Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَالَّذِيۡنَ لَا يَشۡهَدُوۡنَ الزُّوۡرَۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا كِرَامًا‏ ﴿72﴾
اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ۔
و الذين لا يشهدون الزور و اذا مروا باللغو مروا كراما
And [they are] those who do not testify to falsehood, and when they pass near ill speech, they pass by with dignity.
Aur jo log jhooti gawahee nahi detay aur jab kissi laghaw cheez per unn ka guzar hota hai to sharafat say guzar jatay hain.
اور ( رحمن کے بندے وہ ہیں ) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے ( ٢٦ ) اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گذرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گذر جاتے ہیں ۔ ( ٢٧ )
اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے ( ف۱۳۰ ) اور جب بیہودہ پر گذرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں ، ( ف۱۳۱ )
۔ ۔ ۔ ۔ ﴿اور رحمان کے بندے وہ ہیں﴾ جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے 89 اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے 90 ہیں ۔ جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے
اور ( یہ ) وہ لوگ ہیں جو کذب اور باطل کاموں میں ( قولاً اور عملاً دونوں صورتوں میں ) حاضر نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو ( دامن بچاتے ہوئے ) نہایت وقار اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :89 اس کے بھی دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کسی جھوٹی بات کی گواہی نہیں دیتے اور کسی ایسی چیز کو واقعہ اور حقیقت قرار نہیں دیتے جس کے واقعہ اور حقیقت ہونے کا انہیں علم نہ ہو ، یا جس کے خلاف واقعہ و حقیقت ہونے کا انہیں اطمینان ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتے ، اس کے تماشائی نہیں بنتے ، اس کو دیکھنے کا قصد نہیں کرتے ۔ اس دوسرے مطلب کے اعتبار سے جھوٹ کا لفظ باطل اور شر کا ہم معنی ہے ۔ انسان جس برائی کی طرف بھی جاتا ہے ، لذت یا خوشنمائی یا ظاہری فائدے کے اس جھوٹے ملمع کی وجہ سے جاتا ہے جو شیطان نے اس پر چڑھا رکھا ہے یہ ملمع اتر جائے تو ہر بدی سراسر کھوٹ ہی کھوٹ ہے جس پر انسان کبھی نہیں ریجھ سکتا ۔ لہٰذا ہر باطل ، ہر گناہ اور ہر بدی اس لحاظ سے جھوٹ ہے کہ وہ اپنی جھوٹی چمک دمک کی وجہ ہی سے اپنی طرف لوگوں کو کھنچتی ہے ۔ مومن چونکہ حق کی معرفت حاصل کر لیتا ہے ، اس لیے وہ اس جھوٹ کو ہر روپ میں پہچان جاتا ہے ، خواہ وہ کیسے ہی دلفریب دلائل ، یا نظر فریب آرٹ ، یا سماعت فریب خوش آوازیوں کا جامہ پہن کر آئے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :90 لغو کا لفظ اس جھوٹ پر بھی حاوی ہے جس کی تشریح اوپر کی جاچکی ہے ، اور اس کے ساتھ تمام فضول ، لا یعنی اور بے فائدہ باتیں اور کام بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ اللہ کے صالح بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس طرح کی چیزیں دیکھنے یا سننے یا ان میں حصہ لینے کے لیے نہیں جاتے ، اور اگر کبھی ان کے راستے میں ایسی کوئی چیز آ جائے تو ایک نگاہ غلط انداز تک ڈالے بغیر اس پر سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے ایک نفیس مزاج آدمی گندگی کے ڈھیر سے گزر جاتا ہے ۔ غلاظت اور تعفُّن سے دلچسپی ایک بد ذوق اور پلید آدمی تو لے سکتا ہے مگر ایک خوش ذوق اور مہذب انسان مجبوری کے بغیر اس کے پاس سے بھی گزرنا گوارا نہیں کر سکتا ، کجا کہ وہ بدبو سے مستفید ہونے کے لیے ایک سانس بھی وہاں لے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون حاشیہ 4 ) ۔
عباد الرحمن کے اوصاف عباد الرحمن کے اور نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے یعنی شرک نہیں کرتے ، بت پرستی سے بچتے ہیں ، جھوٹ نہیں بولتے فسق وفجور نہیں کرتے کفر سے الگ رہتے ہیں لغو اور باطل کاموں سے پرہیز کرتے ہیں گانا نہیں سنتے مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے خیانت نہیں کرتے بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے شرابیں نہیں پیتے شراب خانوں میں نہیں جاتے اس کی رغبت نہیں کرتے حدیث میں بھی ہے کہ سچے مومن کو چاہئے کہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر دور شراب چل رہا ہو اور یہ بھی مطلب ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ بخاری ومسلم میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتادوں؟ تین دفعہ یہی فرمایا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا اس وقت تک آپ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اب اس سے الگ ہو کر فرمانے لگے سنو اور جھوٹی بات کہنا سنو اور جھوٹی گواہی دینا اسے باربار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے دل میں کہنے لگے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب خاموش ہوجاتے ۔ زیادہ ظاہر لفظوں سے تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کے پاس نہیں جاتے ۔ اللہ کے ان بزرگ بندوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتیں سن کر ان کے دل ہل جاتے ہیں ان کے ایمان اور توکل بڑھ جاتے ہیں بخلاف کفار کے کہ ان پر کلام الٰہی کا اثر نہیں ہوتا وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز نہیں رہتے ۔ نہ اپنا کفر چھوڑتے ہیں نہ سرکشی ، طغیانی اور جہالت وضلالت سے باز آتے ہیں ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور بیمار دل والوں کی گندگی ابھر آتی ہے پس کافر اللہ کی آیتوں سے بہرے اور اندھے ہوجاتے ہیں ۔ ان مومنوں کی حالت ان کے برعکس ہے نہ یہ حق سے بہرے ہیں نہ حق سے اندھے ہیں ۔ سنتے ہیں سمجھتے ہیں نفع حاصل کرتے ہیں اپنی اصلاح کرتے ہیں ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن اندھا پن بہرا پن نہیں چھوڑتے ۔ حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص آتا ہے اور دوسروں کو سجدے میں پاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ کس آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا ہے؟ تو کیا وہ بھی ان کیساتھ سجدہ کرلے؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی یعنی سجدہ نہ کرے اس لیے کہ اس نے نہ سجدے کی آیت پڑھی نہ سنی نہ سوچی تو مومن کا کوئی کام اندھا دھند نہ کرنا چاہئے جب تک اسکے سامنے کسی چیز کی حقیقت نہ ہو اسے شامل نہ ہونا چائیے ۔ پھر ان بزرگ بندوں کی ایک دعا بیان ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی اولادیں بھی ان کی طرح رب کی فرمانبردار عبادت گزار موحد اور غیر مشرک ہوں تاکہ دنیا میں بھی اس نیک اولاد سے ان کا دل ٹھنڈا رہے اور آخرت میں بھی یہ انہیں اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوں ۔ اس دعا سے ان کی غرض خوبصورتی اور جمال نہیں بلکہ نیکی اور خوش خلقی کی ہے ۔ مسلمان کی سچی خوشی اسی میں ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو دوست احباب کو اللہ کا فرماں بردار دیکھے ۔ وہ ظالم نہ ہو بدکار نہ ہو ۔ سچے مسلمان ہوں ۔ حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر ایک صاحب فرمانے لگے ان کی آنکھوں کو مبارک باد ہو جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے ۔ کاش کہ ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور تمہاری طرح فیض صحبت حاصل کرتے ۔ اس پر حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناراض ہوئے تو نفیر کہتے ہیں مجھے تعجب معلوم ہوا کہ اس بات میں کوئی برائی نہیں پھر یہ خفا کیوں ہو رہے ہیں؟ اتنے میں حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس چیز کی آرزو کرتے ہیں کہ جو قدرت نے انہیں نہیں دی ۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ اگر اس وقت ہوتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ واللہ وہ لوگ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے جنہوں نے نہ آپ کی تصدیق نہ تابعداری کی اور اوندھے منہ جہنم میں گئے ۔ تم اللہ کا یہ احسان نہیں مانتے کہ اللہ نے تمہیں اسلام میں اور مسلمان گھروں میں پیدا کیا ۔ پیدا ہوتے ہی تمہارے کانوں میں اللہ کی توحید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پڑی اور ان بلاؤں سے تم بچالئے گئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے تھے جس وقت دنیا کی اندھیر نگری اپنی انتہا پر تھی ۔ اس وقت دنیا والوں کے نزدیک بت پرستی سے بہتر کوئی مذہب نہ تھا ۔ آپ فرقان لے کر آئے حق وباطل میں تمیز کی ۔ باپ بیٹے جدا ہوگئے ۔ مسلمان اپنے باپ دادوں بیٹوں پوتوں دوست احباب کو کفر پر دیکھتے ان سے انہیں کوئی محبت پیار نہیں ہوتا تھا بلکہ کڑہتے تھے کہ یہ جہنمی ہیں اسی لئے ان کی دعائیں ہوتی تھیں ۔ اس دعا کا آخر یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کا رہبر بنا دے کہ ہم انہیں نیکی کی تعلیم دیں ، لوگ بھلائی میں ہماری اقتدا کریں ۔ ہماری اولاد ہماری راہ چلے تاکہ ثواب بڑھ جائے اور ان کی نیکیوں کا باعث بھی ہم بن جائیں ۔ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتے ہیں کہ انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں مگر تین چیزیں ۔ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے یا علم جس سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے یا صدقہ جاریہ ۔