Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
اِلَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًاصَالِحًـا فَاُولٰٓٮِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمۡ حَسَنٰتٍ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿70﴾
سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالٰی نیکیوں سے بدل دیتا ہے اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے ۔
الا من تاب و امن و عمل عملا صالحا فاولىك يبدل الله سياتهم حسنت و كان الله غفورا رحيما
Except for those who repent, believe and do righteous work. For them Allah will replace their evil deeds with good. And ever is Allah Forgiving and Merciful.
Siwaye unn logon kay jo tauba keren aur eman layen aur nek kaam keren aisay logon kay gunahon ko Allah Taalaa nekiyon say badal deta hai Allah bakhshney wala meharbaani kernay wala hai.
ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے ، ایمان لے آئے ، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا ، ( ٢٥ ) اور اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
مگر جو توبہ کرے ( ف۱۲٦ ) اور ایمان لائے ( ف۱۲۷ ) اور اچھا کام کرے ( ف۱۲۷ ) اور اچھا کام کرے ( ف۱۲۸ ) تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا ( ف۱۲۹ ) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
الا یہ کہ کوئی ﴿ان گناہوں کے بعد﴾ توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا 86 ہو ۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے 87 گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔
مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا ، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :86 یہ بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنے اصلاح پر آمادہ ہوں ۔ یہی عام معافی ( General Amnesty ) کا اعلان تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں افراد کو سہارا دے کر مستقل بگاڑ سے بچا لیا ۔ اسی نے ان کو امید کی روشنی دکھائی اور اصلاح حال پر آمادہ کیا ۔ ورنہ اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ جو گناہ تم کر چکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح نہیں بچ سکتے ، تو یہ انہیں مایوس کر کے ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھسا دیتا اور کبھی ان کی اصلاح نہ ہو سکتی ۔ مجرم انسان کو صرف معافی امید ہی جرم کے چکر سے نکال سکتی ہے ۔ مایوس ہو کر وہ ابلیس بن جاتا ہے ۔ توبہ کی اس نعمت نے عرب کے بگڑے ہوئے لوگوں کو کس طرح سنبھالا ، اس کا اندازہ ان بہت سے واقعات سے ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آئے ۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ ہو جسے ابن جریر اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں مسجد نبوی سے عشا کی نماز پڑھ کر پلٹا تو دیکھا کہ ایک عورت میرے دروازے پر کھڑی ہے ۔ میں اس کو سلام کر کے اپنے حجرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کر کے نوافل پڑھنے لگا ۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور پوچھا کیا چاہتی ہے ؟ وہ کہنے لگی میں آپ سے ایک سوال کرنے آئی ہوں ۔ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوا ۔ ناجائز حمل ہوا ۔ بچہ پیدا ہوا تو میں نے اسے مار ڈالا ۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ میرا گناہ معاف ہونے کی بھی کوئی صورت ہے ؟ میں نے کہا ہرگز نہیں ۔ وہ بڑی حسرت کے ساتھ آہیں بھرتی ہوئی واپس چلی گئی ، اور کہنے لگی افسوس ، یہ حسن آگ کے لیے پیدا ہوا تھا ۔ صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ کر جب میں فارغ ہوا تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کا قصہ سنایا ۔ آپ نے فرمایا ، بڑا غلط جواب دیا ابو ہریرہ تم نے ، کیا یہ آیت قرآن میں تم نے نہیں پڑھی : وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ ..........اِلّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً ؟ حضور کا یہ جواب سن کر میں نکلا اور اس عورت کو تلاش کرنا شروع کیا ۔ رات کو عشا ہی کے وقت وہ ملی ۔ میں نے اسے بشارت دی اور بتایا کہ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرے سوال کا یہ جواب دیا ہے ۔ وہ سنتے ہی سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی شکر ہے اس خدائے پاک کا جس نے میرے لیے معافی کا دروازہ کھولا ۔ پھر اس نے گناہ سے توبہ کی اور اپنی لونڈی کو اس کے بیٹے سمیت آزاد کر دیا ۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ احادیث میں ایک بڈھے کا آیا ہے جس نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ، ساری زندگی گناہوں میں گزری ہے ۔ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا ارتکاب نہ کر چکا ہوں ۔ اپنے گناہ تمام روئے زمین کے باشندوں پر بھی تقسیم کر دوں تو سب کو لے ڈوبیں ۔ کیا اب بھی میری معافی کی کوئی صورت ہے ؟ فرمایا کیا تو نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ اس نے عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ فرمایا جا ، اللہ معاف کرنے والا اور تیری برائیوں کو بھلائی سے بدل دینے والا ہے ۔ اس نے عرض کیا میرے سارے جرم اور قصور؟ فرمایا ہاں ، تیرے سارے جرم اور قصور ( ابن کثیر ، بحوالہ ابن ابی حاتم ) ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :87 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جب وہ توبہ کرلیں گے تو کفر کی زندگی میں جو برے افعال وہ پہلے کیا کرتے تھے ان کی جگہ اب طاعت اور ایمان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نیک افعال کرنے لگیں گے اور تمام برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی ۔ دوسرے یہ کہ توبہ کے نتیجہ میں صرف اتنا ہی نہ ہو گا کہ ان کے ماہ اعمال سے وہ تمام قصور کاٹ دیے جائیں گے جو انہوں نے کفر و گناہ کی زندگی میں کیے تھے ، بلکہ ان کی جگہ ہر ایک کے نامہ اعمال میں یہ نیکی لکھ دی جائے گی کیونکہ یہ وہ بندہ ہے جس نے بغاوت اور نافرمانی کو چھوڑ کر طاعت و فرمانبرداری اختیار کر لی ۔ پھر جتنی بار بھی وہ اپنی سابقہ زندگی کے برے اعمال کو یاد کر کے نادم ہو گا اور اس نے اپنے خدا سے استغفار کیا ہو گا ۔ اس کے حساب میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دی جائیں گی ، کیونکہ خطا پر شرمسار ہونا اور معافی مانگنا بجائے خود ایک نیکی ہے ۔ اس طرح اس کے نامہ اعمال میں تمام پچھلی برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی اور اس کا انجام صرف سزا سے بچ جانے تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ وہ الٹا انعامات سے سرفراز ہو گا ۔