Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَيَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُهُمۡ وَلَا يَضُرُّهُمۡ‌ؕ وَكَانَ الۡـكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِيۡرًا‏ ﴿55﴾
یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انہیں کوئی نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں ، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف ( شیطان کی ) مدد کرنے والا ۔
و يعبدون من دون الله ما لا ينفعهم و لا يضرهم و كان الكافر على ربه ظهيرا
But they worship rather than Allah that which does not benefit them or harm them, and the disbeliever is ever, against his Lord, an assistant [to Satan].
Yeh Allah ko chor ker unn ki ibadat kertay hain jo na to enhen koi nafa dey saken na koi nuksan phonca saken aur kafir to hay hi apna rab kay khilaf ( shetan ki ) madad kerney wala.
اور یہ لوگ ہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کر رہے ہیں جو نہ ان کو کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں ، نہ نقصان ، اور کافر انسان نے اپنے پروردگار ہی کی مخالفت پر کمر باندھ رکھی ہے ۔
اور اللہ کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں ( ف۹۷ ) جو ان کا بھلا برا کچھ نہ کریں اور کافر اپنے رب کے مقابل شیطان کو مدد دیتا ہے ( ف۹۸ )
اس خدا کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ، اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے ۔ 70
اور وہ ( کفار ) اللہ کے سوا ان ( بتوں ) کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ ( تو ) نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ( ہی ) انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ، اور کافر اپنے رب ( کی نافرمانی ) پر ( ہمیشہ شیطان کا ) مددگار ہوتا ہے
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :70 یعنی اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے احکام و قوانین کو نافذ کرنے کے لیے جو کوشش بھی کہیں ہو رہی ہو ، کافر کی ہمدردیاں اس کوشش کے ساتھ نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گی جو اسے نیچا دکھانے کے در پے ہوں ۔ اسی طرح اللہ کی فرماں برداری و اطاعت سے نہیں بلکہ اس کی نافرمانی ہی سے کافر کی ساری دلچسپیاں وابستہ ہوں گی ۔ نافرمانی کا کام جو جہاں بھی کر رہا ہو کافر اگر عملاً اس کا شریک نہ ہو سکے گا تو کم از کم زندہ باد کا نعرہ ہی مار دے گا تاکہ خدا کے باغیوں کی ہمت افزائی ہو ۔ بخلاف اس کے اگر کوئی فرماں برداری کا کام کر رہا ہو تو کافر اس کی مزاحمت میں ذرا دریغ نہ کرے گا ۔ خود مزاحمت نہ کر سکتا ہو تو اس کی ہمت شکنی کے لیے جو کچھ بھی کر سکتا ہے کر گزرے گا ، چاہے وہ ناک بھوں چڑھانے کی حد تک ہی سہی ۔ نافرمانی کی ہر خبر اس کے لیے مژدہ جانفزا ہو گی اور فرماں برداری کی ہر اطلاع اسے تیر بن کر لگے گی ۔
آبائی گمراہی مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ بت پرستی کرتے ہیں اور بلادلیل وحجت ان کی پوجا کرتے ہیں جو نہ نفع کے مالک نہ نقصان کے ۔ صرف باپ دادوں کی دیکھا دیکھی نفسانی خواہشات سے انکی محبت وعظمت اپنے دل میں جمائے ہوئے ہیں اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور مخالفت رکھتے ہیں ۔ شیطانی لشکر میں شامل ہوگئے ہیں اور رحمانی لشکر کے مخالف ہوگئے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ انجام کار غلبہ اللہ والوں کو ہی ہوگا ۔ یہ خواہ مخواہ ان کی طرف سے سینہ سپر ہو رہے ہیں انجام کار مومنوں کے ہی ہاتھ رہے گا ۔ دنیا اور آخرت میں ان کا پروردگار انکی امداد کرے گا ۔ ان کفار کو تو شیطان صرف اللہ کی مخالفت پر ابھار دیتا ہے اور کچھ نہیں ۔ سچے اللہ کی عداوت انکے دل میں ڈال دیتا ہے شرک کی محبت بٹھا دیتا ہے یہ اللہ کے احکام سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں مومنوں کو خوشخبری سنانے والا اور کفار کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اطاعت گزاروں کو جنت کی بشارت دیجئے اور نافرمانوں کو جہنم کے عذابوں سے مطلع فرما دیجئے ۔ لوگوں میں عام طور پر اعلان کردیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا بدلہ اپنے وعظ کا معاوضہ تم سے نہیں چاہتا ۔ میرا ارادہ سوائے اللہ کی رضامندی کی تلاش کے اور کچھ نہیں ۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میں سے جو راہ راست پر آنا چاہے اس کے سامنے صحیح راستہ نمایاں کردوں ۔ اے پیغمبر اپنے تمام کاموں میں اس اللہ پر بھروسہ رکھئے جو ہمیشہ اور دوام والا ہے جو موت وفوت سے پاک ہے جو اول و آخر ظاہر و باطن اور ہر چیز کا عالم ہے جو دائم باقی سرمدی ابدی حی و قیوم ہے جو ہر چیز کا مالک اور رب ہے اسکو اپنا ماویٰ وملجا ٹھہرالے ۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ اس پر توکل کیا جائے ہر گھبراہٹ میں اسی کی طرف جھکا جائے ۔ وہ کافی ہے وہی ناصر ہے وہی موید ومظفر ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ 67؀ ) 5- المآئدہ:67 ) اے نبی جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے یہ نہ کیا تو آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا ۔ آپ بےفکر رہئے اللہ آپ کو لوگوں کے برے ارادوں سے بچالے گا ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ مدینے کی کسی گلی میں حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا اے سلمان مجھے سجدہ نہ کر سجدے کے لائق وہ ہے جو ہمیشہ کی زندگی والاہے ۔ جس پر کبھی موت نہیں ( ابن ابی حاتم ) اور اس کی تسبیح وحمد بیان کرتا رہ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسکی تعمیل میں فرمایا کرتے تھے ۔ دعا ( سبحانک اللہم ربنا وبحمدک ) مراد اس سے یہ ہے کہ عبادت اللہ ہی کی کر توکل صرف اسی کی ذات پر کر جیسے فرمان ہے مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ اور جگہ ہے آیت ( فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ١٢٣؀ۧ ) 11-ھود:123 ) اسی کی عبادت کر اسی پر بھروسہ رکھ اور آیت میں ہے اعلان کردے کہ اسی رحمن کے ہم بندے ہیں اور اسی پر ہمارا کامل بھروسہ ہے ۔ اس پر بندوں کے سب اعمال ظاہر ہیں ۔ کوئی ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں کوئی پراسرار بات بھی اس سے مخفی نہیں وہی تمام چیزوں کا خالق ہے مالک وقابض ہے وہی ہرجاندار کا روزی رساں ہے اس نے اپنی قدرت وعظمت سے آسمان وزمین جیسی زبردست مخلوق کو صرف چھ دن میں پیدا کردیا پھر عرش پر قرار پکڑا ہے کاموں کی تدبیروں کا انجام اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور تدبیر کا مرہون ہے ۔ اس کا فیصلہ اعلی اور اچھا ہی ہوتا ہے جو ذات الہ کا عالم ہو اور صفات الہ سے آگاہ ہو اس سے اس کی شان دریافت کرلے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات کی پوری خبرداری رکھنے والے اسکی ذات سے پورے واقف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے ۔ جو دنیا اور آخرت میں تمام اولاد آدم کے علی الاطلاق سردار تھے ۔ جو ایک بات بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ جو فرماتے تھے وہ فرمودہ الہ ہی ہوتا تھا ۔ آپ نے جو جو صفتیں اللہ کی بیان کی سب برحق ہیں آپ نے جو خبریں دیں سب سچ ہیں سچے امام آپ ہی ہیں تمام جھگڑوں کا فیصلہ آپ ہی کے حکم سے کیا جاسکتا ہے جو آپ کی بات بتلائے وہ سچا جو آپ کے خلاف کہے وہ مردود خواہ کوئی بھی ہو ۔ اللہ کا فرمان واجب الاذعان کھلے طور سے صادر ہوچکاہے ۔ آیت ( فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59؀ۧ ) 4- النسآء:59 ) تم اگر کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹاؤ ۔ اور فرمان ہے آیت ( وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّيْ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ڰ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ 10؀ ) 42- الشورى:10 ) تم جس چیز میں بھی اختلاف کرو اسکا فیصلہ اللہ کی طرف ہے ۔ اور فرمان ہے ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥؁ ) 6- الانعام:115 ) تیرے رب کی باتیں جو خبروں میں سچی اور حکم وممانعت میں عدل کی ہیں پوری ہوچکیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے قرآن ہے ۔ مشرکین اللہ کے سوا اوروں کو سجدے کرتے تھے ۔ ان سے جب رحمان کو سجدہ کرنے کو کہاجاتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم رحمان کو نہیں جانتے ۔ وہ اس سے منکر تھے کہ اللہ کا نام رحمان ہے جیسے حدیبیہ والے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ کے کاتب سے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ ۔ تو مشرکین نے کہا نہ ہم رحمان کو جانیں نہ رحیم کو ہمارے رواج کے مطابق باسمک اللہم لکھ ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری آیت ( قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١١٠؁ ) 17- الإسراء:110 ) ، کہہ دے کہ اللہ کو پکارو یارحمن کو جس نام سے چاہو پکارو اس کے بہت سے بہترین نام ہیں وہی اللہ ہے وہی رحمن ہے پس مشرکین کہتے تھے کہ کیا صرف تیرے کہنے سے ہم ایسا مان لیں؟ الغرض وہ اور نفرت میں بڑھ گئے برخلاف مومنوں کے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو رحمان و رحیم ہے اسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اور اسی کے لئے سجدہ کرتے ہیں ۔ علماء رحمتہ اللہ علیہم کا اتفاق ہے کہ سورۃ فرقان کی اس آیت کے پڑھنے اور سننے والے پرسجدہ مشروع ہے جیسے کہ اسکی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔