Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا‏ ﴿67﴾
اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تواسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں ۔
و الذين اذا انفقوا لم يسرفوا و لم يقتروا و كان بين ذلك قواما
And [they are] those who, when they spend, do so not excessively or sparingly but are ever, between that, [justly] moderate
Aur jo kharach kertay waqt bhi na to israaf kertay hain na bakheeli bulkay inn dono kay darmiyan motadil tareeqay per kharach kertay hain.
اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں ، نہ تنگی کرتے ہیں ، بلکہ ان کا طریقہ اس ( افراط و تفریط ) کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے ۔
اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں ( ف۱۲۰ ) اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ( ف۱۲۱ )
جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا 83 ہے ۔
اور ( یہ ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا ( زیادتی اور کمی کی ) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر ( مبنی ) ہوتا ہے
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :83 یعنی نہ تو ان کا حال یہ ہے کہ عیاشی ، اور قمار بازی ، اور شراب نوشی ، اور یار باشی ، اور میلوں ٹھیلوں ، اور شادی بیاہ میں بے دریغ روپیہ خرچ کریں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان دکھانے کے لیے غذا مکان ، لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں ۔ اور نہ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ایک زر پرست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں ، نہ خود کھائیں ، نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں ، اور نہ کسی راہ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں ۔ عرب میں یہ دونوں قسم کے نمونے کثرت سے پائے جاتے تھے ۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے ، مگر ان کے ہر خرچ کا مقصود یا تو ذاتی عیش و تَنَعُّم تھا ، یا برادری میں ناک اونچی رکھنا اور اپنی فیاضی و دولت مندی کے ڈنکے بجوانا ۔ دوسری طرف وہ بخیل تھے جن کی کنجوسی مشہور تھی ۔ اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی اور ان کم لوگوں میں اس وقت سب سے زیادہ نمایاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھے ۔ اس موقع پر یہ جان لینا چاہیے کہ اسراف کیا چیز ہے اور بخل کیا چیز ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے ۔ ایک ، ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا ، خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو ۔ دوسرے ، جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا ، خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے ، یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے بہت زیادہ مل گئی ہو اسے وہ اپنے ہی عیش اور ٹھاٹ باٹ میں صرف کرتا چلا جائے ۔ تیسرے ، نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ، مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے اس کے برعکس بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدرت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے ۔ دوسرے یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ ، اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ ( دانا ) ہونے کی علامتوں میں سے ہے ( احمد و طبرنی ، بروایت ابی الدرداء ) ۔