جب تک کوئی ساتھی نہ ہو کھاتے نہیں تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں دونوں باتوں کی اجازت دی یعنی دوسروں کے ساتھ کھانے کی اور تنہا کھانے کی ۔ قبیلہ بنو کنانہ کے لوگ خصوصیت سے اس مرض میں مبتلا تھے بھوکے ہوتے تھے لیکن جب تک ساتھ کھانے والا کوئی نہ ہو کھاتے نہ تھے سواری پر سوار ہو کر ساتھ کھانے والے کی تلاش میں نکلتے تھے پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تنہا کھانے کر رخصت نازل فرما کر جاہلیت کی اس سخت رسم کو مٹا دیا ۔ اس آیت میں گو تنہا کھانے کی رخصت ہے لیکن یہ یاد رہے کہ لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا افضل ہے اور زیادہ برکت بھی اسی میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تو ہیں لیکن آسودگی حاصل نہیں ہوتی آپ نے فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے ہوگے ؟ جمع ہو کر ایک ساتھ بیٹھ کر اللہ کا نام لے کر کھاؤ تو تمہیں برکت دی جائے گی ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مل کر کھاؤ ، تنہا نہ کھاؤ ، برکت مل بیٹھنے میں ہے ۔ پھر تعلیم ہوئی کہ گھروں میں سلام کرکے جایا کرو ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جب تم گھر میں جاؤ تو اللہ کا سکھایا ہوا بابرکت بھلا سلام کہا کرو ۔ میں نے تو آزمایا ہے کہ یہ سراسر برکت ہے ۔ ابن طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تم میں سے جو گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کہے ۔ حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ واجب ہے ؟ فرمایا مجھے تو یاد نہیں کہ اس کے وجوب کا قائل کوئی ہو لیکن ہاں مجھے تو یہ بہت ہی پسند ہے کہ جب بھی گھر میں جاؤ سلام کرکے جاؤ ۔ میں تو اسے کبھی نہیں چھوڑتا ہاں یہ اور بات ہے کہ میں بھول جاؤ ۔ مجاہد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں جب مسجد میں جاؤ تو کہو السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین یہ بھی مروی ہے کہ یوں کہو بسم اللہ والحمد للہ السلام علینا من ربنا السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین یہی حکم دیا جا رہا ہے ایسے وقتوں میں تمہارے سلام کا جواب اللہ کے فرشتے دیتے ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتوں کی وصیت کی ہے فرمایا ہے اے انس !کامل وضو کرو تمہاری عمر بڑھے گی ۔ جو میرا امتی ملے سلام کرو نیکیاں بڑھیں گی ، گھر میں سلام کر کے جایا کرو گھر کی خیریت بڑھے گی ۔ ضحی کی نماز پڑھتے رہو تم سے اگلے لوگ جو اللہ والے بن گئے تھے ان کا یہی طریقہ تھا ۔ اے انس!چھوٹوں پر رحم کر بڑوں کی عزت وتوقیر کر تو قیامت کے دن میرا ساتھی ہوگا ۔ پھر فرماتا ہے یہ دعائے خیر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں تعلیم کی گئی ہے برکت والی اور عمدہ ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو التحیات قرآن سے ہی سیکھی ہے نماز کی التحیات یوں ہے التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للہ اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدان محمدا عبدہ و رسولہ السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اسے پڑھ کر نمازی کو اپنے لئے دعا کرنی چاہئے پھر سلام پھیر دے ۔ انہی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا صحیح مسلم شریف میں اس کے سوا بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ اس سورت کے احکام کا ذکر کر کے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے اپنے واضح احکام مفید فرمان کھول کھول کر اسی طرح بیان فرمایا کرتا ہے تاکہ وہ غور وفکر کریں ، سوچیں سمجھیں اور عقل مندی حاصل کریں ۔