Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَكۡثَرَهُمۡ يَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ يَعۡقِلُوۡنَ‌ ؕ اِنۡ هُمۡ اِلَّا كَالۡاَنۡعَامِ‌ بَلۡ هُمۡ اَضَلُّ سَبِيۡلًا‏ ﴿44﴾
کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ۔ وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ۔
ام تحسب ان اكثرهم يسمعون او يعقلون ان هم الا كالانعام بل هم اضل سبيلا
Or do you think that most of them hear or reason? They are not except like livestock. Rather, they are [even] more astray in [their] way.
Kiya aap issi khayal mein hain kay inn mein say aksar suntay ya samajhtay hain. Woh to niray chopayon jaisay hain bulkay inn say bhi ziyada bhatkay huye.
یا تمہارا خیال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ نہیں ! ان کی مثال تو بس چار پاؤں کے جانوروں کی سی ہے ، بلکہ یہ ان سے زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔
یا یہ سمجھتے ہو کہ ان میں بہت کچھ سنتے یا سمجھتے ہیں ( ف۸۱ ) وہ تو نہیں مگر جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ( ف۸۲ )
کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں ، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ۔ 57 ؏4
کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ ( نہیں ) وہ تو چوپایوں کی مانند ( ہو چکے ) ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :57 یعنی جس طرح بھیڑ بکریوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہانکنے والا انہیں چراگاہ کی طرف لے جا رہا ہے یا بوچڑخانے کی طرف ۔ وہ بس آنکھیں بند کر کے ہانکنے والے اشاروں پر چلتی رہتی ہیں ۔ اسی طرح یہ عوام الناس بھی اپنے شیطان نفس اور اپنے گمراہ کن لیڈروں کے اشاروں پر آنکھیں بند کیے چلے جار ہے ہیں ، کچھ نہیں جانتے کہ وہ انہیں فلاح کی طرف ہانک رہے ہیں یا تباہی و بربادی کی طرف ۔ اس حد تک تو ان کی حالت بھیڑ بکریوں کے مشابہ ہے ۔ لیکن بھیڑ بکریوں کو خدا نے عقل و شعور سے نہیں نوازا ہے ۔ وہ اگر چرواہے اور قصائی میں امتیاز نہیں کرتیں تو کچھ عیب نہیں ۔ البتہ حیف ہے ان انسانوں پر جو خدا سے عقل و شعور کی نعمتیں پاکر بھی اپنے آپ کو بھیڑ بکریوں کی سی غفلت و بے شعوری میں مبتلا کرلیں ۔ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ اس تقریر کا منشا تبلیغ کو لا حاصل قرار دینا ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے یہ باتیں اس لیے فرمائی جا رہی ہیں کہ لوگوں کو سمجھانے کی فضول کوشش چھوڑ دیں ۔ نہیں ، اس تقریر کے اصل مخاطب سامعین ہی ہیں ، اگرچہ روئے سخن بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے ۔ دراصل سنانا ان کو مقصود ہے کہ غافلو ، یہ کس حال میں پڑے ہوئے ہو ۔ کیا خدا نے تمہیں سمجھ بوجھ اس لیے دی تھی کہ دنیا میں جانوروں کی طرح زندگی بسر کرو؟