Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَاِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡهُ يُحَاسِبۡكُمۡ بِهِ اللّٰهُ‌ؕ فَيَـغۡفِرُ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿284﴾
آسمانوں اور زمین کی ہرچیز اللہ تعالٰی ہی کی ملکیت ہے ۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ تعالٰی اس کا حساب تم سے لے گا پھر جسے چاہے بخشے جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
لله ما في السموت و ما في الارض و ان تبدوا ما في انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء و الله على كل شيء قدير
To Allah belongs whatever is in the heavens and whatever is in the earth. Whether you show what is within yourselves or conceal it, Allah will bring you to account for it. Then He will forgive whom He wills and punish whom He wills, and Allah is over all things competent.
Aasmanon aur zamin ki her cheez Allah Taalaa hi ki milkiyat hai. Tumharay dilon mein jo kuch hai ussay tum zahir kero ya chupao Allah Taalaa uss ka hisab tum say ley ga. Phir jissay chahaye bakshay aur jissay chahaye saza dey aur Allah Taalaa her cheez per qadir hai.
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے ، اور جو باتیں تمہارے دلوں میں ہیں ، خواہ تم ان کو ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ تم سے ان کا حساب لے گا ( ١٨٨ ) پھر جس کو چاہے گا معاف کردے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا ( اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ ( ف٦۱٦ ) تمہارے جی میں ہے یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا ( ف٦۱۷ ) تو جسے چاہے گا بخشے گا ( ف٦۱۸ ) اور جسے چاہے گا سزادے گا ( ف٦۱۹ ) اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ،
333 آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ، سب اللہ کا ہے ۔ 334 تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا ۔ 335 پھر اسے اختیار ہے جسے چاہے ، معاف کر دے اور جسے چاہے ، سزا دے ۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ 336
جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اﷲ کے لئے ہے ، وہ باتیں جو تمہارے دلوں میں ہیں خواہ انہیں ظاہر کرو یا انہیں چھپاؤ اﷲ تم سے اس کا حساب لے گا ، پھر جسے وہ چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا ، اور اﷲ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :333 یہ خاتمہ کلام ہے ۔ اس لیے جس طرح سورت کا آغاز دین کی بنیادی تعلیمات سے کیا گیا تھا ، اسی طرح سورت کو ختم کرتے ہوئے بھی ان تمام اصولی امور کو بیان کر دیا گیا ہے جن پر دین اسلام کی اساس قائم ہے ۔ تقابل کے لیے اس سورہ کے پہلے رکوع کو سامنے رکھ لیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :334 یہ دین کی اولین بنیاد ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا مالک زمین و آسمان ہونا اور ان تمام چیزوں کا جو آسمان و زمین میں ہیں ، اللہ ہی کی ملک ہونا ، در اصل یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس کی بنا پر انسان کے لیے کوئی دوسرا طرز عمل اس کے سوا جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :335 اس فقرے میں مزید دو باتیں ارشاد ہوئیں ۔ ایک یہ کہ ہر انسان فرداً فرداً اللہ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ جس پادشاہ زمین و آسمان کے سامنے انسان جواب دہ ہے ، وہ غیب و شہادت کا علم رکھنے والا ہے ، حتٰی کہ دلوں کے چھپے ہوئے ارادے اور خیالات تک اس سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :336 یہ اللہ کے اختیار مطلق کا بیان ہے ۔ اس کو کسی قانون نے باندھ نہیں رکھا ہے کہ اس کے مطابق عمل کرنے پر وہ مجبور ہو ، بلکہ وہ مالک مختار ہے ۔ سزا دینے اور معاف کرنے کے کلی اختیارات اس کو حاصل ہیں ۔
انسان کے ضمیر سے خطاب یعنی آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ چھوٹی بڑی چھپی یا کھلی ہر بات کو وہ جانتا ہے ۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر عمل کا وہ حساب لینے والا ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ يَعْلَمْهُ اللّٰهُ ) 3 ۔ آل عمران:29 ) کہہ دے کہ تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا بخوبی علم ہے ، وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور فرمایا وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے ، مزید اس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں ، یہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ اس پر حساب لے گا ، جب یہ آیت اتری تو صحابہ بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہو گا ، اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور کہنے لگے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز ، روزہ ، جہاد ، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا ، وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتی المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا ، تمہیں چاہئے کہ یوں کہو ہم نے سنا اور مانا ، اے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں ۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ چنانچہ صحابہ کرام نے اسے تسلیم کرلیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہوگئے تو آیت ( اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:285 ) اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کر دیا اور آیت لایکلف اللہ نازل ہوئی ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو ہٹا کر آیت لایکلف اللہ الخ ، اتاری اور جب مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ ہماری بھول چوک اور ہماری خطا پر ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نعم ، یعنی میں یہی کروں گا ۔ انہوں نے کہا آیت ربنا ولا تحمل علینا الخ ، اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے اگلوں پر ڈالا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی قبول ، پھر کہا ربنا ولاتحملنا اے اللہ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال ، اسے بھی قبول کیا گیا ۔ پھر دعا مانگی اے اللہ ہمیں معاف فرمادے ، ہمارے گناہ بخش اور کافروں پر ہماری مدد کر ، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا ، یہ حدیث اور بھی بہت سے انداز سے مروی ہے ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت مجاہد کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس کے پاس جا کر واقعہ بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اس آیت وان تبدوا کی تلاوت فرمائی اور بہت روئے ، آپ نے فرمایا اس آیت کے اترتے یہی حال صحابہ کا ہوا تھا ، وہ سخت غمگین ہو گئے اور کہا دِلوں کے مالک تو ہم نہیں ۔ دِل کے خیالات پر بھی پکڑے گئے تو یہ تو بڑی مشکل ہے ۔ آپ نے فرمایا سمعنا واطعنا کہو ، چنانچہ صحابہ نے کہا اور بعد والی آیتیں اتریں اور عمل پر تو پکڑ طے ہوئی لیکن دِل کے خطرات اور نفس کے وسوسے سے پکڑ منسوخ ہو گئی ، دوسرے طریق سے یہ روایت ابن مرجانہ سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ تم اپنے نیک و بد اعمال پر پکڑے جاؤ گے خواہ زبانی ہوں خواہ دوسرے اعضاء کے گناہ ہوں ، لیکن دِلی وسو اس معاف ہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کا منسوخ ہونا مروی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دِلی خیالات سے درگزر فرما لیا ، گرفت اسی پر ہوگی جو کہیں یا کریں ، بخاری مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو جب تک اس سے برائی سرزد ہو ، اگر کر گزرے تو ایک برائی لکھو اور جب نیکی کا اراد کرے تو صرف ارادہ سے ہی نیکی لکھ لو اور اگر نیکی کر بھی لے تو ایک کے بدلے دس نیکیاں لکھو ( مسلم ) اور روایت میں ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ساتھ سو تک لکھی جاتی ہیں ، اور روایت میں ہے کہ جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رُکے رہو جب تک کر نہ لے ، اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر لکھو گے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا ہے اور برائی نہیں بڑھتی ، اور روایت میں ہے کہ سات سو سے بھی کبھی کبھی نیکی بڑھا دی جاتی ہے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بڑا بردبار ہونے والا وہ ہے جو باوجود اس رحم و کرم کے بھی برباد ہو ، ایک مرتبہ اصحاب نے آکر عرض کیا حضرت کبھی کبھی تو ہمارے دِل میں ایس وسوسے اٹھتے ہیں کہ زبان سے ان کا بیان کرنا بھی ہم پر گراں گزرتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ایسا ہونے لگا ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں آپ نے فرمایا یہ صریح ایمان ہے ( مسلم وغیرہ ) حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن جب تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دِلوں کے ایسے بھید بتاتا ہوں جس سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہیں ، مومنوں کو تو بتانے کے بعد پھر معاف فرما دیا جائے گا لیکن منافق اور شک و شبہ کرنے والے لوگوں کو ان کے کفر کی درپردہ اطلاع دے کر بھی ان کی پکڑ ہوگی ۔ ارشاد ہے ( آیت ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے دِلوں کی کمائی پر ضرور پکڑے گا یعنی دِلی شک اور دِلی نفاق کی بنا پر ، حسن بصری بھی اسے منسوخ نہیں کہتے ، امام ابن جریر بھی اسی روایت سے متفق ہیں اور فرماتے ہیں کہ حساب اور چیز ہے عذاب اور چیز ہے ۔ حساب لئے جانے اور عذاب کیا جانا لازم نہیں ، ممکن ہے حساب کے بعد معاف کر دیا جائے اور ممکن ہے سزا ہو ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم طواف کر رہے تھے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا کہ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کے متعلق کیا سنا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان والے کو اپنے پاس بلائے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا پھر اس سے کہے گا بتا تو نے فلاں فلاں گناہ کیا ؟ فلاں فلاں گناہ کیا ؟ وہ غریب اقرار کرتا جائے گا ، جب بہت سے گناہ ہونے کا اقرار کر لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا سُن دنیا میں بھی میں نے تیرے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی ، اور اب آج کے دن بھی میں ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہوں ، اب اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ، ہاں البتہ کفار و منافق کو تمام مجمع کے سامنے رسوا کیا جائے گا اور ان کے گناہ ظاہر کئے جائیں گے اور پکارا جائے گا کہ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر تہمت لگائی ، ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ حضرت زید نے ایک مرتبہ اس آیت کے بارے میں حضرت عائشہ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا جب سے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا ہے تب سے لے کر آج تک مجھ سے کسی شخص نے نہیں پوچھا ، مگر آج تو نے پوچھا تو سُن اس سے مراد بندے کو دنیاوی تکلیفیں مثلاً بخار وغیرہ تکلیفیں پہنچانا ہے ، یہاں تک کہ مثلاً ایک جیب میں نقدی رکھی اور بھول گیا ، تھوڑی پریشانی ہوئی مگر دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا وہاں سے نقدی مل گی ، اس پر بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ مرنے کے وقت وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح خالص سرخ سونا ہو ۔ ترمذی وغیرہ ، یہ حدیث غریب ہے ۔