سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :81
یعنی وہ ان کے دن کی زندگی تھی اور یہ ان کی راتوں کی زندگی ہے ۔ ان کی راتیں نہ عیاشی میں گزرتی ہیں نہ ناچ گانے میں ، نہ لہو و لعب میں ، نہ گپوں اور افسانہ گوئیوں میں ، اور نہ ڈاکے مارنے اور چوریاں کرنے میں ۔ جاہلیت کے ان معروف مشاغل کے برعکس یہ اس معاشرے کے وہ لوگ ہیں جن کی راتیں خدا کے حضور کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے دعا و عبادت کرتے گزرتی ہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان کی زندگی کے اس پہلو کو نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ سجدہ میں فرمایا : تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَّ طَمَعاً ، ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے رہتے ہیں ( آیت 16 ) ۔ اور سورہ ذاریات میں فرمایا کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَایَھْجَعُوْنَ ہ وَ بِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُون ، یہ اہل جنت وہ لوگ تھے جو راتوں کو کم ہی سوتے تھے اور سحر کے اوقات میں مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ( آیات 17 ۔ 18 ) ۔ اور سورہ زمر میں ارشاد ہوا : اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِداً وَّقَآئِماً یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃ رَبِّہ ، کیا اس شخص کا انجام کسی مشرک جیسا ہو سکتا ہے جو اللہ کا فرماں بردار ہو ، رات کے اوقات میں سجدے کرتا اور کھڑا رہتا ہو ، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی آس لگائے ہوئے ہو ؟ ( آیت 9 )