Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مِنۡ رَّبِّهٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‌ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓٮِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِهٖ‌ وَقَالُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا‌ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيۡكَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿285﴾
رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالٰی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔
امن الرسول بما انزل اليه من ربه و المؤمنون كل امن بالله و ملىكته و كتبه و رسله لا نفرق بين احد من رسله و قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا و اليك المصير
The Messenger has believed in what was revealed to him from his Lord, and [so have] the believers. All of them have believed in Allah and His angels and His books and His messengers, [saying], "We make no distinction between any of His messengers." And they say, "We hear and we obey. [We seek] Your forgiveness, our Lord, and to You is the [final] destination."
Rasool eman laya uss cheez pe jo uss per Allah Taalaa ki janib say utri aur momin bhi eman laye yeh sab Allah Taalaa aur uss kay farishton per aur uss ki kitabon per aur uss kay rasoolon per eman laye uss kay rasoolon mein say kissi mein hum tafareeq nahi kertay unhon ney keh diya kay hum ney suna aur itaat ki hum teri bakshish talab kertay hain aey humaray rab! Aur humen teri taraf hi lotna hai.
یہ رسول ( یعنی حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور ( ان کے ساتھ ) تمام مسلمان بھی ، یہ سب اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ( وہ کہتے ہیں کہ ) ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے ( کہ کسی پر ایمان لائیں ، کسی پر نہ لائیں ) اور وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم نے ( اللہ اور رسول کے احکام کو توجہ سے ) سن لیا ہے ، اور ہم خوشی سے ( ان کی ) تعمیل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے پروردگار ہم آپ کی مغفرت کے طلبگار ہیں ، اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کرجانا ہے ۔
سب نے مانا ( ف٦۲۰ ) اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو ( ف٦۲۱ ) یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے ( ف٦۲۲ ) اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا ( ف٦۲۳ ) تیری معافی ہو اے رب ہمارے! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے ،
رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے ۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں ، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ 337
۔ ( وہ ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس پر ایمان لائے ( یعنی اس کی تصدیق کی ) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی ، سب ہی ( دل سے ) اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ، ( نیز کہتے ہیں: ) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی ( ایمان لانے میں ) فرق نہیں کرتے ، اور ( اﷲ کے حضور ) عرض کرتے ہیں: ہم نے ( تیرا حکم ) سنا اور اطاعت ( قبول ) کی ، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور ( ہم سب کو ) تیری ہی طرف لوٹنا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :337 اس آیت میں تفصیلات سے قطع نظر کر کے اسلام کے عقائد اور اسلامی طرز عمل کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے : اللہ کو ، اس کے فرشتوں کو ، اور اس کی کتابوں کو ماننا ۔ اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کرنا بغیر اس کے کہ ان کے درمیان فرق کیا جائے ( یعنی کسی کو مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے ) ۔ اور اس امر کو تسلیم کرنا کہ آخر کار ہمیں اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے ۔ یہ پانچ امور اسلام کے بنیادی عقائد ہیں ۔ ان عقائد کو قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان کے لیے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم پہنچے ، اسے وہ بسر و چشم قبول کرے ، اس کی اطاعت کرے ، اور اپنے حسن عمل پر غرہ نہ کرے ، بلکہ اللہ سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا رہے ۔
بقرہ کی آخری آیات اور ان کی فضیلت ان دونوں آیتوں کی حدیثیں سنئے ، صحیح بخاری میں ہے جو شخص ان دونوں آیتوں کو رات کو پڑھ لے اسے یہ دونوں کافی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں عرش تلے کے خزانہ سے دیا گیا ہوں مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ نہیں دی گئیں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی اور آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو ساتویں آسمان میں ہے ، جو چیز آسمان کی طرف چڑھتی ہے وہ یہیں تک ہی پہنچتی ہے اور یہاں سے ہی لے جائی جاتی ہے اور جو چیز اوپر سے نازل ہوتی ہے وہ بھی یہیں تک پہنچتی ہے ، پھر یہاں سے آگے لے جائی جاتی ہے اور اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھکے ہوئے تھیں ، وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں دی گئیں ۔ پانچ وقت کی نمازیں ، سورۃ بقرہ کے خاتمہ کی آیتیں اور توحید والوں کے تمام گناہوں کی بخشش ۔ مسند میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورۃ بقرہ کی ان دونوں آخری آیتوں کو پڑھتے رہا کرو ، میں انہیں عرش کے نیچے کے خزانوں سے دیا گیا ہوں ، ابن مردویہ میں ہے کہ ہمیں لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں ، میں سورۃ بقرہ کی یہ آخری آیتیں عرش تلے کے خزانوں سے دیا گیا ہوں جو نہ میرے پہلے کسی کو دی گئیں نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی ، ابن مردویہ میں ہے حضرت علی فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ اسلام کے جاننے والوں میں سے کوئی شخص آیت الکرسی اور سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھے بغیر سو جائے ، یہ وہ خزانہ ہے جو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرش تلے کے خزانہ سے دئیے گئے ہیں ، اور حدیث ترمذی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے دو ہزار برس پہلے تک ایک کتاب لکھی جس میں سے دو آیتیں اتار کر سورۃ بقرہ ختم کی ، جس گھر میں یہ تین راتوں تک پڑھی جائیں اس گھر کے قریب بھی شیطان نہیں جا سکتا ۔ امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں لیکن حاکم اپنی مستدرک میں اسے صحیح کہتے ہیں ، ابن مردویہ میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ بقرہ کا خاتمہ اور آیت الکرسی پڑھتے تو ہنس دیتے اور فرماتے یہ دونوں رحمن کے عرش تلے کا خزانہ ہیں اور جب آیت ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) 4 ۔ النسآء:110 ) اور آیت ( وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى 39؀ۙ وَاَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى 40؀۠ ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى 41؀ۙ ) 53 ۔ النجم:39 ) پڑھتے تو زبان سے اناللہ نکل جاتا اور سست ہو جاتے ، ابن مردویہ میں ہے کہ مجھے سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقر کی آخری آیتیں عرش کے نیچے سے دی گئی ہیں ، اور مزید مفصل کی سورتیں بھی وہاں سے ہی دی گئی ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جہاں حضرت جبرائیل بھی تھے کہ اچانک ایک دہشت ناک بہت بڑے دھماکے کی آواز کے ساتھ آسمان کا وہ دروازہ کھلا جو آج تک کبھی نہیں کھلا تھا ، اس سے ایک فرشتہ اترا ، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ کو خوشی مبارک ہو ، آپ کو وہ دو نور دئیے جاتے ہیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں ۔ ان کے ایک ایک حرف پر آپ کو نور دیا جائے گا ( مسلم ) پس یہ دس حدیثیں ان مبارک آیتوں کی فضیلت ہیں ۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ رسول یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ایمان لائے جو انکی طرف سے ان کے رب کی جانب سے نازل ہوا ، اسے سن کر آپ کے فرمایا وہ ایمان لانے کا پورا مستحق ہے ، اور دوسرے ایماندار بھی ایمان لائے ، ان سب نے مان لیا کہ اللہ ایک ہے ، وہ وحدانیت کا مالک ہے ، وہ تنہا ہے ، وہ بےنیاز ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی پالنے والا ہے ، یہ ( ایمان والے ) تمام انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں ، تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں ، آسمانی کتابوں کو انبیاء کرام پر جو اتری ہیں سچی جانتے ہیں ۔ وہ نبیوں میں فرق نہیں سمجھتے کہ ایک کو مانیں دوسرے کو نہ مانیں بلکہ سب کو سچا جانتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ وہ پاکباز طبقہ رشد و ہدایت والا اور لوگوں کی خیر کی طرف رہبری کرنے والا ہے ، گو بعض احکام ہر نبی کے زمانہ میں تبدیل ہوتے رہے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سب کی ناسخ ٹھہری ، خاتم الانبیاء و مرسلین آپ تھے ، قیامت تک آپ کی شریعت باقی رہے گی اور ایک جماعت اس کی اتباع بھی کرتی رہے گی ۔ انہوں نے اقرار بھی کیا کہ ہم نے اللہ کا کلام سنا اور احکام الہی ہمیں تسلیم ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہمارے رب ہمیں مغفرت رحمت اور لطف عنایت فرما ، تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے یعنی حساب والے دِن ۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی اور آپ کی تابعدار امت کے یہاں ثناء و صفت بیان ہو رہی ہے ، آپ اس موقع پر دعا کیجئے قبول کی جائے گی ، مانگئے کہ اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے ۔ پھر فرمایا اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا یہ اس کا لطف و کرم اور احسان و انعام ہے ۔ صحابہ کو جو کھٹکا ہوا تھا اور ان پر جو یہ فرمان گراں گزرا تھا کہ دِل کے خطرات پر بھی حساب لیا جائے گا وہ دھڑکا اس آیت سے اٹھ گیا ۔ مطلب یہ کہ گو حساب ہو ، سوال ہو لیکن جو چیز طاقت سے باہر ہے اس پر عذاب نہیں کیونکہ دِل میں کسی خیال کا دفعتاً آجانا روکے رُک نہیں سکتا بلکہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ ایسے وسوسوں کو برا جاننا دلیل ایمان ہے ، بلکہ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ، اعمال صالحہ کرو گے جزا پاؤ گے ، برے اعمال کرو گے تو سزا بھگتو گے ۔ پھر دعا کی تعلیم دی اور اس کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ، کہ اے اللہ بھولے چوکے جو احکام ہم سے چھوٹ گئے ہوں یا جو برے کام ہوگئے ہوں یا شرعی احکام میں غلطی کرکے جو خلاف شرع کام ہم سے ہوئے ہوں وہ معاف فرما ، پہلے صحیح مسلم کے حوالے سے حدیث گزر چکی ہے کہ اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، میں نے اسے قبول فرمایا ، حدیث میں بھی ہے کہ میں یکسوئی والا اور آسان دین دے کر بھیجا گیا ہوں ۔ اے اللہ تکلیفیں بلائیں اور مشقتیں ہم پر نہ ڈال جن کی برداشت کی طاقت ہم میں نہ ہو ، حضرت مکحول فرماتے ہیں اس سے مراد فریب اور غلبہ شہوت ہے ، اس کے جواب میں بھی قبولیت کا اعلان رب عالم کی طرف سے کیا گیا ۔ اور ہماری تقصیروں کو معاف فرما جو تیری نافرمانی کا کوئی کام نہ ہو ، اس لئے بزرگوں کا قول ہے کہ گنہگار کو تین باتوں کی ضرورت ہے ۔ ایک تو اللہ کی معافی تاکہ عذاب سے نجات پائے ، دوسرے پردہ پوشی تاکہ رسوائی سے بچے ، تیسرے عصمت کی تاکہ دوسری بار گناہ میں مبتلا نہ ہو ، اس پر بھی جناب باری نے قبولیت کا اعلان کیا ۔ تو ہمارا ولی و ناصر ہے ، تجھی پر بھروسہ ہے ، تجھی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں ، تو ہی ہمارا سہارا ہے ، تیری مدد کے سوا نہ تو ہم کسی نفع کے حاصل کرنے پر قادر ہیں نہ کسی برائی سے بچ سکتے ہیں ، تو ہماری ان لوگوں پر مدد فرما جو تیرے دین کے منکر ہیں تیری وحدانیت کو نہیں مانتے ، تیرے نبی کی رسالت کو تسلیم نہیں کرتے ، تیرے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ، مشرک ہیں اے اللہ تو ہمیں ان پر غالب کر دینا اور دین میں ہم ہی ان پر فاتح رہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں بھی فرمایا ہاں میں نے یہ بھی دعا قبول فرمائی ۔ حضرت معاذ جب اس آیت کو ختم کرتے آمین کہتے ۔ ( ابن جریر )