Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَقَالُوۡا مَالِ هٰذَا الرَّسُوۡلِ يَاۡكُلُ الطَّعَامَ وَيَمۡشِىۡ فِى الۡاَسۡوَاقِ‌ ؕ لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مَلَكٌ فَيَكُوۡنَ مَعَهٗ نَذِيۡرًا ۙ‏ ﴿7﴾
اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے؟ کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا ۔ کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہو کر ڈرانے والا بن جاتا ۔
و قالوا مال هذا الرسول ياكل الطعام و يمشي في الاسواق لو لا انزل اليه ملك فيكون معه نذيرا
And they say, "What is this messenger that eats food and walks in the markets? Why was there not sent down to him an angel so he would be with him a warner?
Aur enhon ney kaha yeh kaisa rasool hai kay khana khata hai aur bazaron mein chlta phirta hai iss kay pass koi farishta kiyon nahi bheja jata? Kay woh bhi iss kay sath ho ker daraney wala bann jata.
اور یہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے ، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے ؟ اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہ کر لوگوں کو ڈراتا؟
اور بولے ( ف۱۵ ) اور رسول کو کیا ہوا کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے ( ف۹۱٦ کیوں نہ اتارا گیا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کہ ان کے ساتھ ڈر سناتا ( ف۱۷ )
کہتے ہیں ” یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ 14 کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور ﴿نہ ماننے والوں کو﴾ دھمکاتا ؟ 15
اور وہ کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا ہے ، یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا کہ وہ اس کے ساتھ ( مل کر ) ڈر سنانے والا ہوتا
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :14 یعنی اول تو انسان کا رسول ہونا ہی عجیب بات ہے ۔ خدا کا پیغام لے کر آتا تو کوئی فرشتہ آتا نہ کہ ایک گوشت پوست کا آدمی جو زندہ رہنے کے لیے غذا کا محتاج ہو ۔ تا ہم اگر آدمی ہی رسول بنایا گیا تھا تو کم از کم وہ بادشاہوں اور دنیا کے بڑے لوگوں کی طرح ایک بلند پایہ ہستی ہونا چاہیے تھا جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستیں اور جس کے حضور باریابی کا شرف بڑی کوششوں سے کسی کو نصیب ہوتا ، نہ یہ کہ ایک ایسا عامی آدمی خداوند ، عالم کا پیغمبر بنا دیا جائے جو بازاروں میں جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہو ۔ بھلا اس آدمی کو کون خاطر میں لائے گا جسے ہر راہ چلتا روز دیکھتا ہو اور کسی پہلو سے بھی اس کے اندر کوئی غیر معمولی پن نہ پاتا ہو ۔ بالفاظ دیگر ، ان کی رائے میں رسول کی ضرورت اگر تھی تو عوام الناس کو ہدایت دینے کے لیے نہیں بلکہ عجوبہ دکھانے یا ٹھاٹھ باٹ سے دھونس جمانے کے لیے تھی ۔ ۔ ﴿ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ۲٦ ﴾ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :15 یعنی اگر آدمی ہی کو نبی بنایا گیا تھا تو ایک فرشتہ اس کے ساتھ کردیا جاتا جو ہر وقت کوڑا ہاتھ میں لئے رہتا اور لوگوں سے کہتا کہ مانو اس کی بات ، ورنہ ابھی خدا کا عذاب برسا دیتا ہوں ۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ کائنات کا مالک ایک شخص کو نبوت کا جلیل القدر منصب عطا کر کے بس یونہی اکیلا چھوڑا دے اور وہ لوگوں سے گالیاں اور پتھر کھاتا پھرے ۔
مشرکین کی حماقتیں اس حماقت کو ملاحظہ فرمائیے کہ رسول کی رسالت کی انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے ؟ اور بازاروں میں تجارت اور لین دین کے لئے آتا جاتا کیوں ہے ؟ اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ کہ وہ اس کے دعوے کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو اس کے دین کی طرف بلاتا اور عذاب الہٰی سے آگاہ کرتا ۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ آیت ( فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ 53؀ ) 43- الزخرف:53 ) ، اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ یا اس کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے ۔ چونکہ دل ان تمام کافروں کے یکساں ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کفار نے بھی کہا کہ اچھا یہ نہیں تو اسے کوئی خزانہ ہی دے دیا جاتا کہ یہ خود بہ آرام اپنی زندگی بسر کرتا اور دوسرں کو بھی آسان ہے لیکن سردست ان سب چیزوں کے نہ دینے میں بھی حکمت ہے ۔ یہ ظالم مسلمانوں کو بھی بہکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے شخص کے پیچھے لگ لئے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے ۔ دیکھو تو سہی کہ کیسی بےبنیاد باتیں بناتے ہیں ، کسی ایک بات پر جم ہی نہیں سکتے ، ادھر ادھر کروٹیں لے رہے ہیں کبھی جادوگر کہہ دیا تو کبھی جادو کیا ہوا بتا دیا ، کبھی شعر کہہ دیا کبھی جن کا سکھایا ہوا کہہ دیا ، کبھی کذاب کہا کبھی مجنون ۔ حالانکہ یہ سب باتیں محض غلط ہیں اور ان کا غلط ہونا اس سے بھی واضح ہے کہ خود ان میں تضاد ہے کسی ایک بات پر خود ان مشرکین کا اعتماد نہیں ۔ گھڑتے ہیں پھر چھوڑتے ہیں پھر گھڑتے ہیں پھر بدلتے ہیں کسی ٹھیک بات پر جمتے ہی نہیں ۔ جدھر متوجہ ہوتے ہیں راہ بھولتے اور ٹھوکر کھاتے ہیں ۔ حق تو ایک ہوتا ہے اس میں تضاد اور تعارض نہیں ہوسکتا ۔ ناممکن ہے کہ یہ لوگ ان بھول بھلیوں سے نکال سکیں ۔ بیشک اگر رب چاہے تو جو یہ کافر کہتے ہیں اس سے بہتر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہی دے دے وہ بڑی برکتوں والا ہے ۔ پتھر سے بنے ہوئے گھر کو عرب قصر کہتے ہیں خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو جناب باری تعالیٰ کی جانب سے فرمایا اور جواب دیا کہ اگر آپ چاہیں تو زمین کے خزانے اور یہاں کی کنجیاں آپ کو دے دی جائیں اور اس قدر دنیا کا مالک بناکر دیا جائے کہ کسی اور کو اتنی ملی نہ ہو ساتھ ہی آخرت کی آپ کی تمام نعمتیں جوں کی توں برقرار ہیں لیکن آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور جواب دیا کہ نہیں میرے لئے تو سب کچھ آخرت ہی میں جمع ہو ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں یہ صرف تکبر ، عناد ، ضد اور ہٹ کے طور پر کہتے ہیں یہ نہیں کہ ان کا کہا ہوا ہوجائے تو یہ مسلمان ہوجائیں گے ۔ اس وقت پھر اور کچھ حیلہ بہانہ ٹٹول نکالیں گے ۔ ان کے دل میں تو یہ خیال جما ہوا ہے کہ قیامت ہونے کی نہیں ۔ اور ایسے لوگوں کے لیے ہم نے بھی عذاب الیم تیار کر رکھاہے جو ان کے دل کی برداشت سے باہر ہے جو بھڑکانے اور سلگانے والی جھلس دینے والی تیز آگ کا ہے ۔ ابھی تو جہنم ان سے سو سال کے فاصلے پر ہوگی جب ان کی نظریں اس پر اور اس کی نگاہیں ان پر پڑیں گی وہیں جہنم پیچ وتاب کھائے گی اور جوش وخروش سے آوازیں نکالے گا ۔ جسے یہ بدنصیب سن لیں گے اور ان کے ہوش وحواس خطا ہوجائیں گے ، ہوش جاتے رہیں گے ، ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے ، جہنم ان بدکاروں پر دانت پیس رہی ہوگی کہ ابھی ابھی مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میرا نام لے کر میرے ذمے وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو وہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اپنا ٹھکانا بنالے ۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہنم کی بھی آنکھیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں کیا تم نے اللہ کے کلام کی یہ آیت نہیں سنی آیت ( اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيْرًا 12؀ ) 25- الفرقان:12 ) ، ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ربیع وغیرہ کو ساتھ لئے ہوئے کہیں جا رہے تھے راستے میں لوہار کی دکان آئی آپ وہاں ٹھہر گئے اور لوہا جو آگ میں تپایا جا رہا تھا اسے دیکھنے لگے حضرت ربیع کا تو برا حال ہوگیا عذاب الہٰی کا نقشہ آنکھوں تلے پھرگیا ۔ قریب تھا کہ بیہوش ہو کر گر پڑیں ۔ اس کے بعد آپ فرات کے کنارے گئے وہاں آپ نے تنور کو دیکھا کہ اس کے بیچ میں آگ شعلے مار رہی ہے ۔ بےساختہ آپ کی زبان سے یہ آیت نکل گئی اسے سنتے ہی حضرت ربیع بیہوش ہو کر گر پڑے چار پائی پر ڈال کر آپ کو گھر پہنچایا گیا صبح سے لے کر دوپہر تک حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس بیٹھے رہے اور چارہ جوئی کرتے رہے لیکن حضرت ربیع کو ہوش نہ آیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب جہنمی کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا جہنم چیخے گی اور ایک ایسی جھر جھری لے گی کہ کل اہل محشر خوف زدہ ہوجائیں گے ۔ اور راویت میں ہے کہ بعض لوگوں کو جب دوزخ کی طرف لے چلیں گے دوزخ سمٹ جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ مالک ورحمن اس سے پوچھے گا یہ کیا بات ہے ؟ وہ جواب دے گی کہ اے اللہ یہ تو اپنی دعاؤں میں تجھ سے جہنم سے پناہ مانگا کرتا تھا ، آج بھی پناہ مانگ رہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر تم کیا سمجھ رہے تھے ؟ یہ کہیں گے یہی کہ تیری رحمت ہمیں چھپالے گی ، تیرا کرم ہمارے شامل حال ہوگا ، تیری وسیع رحمت ہمیں اپنے دامن میں لے لے گی ۔ اللہ تعالیٰ ان کی آرزو بھی پوری کرے گا اور حکم دے گا کہ میرے ان بندوں کو بھی چھوڑ دو ۔ کچھ اور لوگ گھسیٹتے ہوئے آئیں گے انہیں دیکھتے ہی جہنم ان کی طرف شور مچاتی ہوئی بڑھے گی اور اس طرح جھر جھری لے گی کہ تمام مجمع محشر خوفزدہ ہو جائے گا ۔ حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ جب جہنم مارے غصے کے تھر تھرائے گی اور شور وغل اور چیخ پکار اور جوش وخروش کرے گی اس وقت تمام مقرب فرشتے اور ذی رتبہ انبیاء کانپنے لگیں گے یہاں تک خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے اور کہنے لگے اے اللہ میں آج تجھ سے صرف اپنی جان کا بچاؤ چاہتا ہوں اور کچھ نہیں مانگتا ۔ یہ لوگ جہنم کے ایسے تنگ وتاریک مکان میں ٹھوس دیئے جائیں گے جیسے بھالا کسی سوراخ میں اور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہونا اور آپ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ جیسے کیل دیوار میں بمشکل گاڑی جاتی ہے اس طرح ان دوزخیوں کو ٹھونسا جائے گا ۔ یہ اس وقت خوب جکڑے ہوئے ہونگے بال بال بندھا ہوا ہوگا ۔ وہاں وہ موت کو فوت کو ہلاکت کو حسرت کو پکارنے لگیں گے ۔ ان سے کہا جائے ایک موت کو کیوں پکارتے ہو؟ صدہا ہزارہا موتوں کو کیوں نہیں پکارتے ؟ مسند احمد میں ہے سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا یہ اسے اپنی پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گسیٹتا ہوا اپنی ذریت کو پیچھے لگائے ہوئے موت و ہلاکت کو پکارتا ہوا دوڑتا پھرے گا ۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اولاد بھی سب حسرت وافسوس ، موت وغارت کو پکار رہی ہوگی ۔ اس وقت ان سے یہ کہا جائے گا ۔ ثبور سے مراد موت ، ویل ، حسرت ، خسارہ ، بربادی وغیرہ ہے ۔ جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا آیت ( وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا ١٠٢؁ ) 17- الإسراء:102 ) فرعون میں تو سمجھتا ہوں کہ تو مٹ کر برباد ہو کر ہی رہے گا ۔ شاعر بھی لفظ ثبور کو ہلاکت وبربادی کے معنی میں لائے ہیں ۔