Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَايَنۡتُمۡ بِدَيۡنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكۡتُبُوۡهُ ‌ؕ وَلۡيَكۡتُب بَّيۡنَكُمۡ كَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ‌ وَلَا يَاۡبَ كَاتِبٌ اَنۡ يَّكۡتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ‌ فَلۡيَكۡتُبۡ ‌ۚوَلۡيُمۡلِلِ الَّذِىۡ عَلَيۡهِ الۡحَـقُّ وَلۡيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَلَا يَبۡخَسۡ مِنۡهُ شَيۡـــًٔا ‌ؕ فَاِنۡ كَانَ الَّذِىۡ عَلَيۡهِ الۡحَـقُّ سَفِيۡهًا اَوۡ ضَعِيۡفًا اَوۡ لَا يَسۡتَطِيۡعُ اَنۡ يُّمِلَّ هُوَ فَلۡيُمۡلِلۡ وَلِيُّهٗ بِالۡعَدۡلِ‌ؕ وَاسۡتَشۡهِدُوۡا شَهِيۡدَيۡنِ مِنۡ رِّجَالِكُمۡ‌ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُوۡنَا رَجُلَيۡنِ فَرَجُلٌ وَّامۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰٮهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحۡدٰٮهُمَا الۡاُخۡرٰى‌ؕ وَ لَا يَاۡبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا ‌ؕ وَلَا تَسۡـــَٔمُوۡۤا اَنۡ تَكۡتُبُوۡهُ صَغِيۡرًا اَوۡ كَبِيۡرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖ‌ؕ ذٰ لِكُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ وَاَقۡوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدۡنٰۤى اَلَّا تَرۡتَابُوۡٓا اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيۡرُوۡنَهَا بَيۡنَكُمۡ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَكۡتُبُوۡهَا ‌ؕ وَاَشۡهِدُوۡۤا اِذَا تَبَايَعۡتُمۡ وَلَا يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيۡدٌ  ؕ وَاِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّهٗ فُسُوۡقٌ ۢ بِكُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ‌ ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿282﴾
اے ایمان والو !جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقررہ پر قرض کا معاملہ کرو ۔ تو اسے لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہئیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے ، کاتب کو چاہیئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالٰی نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہیے اور جس کے ذمّہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالٰی سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوادے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو ۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے اور گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو ، اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہے شک وشبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں ۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو اور ( یاد رکھو کہ ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے ، اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے ۔
يايها الذين امنوا اذا تداينتم بدين الى اجل مسمى فاكتبوه و ليكتب بينكم كاتب بالعدل و لا ياب كاتب ان يكتب كما علمه الله فليكتب و ليملل الذي عليه الحق و ليتق الله ربه و لا يبخس منه شيا فان كان الذي عليه الحق سفيها او ضعيفا او لا يستطيع ان يمل هو فليملل وليه بالعدل و استشهدوا شهيدين من رجالكم فان لم يكونا رجلين فرجل و امراتن ممن ترضون من الشهداء ان تضل احدىهما فتذكر احدىهما الاخرى و لا ياب الشهداء اذا ما دعوا و لا تسموا ان تكتبوه صغيرا او كبيرا الى اجله ذلكم اقسط عند الله و اقوم للشهادة و ادنى الا ترتابوا الا ان تكون تجارة حاضرة تديرونها بينكم فليس عليكم جناح الا تكتبوها و اشهدوا اذا تبايعتم و لا يضار كاتب و لا شهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم و اتقوا الله و يعلمكم الله و الله بكل شيء عليم
O you who have believed, when you contract a debt for a specified term, write it down. And let a scribe write [it] between you in justice. Let no scribe refuse to write as Allah has taught him. So let him write and let the one who has the obligation dictate. And let him fear Allah , his Lord, and not leave anything out of it. But if the one who has the obligation is of limited understanding or weak or unable to dictate himself, then let his guardian dictate in justice. And bring to witness two witnesses from among your men. And if there are not two men [available], then a man and two women from those whom you accept as witnesses - so that if one of the women errs, then the other can remind her. And let not the witnesses refuse when they are called upon. And do not be [too] weary to write it, whether it is small or large, for its [specified] term. That is more just in the sight of Allah and stronger as evidence and more likely to prevent doubt between you, except when it is an immediate transaction which you conduct among yourselves. For [then] there is no blame upon you if you do not write it. And take witnesses when you conclude a contract. Let no scribe be harmed or any witness. For if you do so, indeed, it is [grave] disobedience in you. And fear Allah . And Allah teaches you. And Allah is Knowing of all things.
Aey eman walon! Jab tum aapas mein tum aik doosray say miyaad-e-muqarrar per qaraz ka moamla kero to issay likh liya kero aur likhney walay ko chahaiye kay tumhara aapas ka moamla adal say likhay kaaib ko chahaiye kay likhney say inkar na keray jaisay Allah Taalaa ney ussay sikhaya hai pus ussay bhi likh dena chahaiye aur jiss kay zimmay haq ho woh likhwaye aur apney Allah say daray jo uss ka rab hai aur haq mein say kuch ghataye nahi haan jiss shkas kay zimmay haq hai woh agar nadan ho ya kamzor ho ya likhwaney ki taqat na rakhta ho to uss ka wali adal kay sath likhwa dey aur apney mein say do mard gawah rakh lo agar do mard na hon to aik mard aur do aurten jinhen tum gawahon mein sy pasand ker lo takay aik ki bhool chook ko doosri yaad dila dey aur gawahon ko chahaiye kay woh jab bulayen jayen to inkar na keren aur qaraz ko jiss ko muddat muqarrar hai khuwa chota ho ya bara ho likhney mein kahili na kero Allah Taalaa key nazdeek yeh baat boht insaf wali hai aur gawahi ko bhi durust rakhney wali aur shak-o-shuba say bhi bachaney wali hai haan yeh aur baat hai kay woh moamla naqad tijarat ki shakal mein ho jo aapas mein tum lain dain ker rahey ho to tum per iss kay na likhney mein koi gunah nahi. Khareed-o-farokht kay waqt bhi gawah muqarrar ker liya kero aur ( yaad rakho kay ) na to likhney walay ko nuksan phonchaya jaye na gawah ko aur agar tum yeh kero to yeh tumhari khuli na farmani hai Allah Taalaa say daro Allah tumhen taleem dey raha hai aur Allah Taalaa her cheez ko khoob janney wala hai.
اے ایمان والو جب تم کسی معین میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو ، اور تم میں سے جو شخص لکھنا جانتا ہو انصاف کے ساتھ تحریر لکھے ، اور جو شخص لکھنا جانتا ہو لکھنے سے انکار نہ کرے ۔ جب اللہ نے اسے یہ علم دیا ہے تو اسے لکھنا چاہیے ۔ اور تحریر وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق واجب ہورہا ہو ، اور اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس ( حق ) میں کوئی کمی نہ کرے ۔ ( ١٨٧ ) ہاں اگر وہ شخص جس کے ذمے حق واجب ہورہا ہے ناسمجھ یا کمزور ہو یا ( کسی اور وجہ سے ) تحریر نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا سرپرست انصاف کے ساتھ لکھوائے ۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو ، ہاں اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں میں سے ہوجائیں جنہیں تم پسند کرتے ہو ، تاکہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے ۔ اور جب گواہوں کو ( گواہی دینے کے لیے ) بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں ، اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو ، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اسے لکھنے سے اکتاؤ نہیں ۔ یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے ، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آئندہ شک میں نہیں پڑو گے ۔ ہاں اگر تمہارے درمیان کوئی نقد لین دین کا سودا ہو تو اس کو نہ لکھنے میں تمہارے لیے کچھ حرج نہیں ہے ۔ اور جب خریدوفروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو ۔ اور نہ لکھنے والے کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے ، نہ گواہ کو ۔ اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے نافرمانی ہوگی ، اور اللہ کا خوف دل میں رکھو ، اللہ تمہیں تعلیم دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔
اے ایمان والو! جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو ( ف۵۹۷ ) تو اسے لکھ لو ( ف۵۹۸ ) اور چاہئے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے ( ف۵۹۹ ) اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے سکھایا ہے ( ف٦۰۰ ) تو اسے لکھ دینا چاہئے اور جس بات پر حق آتا ہے وہ لکھاتا جائے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ رکھ نہ چھوڑے پھر جس پر حق آتا ہے اگر بےعقل یا ناتواں ہو یا لکھا نہ سکے ( ف٦۰۱ ) تو اس کا ولی انصاف سے لکھائے ، اور دو گواہ کرلو اپنے مردوں میں سے ( ف٦۰۲ ) پھر اگر دو مرد نہ ہوں ( ف٦۰۳ ) تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہ جن کو پسند کرو ( ف٦۰٤ ) کہ کہیں ان میں ایک عورت بھولے تو اس کو دوسری یاد دلادے ، اور گواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں ( ف٦۰۵ ) اور اسے بھاری نہ جانو کہ دین چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک لکھت کرلو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے اس میں گواہی خوب ٹھیک رہے گی اور یہ اس سے قریب ہے کہ تمہیں شبہ نہ پڑے مگر یہ کہ کوئی سردست کا سودا دست بدست ہو تو اس کے نہ لکھنے کا تم پر گناہ نہیں ( ف٦۰٦ ) اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ کرلو ( ف٦۰۷ ) اور نہ کسی لکھنے والے کو ضَرر دیا جائے ، نہ گواہ کو ( یا ، نہ لکھنے والا ضَرر دے نہ گواہ ) ( ف٦۰۸ ) اور جو تم ایسا کرو تو یہ تمہارا فسق ہوگا ، اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے ، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب کسی مقرّر مدت کے لیے تم آپس میں لین دین 325 کرو ، تو اسے لکھ لیا کرو ۔ فریقین 326 کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے ۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے ۔ وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائےجس پر حق آتا ہے﴿یعنی قرض لینے والا﴾ ، اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے ۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املا نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے ۔ پھر اپنے مردوں میں 327 سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو ۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے ، تو دوسری اسے یاد دلائے ۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو ۔ 328 گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، میعاد کی تعیین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو ۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ۔ اور تمہارے شکوک وشبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں 329 ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو ۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے 330 ۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے ۔ اللہ کے غضب سے بچو ۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ۔
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو ، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے ، پس وہ لکھ دے ( یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے ) ، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق ( یعنی قرض ) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس ( زرِ قرض ) میں سے ( لکھواتے وقت ) کچھ بھی کمی نہ کرے ، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے ، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو ، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ( یہ ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو ( یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو ) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے ، اور گواہوں کو جب بھی ( گواہی کے لئے ) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں ، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو ، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں ، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو ، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو ، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو ، اور اﷲ تمہیں ( معاملات کی ) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :325 اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ قرض کے معاملے میں مدت کی تعیین ہونی چاہیے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :326 عموماً دوستوں اور عزیزوں کے درمیان قرض کے معاملات میں دستاویز لکھنے اور گواہیاں لینے کو معیوب اور بے اعتمادی کی دلیل خیال کیا جاتا ہے ۔ لیکن اللہ کا ارشاد یہ ہے کہ قرض اور تجارتی قراردادوں کو تحریر میں لانا چاہیے اور اس پر شہادت ثبت کرا لینی چاہیے تا کہ لوگوں کے درمیان معاملات صاف رہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ تین قسم کے آدمی ایسے ہیں ، جو اللہ سے فریاد کرتے ہیں ، مگر ان کی فریاد سنی نہیں جاتی ۔ ایک وہ شخص جس کی بیوی بد خلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے ۔ دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کر دے ۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :327 یعنی مسلمان مردوں میں سے ، اس سے معلوم ہوا کہ جہاں گواہ بنانا اختیاری فعل ہو وہاں مسلمان صرف مسلمانوں ہی کو اپنا گواہ بنائیں ۔ البتہ ذمیوں کے گواہ ذمی بھی ہو سکتے ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :328 “مطلب یہ ہے کہ ہر کس و ناکس گواہ ہونے کے لیے موزوں نہیں ہے ، بلکہ ایسے لوگوں کو گواہ بنایا جائے جو اپنے اخلاق و دیانت کے لحاظ سے بالعموم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :329 مطلب یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خرید و فروخت میں بھی معاملہ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے ، جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے ، تاہم ایسا کرنا لازم نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمسایہ تاجر ایک دوسرے سے رات دن جو لین دین کرتے رہتے ہیں ، اس کو بھی اگر تحریر میں نہ لایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :330 اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو دستاویز لکھنے یا اس پر گواہ بننے کے لیے مجبور نہ کیا جائے ، اور یہ بھی کہ کوئی فریق کاتب یا گواہ کو اس بنا پر نہ ستائے کہ وہ اس کے مفاد کے خلاف صحیح شہادت دیتا ہے ۔
حفظ قرآن اور لین دین میں گواہ اور لکھنے کی تاکید یہ آیت قرآن کریم کی تمام آیتوں سے بڑی ہے ، حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ قرآن کی سب سے بڑی آیت یہی آیت الدین ہے ، یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے انکار کرنے والے حضرت آدم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا ، ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور قیامت تک کی ان کی تمام اولاد نکالی ، آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا ، ایک شخص کو خوب تروتازہ اور نورانی دیکھ کر پوچھا کہ الٰہی ان کا کیا نام ہے؟ جناب باری نے فرمایا یہ تمہارے داؤد ہیں ، پوچھا اللہ ان کی عمر کیا ہے؟ فرمایا ساٹھ سال ، کہا اے اللہ اس کی عمر کچھ اور بڑھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں ، ہاں اگر تم اپنی عمر میں سے انہیں کچھ دینا چاہو تو دے دو ، کہا اے اللہ میری عمر میں سے چالیس سال اسے دئیے جائیں ، چنانچہ دے دئیے گئے ، حضرت آدم کی اصلی عمر ایک ہزار سال کی تھی ، اس لین دین کو لکھا گیا اور فرشتوں کو اس پر گواہ کیا گیا حضرت آدم کی موت جب آئی ، کہنے لگے اے اللہ میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ تم نے اپنے لڑکے حضرت داؤد کو دے دئیے ہیں ، تو حضرت آدم نے انکار کیا جس پر وہ لکھا ہوا دکھایا گیا اور فرشتوں کی گواہی گزری ، دوسری روایت میں ہے کہ حضرت آدم کی عمر پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار پوری کی اور حضرت داؤد کی ایک سو سال کی ( مسند احمد ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی علی بن زین بن جدعان کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں ، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ادھار کے معاملات لکھ لیا کریں تاکہ رقم اور معیاد خوب یاد رہے ، گواہ کو بھی غلطی نہ ہو ، اس سے ایک وقت مقررہ کیلئے ادھار دینے کا جواز بھی ثابت ہوا ، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ معیاد مقرر کرکے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ناپ تول یا وزن مقرر کر لیا کرو ، بھاؤ تاؤ چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کر لیا کرو ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ لکھ لیا کرو اور حدیث شریف میں ہے کہ ہم ان پڑھ امت ہیں ، نہ لکھنا جانیں نہ حساب ، ان دونوں میں تطبیق اس طرح ہے کہ دینی مسائل اور شرعی امور کے لکھنے کی تو مطلق ضرورت ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بیحد آسان اور بالکل سہل کر دیا گیا ۔ قرآن کا حفظ اور احادیث کا حفظ قدرتاً لوگوں پر سہل ہے ، لیکن دنیوی چھوٹی بڑی لین دین کی باتیں اور وہ معاملات جو ادھار سدھار ہوں ، ان کی بابت بیشک لکھ لینے کا حکم ہوا اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ حکم بھی وجوباً نہیں پس نہ لکھنا دینی امور کا ہے اور لکھ لینا دنیوی کام کا ہے ۔ بعض لوگ اس کے وجوب کی طرف بھی گئے ہیں ، ابن جریج فرماتے ہیں جو ادھار دے وہ لکھ لے اور جو بیچے وہ گواہ کر لے ، ابو سلیمان مرعشی جنہوں نے حضرت کعب کی صحبت بہت اٹھائی تھی انہوں نے ایک دن اپنے پاس والوں سے کہا اس مظلوم کو بھی جانتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی دعا قبول نہیں ہوتی لوگوں نے کہا یہ کس طرح؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو ایک مدت کیلئے ادھار دیتا ہے اور نہ گواہ رکھتا ہے نہ لکھت پڑھت کرتا ہے پھر مدت گزرنے پر تقاضا کرتا ہے اور دوسرا شخص انکار کر جاتا ہے ، اب یہ اللہ سے دعا کرتا ہے لیکن پروردگار قبول نہیں کرتا اس لئے کہ اس نے کام اس کے فرمان کیخلاف کیا ہے اور اپنے رب کا نافرمان ہوا ہے ، حضرت ابو سعید شعبی ربیع بن انس حسن ابن جریج ابن زید وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے تو یہ واجب تھا پھر وجوب منسوخ ہوگیا اور فرمایا گیا کہ اگر ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو جسے امانت دی گئی ہے اسے چاہئے کہ ادا کردے ، اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے ، گو یہ واقعہ اگلی امت کا ہے لیکن تاہم ان کی شریعت ہماری شریعت ہے ۔ جب تک ہماری شریعت پر اسے انکار نہ ہو اس واقعہ میں جسے اب ہم بیان کرتے ہیں لکھت پڑھت کے نہ ہونے اور گواہ مقرر نہ کئے جانے پر شارع علیہ السلام نے انکار نہیں کیا ، دیکھئے مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار ادھار مانگے ، اس نے کہا گواہ لاؤ ، جواب دیا کہ اللہ کی گواہی کافی ہے ، کہا ضمانت لاؤ ، جواب دیا اللہ کی ضمانت کافی ہے ، کہا تو نے سچ کہا ، ادائیگی کی معیاد مقرر ہو گئی اور اس نے اسے ایک ہزار دینار گن دئیے ، اس نے تری کا سفر کیا اور اپنے کام سے فارغ ہوا ، جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو یہ سمندر کے قریب آیا کہ کوئی جہاز کشتی ملے تو اس میں بیٹھ جاؤں اور رقم ادا کر آؤں ، لیکن کوئی جہاز نہ ملا ، جب دیکھا کہ وقت پر نہیں پہنچ سکتا تو اس نے ایک لکڑی لی ، اسے بیچ سے کھوکھلی کر لی اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک پرچہ بھی رکھ دیا ، پھر منہ کو بند کر دیا اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تجھے خوب علم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے اس نے مجھ سے ضمانت طلب کی ، میں نے تجھے ضامن کیا اور وہ اس پر خوش ہو گیا ، گواہ مانگا ، میں نے گواہ بھی تجھی کو رکھا ، وہ اس پر بھی خوش ہو گیا ، اب جبکہ اپنا قرض ادا کر آؤں لیکن کوئی کشتی نہیں ملی ، اب میں اس رقم کو تجھے سونپتا ہوں اور سمندر میں ڈال دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ رقم اسے پہنچا دے ، پھر اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور خود چلا گیا لکین پھر بھی کشتی کی تلاش میں رہا کہ مل جائے تو جاؤں ، یہاں تو یہ ہوا ، وہاں جس شخص نے اسے قرض دیا تھا ، جب اس نے دیکھا کہ وقت پورا ہوا اور آج اسے آ جانا چاہئے تھا ، تو وہ بھی دریا کنارے آن کھڑا ہوا کہ وہ آئے گا اور میری رقم مجھے دے دے گا یا کسی کے ہاتھ بھجوائے گا ، مگر جب شام ہونے کو آئی اور کوئی کشتی اس کی طرف سے نہیں آئی تو یہ واپس لوٹا ، کنارے پر ایک لکڑی دیکھی تو یہ سمجھ کر کہ خالی ہاتھ تو جا ہی رہا ہوں ، اس لکڑی کو بھی لے چلوں ، پھاڑ کر سکھا لوں گا جلانے کے کام آئے گی ، گھر پہنچ کر جب اسے چیرتا ہے تو کھنا کھن بجتی ہوئی اشرفیاں نکلتی ہیں ، گنتا ہے تو پوری ایک ہزار ہیں ، وہیں پرچہ پر نظر پڑتی ہے ، اسے بھی اٹھا کر پڑھ لیتا ہے ، پھر ایک دن وہی شخص آتا ہے اور ایک ہزار دینار پیش کرکے کہتا ہے یہ لیجئے آپ کی رقم ، معاف کیجئے گا میں نے ہر چند کوشش کی کہ وعدہ خلافی نہ ہو لیکن کشتی کے نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہو گیا اور دیر لگ گئی ، آج کشتی ملی ، آپ کی رقم لے کر حاضر ہوا ، اس نے پوچھا کیا میری رقم آپ نے بھجوائی بھی ہے؟ اس نے کہا میں کہ چکا ہوں کہ مجھے کشتی نہ ملی تھی ، اس نے کہا آپ اپنی رقم لے کر خوش ہو کر چلے جاؤ ، آپ نے جو رقم لکڑی میں ڈال کر اسے توکل علی اللہ ڈالی تھی ، اسے اللہ نے مجھ تک پہنچا دیا اور میں نے اپنی رقم پوری وصول پالی ۔ اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ، صحیح بخاری شریف میں سات جگہ یہ حدیث آئی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ لکھنے والا عدل و حق کے ساتھ لکھے ، کتابت میں کسی فریق پر ظلم نہ کرے ، ادھر ادھر کچھ کمی بیشی نہ کرے بلکہ لین دین والے دونوں متفق ہو کر جو لکھوائیں وہی لکھے ، لکھا پڑھا شخص معاملہ کو لکھنے سے انکار نہ کرے ، جب اسے لکھنے کو کہا جائے لکھ دے ، جس طرح اللہ کا یہ احسان اس پر ہے کہ اس نے اسے لکھنا سکھایا اسی طرح جو لکھنا نہ جانتے ہوں ان پر یہ احسان کرے اور ان کے معاملہ کو لکھ دیا کرے ۔ حدیث میں ہے یہ بھی صدقہ ہے کہ کسی کام کرنے والے کا ہاتھ بٹا دو ، کسی گرے پڑے کا کام کر دو ، اور حدیث میں ہے جو علم کو جان کر پھر اسے چھپائے ، قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی ، حضرت مجاہد اور حضرت عطا فرماتے ہیں کاتب پر لکھ دینا اس آیت کی رو سے واجب ہے ۔ جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اللہ سے ڈرے ، نہ کمی بیشی کرے نہ خیانت کرے ۔ اگر یہ شخص بےسمجھ ہے اسراف وغیرہ کی وجہ سے روک دیا گیا ہے یا کمزور ہے یعنی بچہ ہے یا حواس درست نہیں یا جہالت اور کندذہنی کی وجہ سے لکھوانا بھی نہیں جانتا تو جو اس کا والی اور بڑا ہو ، وہ لکھوائے ۔ پھر فرمایا کتابت کے ساتھ شہادت بھی ہونی چاہئے تاکہ معاملہ خوب مضبوط اور بالکل صاف ہو جائے ۔ دو عورتوں کو ایک عورت کے قائم مقام کرنا عورت کے نقصان کے سبب ہے ، جیسے صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عورتو صدقہ کرو اور بکثرت استغفار کرتی رہو ، میں نے دیکھا ہے کہ جہنم میں تم بہت زیادہ تعداد میں جاؤ گی ، ایک عورت نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لعنت زیادہ بھیجا کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو ، میں نے نہیں دیکھا کہ باوجود عقل دین کی کمی کے ، مردوں کی عقل مارنے والی تم سے زیادہ کوئی ہو ، اس نے پھر پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں دین کی عقل کی کمی کیسے ہے؟ فرمایا عقل کی کمی تو اس سے ظاہر ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ایام حیض میں نہ نماز ہے نہ روزہ ۔ گواہوں کی نسبت فرمایا کہ یہ شرط ہے کہ وہ عدالت والے ہوں ۔ امام شافعی کا مذہب ہے کہ جہاں کہیں قرآن شریف میں گواہ کا ذِکر ہے وہاں عدالت کی شرط ضروری ہے ، گو وہاں لفظوں میں نہ ہو اور جن لوگوں نے ان کی گواہی رَد کر دی ہے جن کا عادل ہونا معلوم نہ ہو ان کی دلیل بھی یہی آیت ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ گواہ عادل اور پسندیدہ ہونا چاہئے ۔ دو عورتیں مقرر ہونے کی حکمت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ اگر ایک گواہی کو بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے کی فتذکر کی دوسری قرأت فتذکر بھی ہے ، جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شہادت اس کے ساتھ مل کر شہادت مرد کے کر دے گی انہوں نے مکلف کیا ہے ، صحیح بات پہلی ہی ہے واللہ اعلم ۔ گواہوں کو چاہئے کہ جب وہ بلائے جائیں انکار نہ کریں یعنی جب ان سے کہا جائے کہ آؤ اس معاملہ پر گواہ رہو تو انہیں انکار نہ کرنا چاہئے جیسے کاتب کی بابت بھی یہی فرمایا گیا ہے ، یہاں سے یہ بھی فائدہ حاصل کیا گیا ہے کہ گواہ رہنا بھی فرض کفایہ ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمہور کا مذہب یہی ہے اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ جب گواہ گواہی دینے کیلئے طلب کیا جائے یعنی جب اس سے واقعہ پوچھا جائے تو وہ خاموش نہ رہے ، چنانچہ حضرت ابو مجلز مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں کہ جب گواہ بننے کیلئے بلائے جاؤ تو تمہیں اختیار ہے خواہ گواہ بننا پسند کرو یا نہ کرو یا نہ جاؤ لیکن جب گواہ ہو چکو پھر گواہی دینے کیلئے جب بلایا جائے تو ضرور جانا پڑے گا ، صحیح مسلم اور سنن کی حدیث میں ہے اچھے گواہ وہ ہیں جو بےپوچھے ہی گواہی دے دیا کریں ، بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ بدترین گواہ وہ ہیں جن سے گواہی طلب نہ کی جائے اور وہ گواہی دینے بیٹھ جائیں اور وہ حدیث جس میں ہے کہ پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی قسمیں گواہیوں پر اور گواہیاں قسموں پر پیش پیش رہیں گی ، اور روایت میں آیا ہے کہ ان سے گواہی نہ لی جائے گی تاہم وہ گواہی دیں گے تو یاد رہے ( مذمت جھوٹی گواہی دینے والوں کی اور تعریف سچی گواہی دینے والوں کی ہے ) اور یہی ان مختلف احادیث میں تطبیق ہے ، حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں آیت دونوں حالتوں پر شامل ہے ، یعنی گواہی دینے کیلئے بھی اور گواہ رہنے کیلئے بھی انکار نہ کرنا چاہئے ۔ پھر فرمایا چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا لکھنے سے کسمساؤ نہیں بلکہ مدت وغیرہ بھی لکھ لیا کرو ۔ ہمارا یہ حکم پورے عدل والا اور بغیر شک و شبہ فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ پھر فرمایا جبکہ نقد خرید و فروخت ہو رہی ہو تو چونکہ باقی کچھ نہیں رہتا اس لئے اگر نہ لکھا جائے تو کسی جھگڑے کا احتمال نہیں ، لہذا کتابت کی شرط تو ہٹا دی گئی ، اب رہی شہادت تو سعید بن مسیب تو فرماتے ہیں کہ ادھار ہو یا نہ ہو ، ہر حال میں اپنے حق پر گواہ کر لیا کرو ، دیگر بزرگوں سے مروی ہے کہ ( آیت فان امن الخ ، ) فرما کر اس حکم کو بھی ہٹا دیا ، یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم واجب نہیں بلکہ استحباب کے طور پر اچھائی کیلئے ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید وفروخت کی جبکہ اور کوئی گواہ شاہد نہ تھا ، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا اور اعرابی آپ کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کی طرف رقم لینے کیلئے چلا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ذرا جلد نکل آئے اور وہ آہستہ آہستہ آ رہا تھا ، لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گھوڑا بک گیا ہے ، انہوں نے قیمت لگانی شروع کی یہاں تک کہ جتنے داموں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچا تھا اس سے زیادہ دام لگ گئے ، اعرابی کی نیت پلٹی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے کر کہا حضرت یا تو گھوڑا اسی وقت نقد دے کر لے لو یا میں اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سُن کر رکے اور فرمانے لگے تو تو اسے میرے ہاتھ بیچ چکا ہے پھر یہ کیا کہہ رہا ہے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے تو نہیں بیچا ، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلط کہتا ہے ، میرے تیرے درمیان معاملہ طے ہو چکا ہے ، اب لوگ ادھر اُدھر سے بیچ میں بولنے لگے ، اس گنوار نے کہا اچھا تو گواہ لائیے کہ میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، مسلمانوں نے ہر چند کہا کہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے پیغمبر ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تو حق ہی نکلتا ہے ، لیکن وہ یہی کہے چلا جائے کہ لاؤ گواہ پیش کرو ، اتنے میں حضرت خزیمہ آگئے اور اعرابی کے اس قول کو سن کر فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے بیچ دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ تو فروخت کر چکا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیسے شہادت دے رہا ہے ، حضرت خزیمہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور سچائی کی بنیاد پر یہ شہادت دی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے حضرت خزیمہ کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے ۔ پس اس حدیث سے خرید و فروخت پر گواہی دو گواہوں کی ضروری نہ رہی ، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ تجارت پر بھی دو گواہ ہوں ، کیونکہ ابن مردویہ اور حاکم میں ہے کہ تین شخص ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں کی جاتی ، ایک تو وہ کہ جس کے گھر بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے ، دوسرا وہ شخص جو کسی یتیم کا مال اس کی بلوغت کے پہلے اسے سونپ دے ، تیسرا وہ شخص جو کسی کو مال قرض دے اور گواہ نہ رکھے ، امام حاکم اسے شرط و بخاری و مسلم پر صحیح بتلاتے ہیں ، بخاری مسلم اس لئے نہیں لائے کہ شعبہ کے شاگرد اس روایت کو حضرت ابو موسیٰ اشعری پر موقوف بتاتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ کاتب کا چاہئے کہ جو لکھا گیا وہی لکھے اور گواہ کو چاہئے کہ واقعہ کیخلاف گواہی نہ دے اور نہ گواہی کو چھپائے ، حسن قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ابن عباس یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کو ضرر نہ پہنچایا جائے مثلاً انہیں بلانے کیلئے گئے ، وہ کسی اپنے کام میں مشغول ہوں تو یہ کہنے لگے کہ تم پر یہ فرض ہے ۔ اپنا حرج کرو اور چلو ، یہ حق انہیں ہیں ۔ اور بہت سے بزرگوں سے بھی یہی مروی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں جس سے روکوں اس کا کرنا اور جو کام کرنے کو کہوں اس سے رک جانا بہ بدکاری ہے جس کا وبال تم سے چھٹے گا نہیں ۔ پھر فرمایا اللہ سے ڈرو اس کا لحاظ رکھو ، اس کی فرمانبرداری کرو ، اس کے روکے ہوئے کاموں سے رُک جاؤ ، اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھا رہا ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ) 8 ۔ الانفال:29 ) اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں دلیل دے دے گا ، اور جگہ ہے ایمان لو! اللہ سے ڈرتے رہو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھو وہ تمہیں دوہری رحمتیں دے گا اور تمہیں نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلتے رہو گے ۔ پھر فرمایا تمام کاموں کا انجام اور حقیقت سے ان کی مصلحتوں اور دوراندیشیوں سے اللہ آگاہ ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ، اس کا علم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر چیز کا اسے حقیقی علم ہے ۔