Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
اَلَمۡ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيۡفَ مَدَّ الظِّلَّ‌ ۚ وَلَوۡ شَآءَ لَجَـعَلَهٗ سَاكِنًا‌ ۚ ثُمَّ جَعَلۡنَا الشَّمۡسَ عَلَيۡهِ دَلِيۡلًا ۙ‏ ﴿45﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے؟ اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا ۔
الم تر الى ربك كيف مد الظل و لو شاء لجعله ساكنا ثم جعلنا الشمس عليه دليلا
Have you not considered your Lord - how He extends the shadow, and if He willed, He could have made it stationary? Then We made the sun for it an indication.
Kiya aap ney nahi dekha kay aap kay rab ney saye ko kiss tarah phela diya hai? Agar chahata to issay thehra hua hi ker deta. Phir hum ney aftab ko issi per daleel banaya.
کیا تم نے اپنے پروردگار ( کی قدرت ) کو نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح سائے کو پھیلا تا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے ایک جگہ ٹھہرا دیتا ۔ پھر ہم نے سورج کو اس کے لیے رہنما بنا دیا ہے ۔
اے محبوب! کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا ( ف۸۳ ) کہ کیسا پھیلا سایہ ( ف۸٤ ) اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرایا ہوا کردیتا ( ف۸۵ ) پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل کیا ،
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا ۔ ہم نے سورج کو اس پر دلیل 58 بنایا ،
کیا آپ نے اپنے رب ( کی قدرت ) کی طرف نگاہ نہیں ڈالی کہ وہ کس طرح ( دوپہر تک ) سایہ دراز کرتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ضرور ساکن کر دیتا پھر ہم نے سورج کو اس ( سایہ ) پر دلیل بنایا ہے
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :58 یہاں لفظ دلیل ٹھیک اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس میں انگریزی لفظ ( Pilot ) استعمال ہوتا ہے ۔ ملاحوں کی اصطلاح میں دلیل اس شخص کو کہتے ہیں جو کشتیوں کو راست بتاتا ہوا چلے ۔ سائے پر سورج کو دلیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ سائے کا پھیلنا اور سکڑنا سورج کے عروج و زوال اور طلوع و غروب کا تابع ہے ۔ سائے سے مراد روشنی اور تاریکی کے بین بین وہ درمیانی حالت ہے جو صبح کے وقت طلوع آفتاب سے پہلے ہوتی ہے اور دن بھر مکانوں میں ، دیواروں کی اوٹ میں اور درختوں کے نیچے رہتی ہے ۔
اگر وہ چاہے تو رات دن نہ بدلے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت پر دلیلیں بیان ہو رہی ہے کہ مختلف اور متضاد چیزوں کو وہ پیدا کر رہا ہے ۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے کہتے ہیں کہ یہ وقت صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک کا ہے اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کرسکتا اور اگر دن ہی دن رکھے تو کوئی رات نہیں لاسکتا ۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا ۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے سائے کے پیچھے دھوپ دھوپ کے پیچھے سایہ بھی قدرت کا انتظام ہے ۔ پھر سہج سہج ہم اسے یعنی سائے کو یا سورج کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ ایک گھٹتا جاتا ہے تو دوسرا بڑھتا جاتا ہے اور یہ انقلاب سرعت سے عمل میں آتا ہے کوئی جگہ سایہ دار باقی نہیں رہتی صرف گھروں کے چھپڑوں کے اور درختوں کے نیچے سایہ رہ جاتا ہے اور ان کے بھی اوپر دھوپ کھلی ہوئی ہوتی ہے ۔ آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا ہے کہ وہ تمہارے وجود پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے جیسے فرمان ہے قسم ہے رات کی جب کہ ڈھانپ لے ، اسی نے نیند کو سبب راحت وسکون بنایا کہ اس وقت حرکت موقوف ہوجاتی ہے ۔ اور دن بھر کے کام کاج سے جو تھکن چڑھ گئی تھی وہ اس آرام سے اترجاتی ہے ۔ بدن کو اور روح کو راحت حاصل ہوجاتی ہے ۔ پھر دن کو اٹھ کھڑے ہوتے ہو پھیل جاتے ہو ۔ اور روزی کی تلاش میں لگ جاتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے رات دن مقرر کردیا ہے کہ تم سکون وآرام بھی حاصل کرلو اور اپنی روزیاں بھی تلاش کرو ۔