Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
تَبٰـرَكَ الَّذِىۡ جَعَلَ فِى السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّجَعَلَ فِيۡهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيۡرًا‏ ﴿61﴾
بابرکت ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں آفتاب بنایا اور منور مہتاب بھی ۔
تبرك الذي جعل في السماء بروجا و جعل فيها سرجا و قمرا منيرا
Blessed is He who has placed in the sky great stars and placed therein a [burning] lamp and luminous moon.
Ba-barkat hai woh jiss ney aasman mein burj banaye aur iss mein aftab banaya aur munawar mahtab bhi.
بڑی شان ہے اس کی جس نے آسمان میں برج بنائے ( ٢٢ ) اور اس میں ایک روشن چراغ اور نور پھیلانے والا چاند پیدا کیا ۔
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے ( ف۱۱۲ ) اور ان میں چراغ رکھا ( ف۱۱۳ ) اور چمکتا چاند ،
بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے 75 اور اس میں ایک چراغ 76 اور ایک چمکتا چاند روشن کیا ۔
وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں ( کہکشاؤں کی شکل میں ) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اس میں ( سورج کو روشنی اور تپش دینے والا ) چراغ بنایا اور ( اس نظامِ شمسی کے اندر ) چمکنے والا چاند بنایا
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :75 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الحجر ، حواشی 8 تا 12 ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :76 یعنی سورج ، جیسا کہ سورہ نوح میں بتصریح فرمایا : وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً ( آیت 16 ) ۔
اللہ تعالیٰ کی رفعت وعظمت اللہ تعالیٰ کی بڑائی ، قدرت ، رفعت کو دیکھو کہ اس نے آسمان میں برج بنائے اس سے مراد یا تو بڑے بڑے ستارے ہیں یا چوکیداری کے برج ہیں ۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے اور ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے ستاروں سے مراد بھی یہی برج ہوں ۔ اور آیت میں ہے آسمان دنیاکو ہم نے ستاروں کیساتھ مزین بنایا ۔ سراج سے مراد سورج ہے جو چمکتا رہتا ہے اور مثل چراغ کے ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا 13؀۽ ) 78- النبأ:13 ) اور ہم نے روشن چراغ یعنی سورج بنایا اور چاند بنایا جو منور اور روشن ہے دوسرے نور سے جو سورج کے سوا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نوربنایا ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا آیت ( اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا 15؀ۙ ) 71-نوح:15 ) کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کیے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا ۔ دن رات ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اس کی قدرت کا نظام ہے ۔ یہ جاتا ہے وہ آتا ہے اس کا جانا اس کا آنا ہے ۔ جیسے فرمان ہے اس نے تمہارے لئے سورج چاند پے درپے آنے جانے والے بنائے ہیں ۔ اور جگہ ہے رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور جلدی جلدی اسے طلب کرتی آتی ہے ۔ نہ سورج چاند سے آگے بڑھ سکے نہ رات دن سے سبقت لے سکے ۔ اسی سے اس کے بندوں کو اسکی عبادتوں کے وقت معلوم ہوتے ہیں رات کا فوت شدہ عمل دن میں پورا کرلیں ۔ دن کا رہ گیا ہوا عمل رات کو ادا کرلیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کرلے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن ضحی کی نماز میں بڑی دیر لگادی ۔ سوال پر فرمایا کہ رات کا میرا وظیفہ کچھ باقی رہ گیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے پورا یا قضا کرلوں ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی خلفتہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف یعنی دن روشن رات تاریک اس میں اجالا اس میں اندھیرا یہ نورانی اور وہ ظلماتی ۔