Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاِنۡ كُنۡتُمۡ عَلٰى سَفَرٍ وَّلَمۡ تَجِدُوۡا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقۡبُوۡضَةٌ ‌ ؕ فَاِنۡ اَمِنَ بَعۡضُكُمۡ بَعۡضًا فَلۡيُؤَدِّ الَّذِى اؤۡتُمِنَ اَمَانَـتَهٗ وَلۡيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ‌ؕ وَلَا تَكۡتُمُوا الشَّهَادَةَ ‌ ؕ وَمَنۡ يَّكۡتُمۡهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُهٗ‌ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِيۡمٌ‏ ﴿283﴾
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو ، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالٰی سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے ۔ اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گناہ گار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے ۔
و ان كنتم على سفر و لم تجدوا كاتبا فرهن مقبوضة فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذي اؤتمن امانته و ليتق الله ربه و لا تكتموا الشهادة و من يكتمها فانه اثم قلبه و الله بما تعملون عليم
And if you are on a journey and cannot find a scribe, then a security deposit [should be] taken. And if one of you entrusts another, then let him who is entrusted discharge his trust [faithfully] and let him fear Allah , his Lord. And do not conceal testimony, for whoever conceals it - his heart is indeed sinful, and Allah is Knowing of what you do.
Aur agar tum safar mein ho aur likhney wala na pao to rehan qabzay mein rakh liya kero haan agar aapas mein aik doosray say mutmaeen ho to jissay amanat di gaee hai woh ussay ada ker dey aur Allah Taalaa say darat rahey jo uss ka rab hai aur gawahi ko na chupao aur jo issay chupa ley woh gunehgar dil wala hai aur jo kuch tum kertay ho ussay Allah Taalaa khoob janta hai.
اور اگر تم سفر پر ہوا اور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تو ( ادائیگی کی ضمانت کے طور پر ) رہن قبضے میں رکھ لیے جائیں ۔ ہاں اگر تم ایک دوسرے پر بھروسہ کرو تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ٹھیک ٹھیک ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے ۔ اور گواہی کو چھپاؤ ، اور جو گواہی کو چھپائے وہ گنہگار دل کا حامل ہے ، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے ۔
اور اگر تم سفر میں ہو ( ف٦۰۹ ) اور لکھنے والا نہ پاؤ ( ف٦۱۰ ) تو گِرو ( رہن ) ہو قبضہ میں دیا ہوا ( ف٦۱۱ ) اور اگر تم ایک کو دوسرے پر اطمینان ہو تو وہ جسے اس نے امین سمجھا تھا ( ف٦۱۲ ) اپنی امانت ادا کردے ( ف٦۱۳ ) اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور گواہی نہ چھپاؤ ( ف٦۱٤ ) اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اسکا دل گنہگار ہے ( ف٦۱۵ ) اور اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے ،
اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کےلیے کوئی کاتب نہ ملے ، رہن بالقبض پر معاملہ کرو ۔ 331 اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے ، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے ، اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ ، اپنے رب سے ڈرے ۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ ۔ 332 جو شہادت چھپاتا ہے ، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے ۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ۔
اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو ، پھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہئے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ اﷲ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے ، اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو ، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے ، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے
مسئلہ رہن ، تحریر اور گواہی یعنی بحالت سفر اگر ادھار کا لین دین ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے یا ملے مگر قلم و دوات یا کاغذ نہ ہو تو رہن رکھ لیا کرو اور جس چیز کو رہن رکھنا ہو اسے حقدار کے قبضے میں دے دو ۔ مقبوضہ کے لفظ سے استدلال کیا گیا ہے کہ رہن جب تک قبضہ میں نہ آ جائے لازم نہیں ہوتا ، جیسا کہ امام شافعی اور جمہور کا مذہب ہے اور دوسری جماعت نے استدلال کیا ہے کہ رہن کا مرتہن کے ہاتھ میں مقبوض ہونا ضروری ہے ۔ امام احمد اور ایک دوسری جماعت میں یہی منقول ہے ، ایک اور جماعت کا قول ہے کہ رہن صرف میں ہی مشروع ہے ، جیسے حضرت مجاہد وغیرہ لیکن صحیح بخاری صحیح مسلم شافعی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت فوت ہوئے اس وقت آپ کی زرہ مدینے کے ایک یہودی ابو الشحم کے پاس تیس وسق جو کے بدلے گروی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے کھانے کیلئے لئے تھے ۔ ان مسائل کے بسط و تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ احکام کی بڑی بڑی کتابیں وللہ الحمد والمنتہ و بہ المستعان اس سے بعد کے جملے ( آیت فان امن ) سے حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ اس کے پہلے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے ، شعبی فرماتے ہیں جب نہ دینے کا خوف ہو تو نہ لکھنے اور نہ گواہ رکھنے کی کوئی حرج نہیں ۔ جسے امانت دی جائے اسے خود اللہ رکھنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ادا کرنے کی ذمہ داری اس ہاتھ پر ہے جس نے کچھ لیا ۔ ارشاد ہے شہادت کو نہ چھپاؤ نہ اس میں خیانت کرو نہ اس کے اظہار کرنے سے رکو ، ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں جھوٹی شہادت دینی یا شہادت کو چھپانا گناہِ کبیرہ ہے ، یہاں بھی فرمایا اس کا چھپانے والا خطا کار دِل والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ ۙاللّٰهِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:106 ) یعنی ہم اللہ کی شہادت کو نہیں چھپاتے ، اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینا ہم گنہگاروں میں سے ہیں ، اور جگہ فرمایا ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل یعنی گواہیوں پر ثابت قدم رہو ، گو اس کی برائی خود تمہیں پہنچے یا تمہارے ماں باپ کو یا رشتے کنبے والوں کو اگر وہ مالدار ہو تو اور فقیر ہو تو اللہ تعالیٰ ان دونوں سے اولیٰ ہے ، خواہشوں کے پیچھے پڑ کر عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم زبان دباؤ گے یا پہلو تہی کرو گے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اعمال سے خبردار ہے ، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ گواہی کو نہ چھپاؤ اس کا چھپانے والا گنہگار دِل والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔