Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
اِنَّا نَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَ لَـنَا رَبُّنَا خَطٰيٰـنَاۤ اَنۡ كُنَّاۤ اَوَّلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَؕ‏ ﴿51﴾
اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان والے بنے ہیں ہمیں امید پڑتی ہے کہ ہمارا رب ہماری سب خطائیں معاف فرما دے گا ۔
انا نطمع ان يغفر لنا ربنا خطينا ان كنا اول المؤمنين
Indeed, we aspire that our Lord will forgive us our sins because we were the first of the believers."
Iss bina per kay hum sab say pehlay eman walay banay hain humen umeed parti hai kay humara rab humari sab khatayen moaaf farma dey ga.
ہم تو شوق سے امیدلگائے ہوئے ہیں کہ ہمارا پروردگار اس وجہ سے ہماری خطائیں بخش دے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لائے تھے ۔
ہمیں طمع ہے کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے اس پر کہ سب سے پہلے ایمان لائے ( ف۵۳ )
اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں ۔ ” 40 ؏3
ہم قوی امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں معاف فرما دے گا ، اس وجہ سے کہ ( اب ) ہم ہی سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :40 یعنی ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا تو بہرحال ایک نہ ایک دن ضرور ہے ۔ اب اگر تو قتل کر دے گا تو اس سے زیادہ کچھ نہ ہو گا کہ وہ دن جو کبھی آنا تھا ، آج آ جائے گا ۔ اس صورت میں ڈرنے کا کیا سوال؟ ہمیں تو الٹی مغفرت اور خطا بخشی کی امید ہے کیونکہ آج اس جگہ حقیقت کھلتے ہی ہم نے مان لینے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی اور اس پورے مجمع میں سب سے پہلے پیش قدمی کر کے ہم ایمان لے آئے ۔ جادوگروں کے اس جواب نے دو باتیں تمام اس خلقت کے سامنے واضح کر دیں جسے فرعون نے ڈھنڈورے پیٹ پیٹ کر جمع کیا تھا ۔ اول یہ کہ فرعون نہایت جھوٹا ، ہٹ دھرم اور مکار ہے ۔ جو مقابلہ اس نے خود فیصلے کے لیے کرایا تھا اس میں موسیٰ علیہ السلام کی کھلی کھلی فتح کو سیدھی طرح مان لینے کے بجائے اور اس نے فوراً ایک جھوٹی سازش کا افسانہ گھڑ لیا اور قتل و تعصیب کی دھمکی دے کر زبر دستی اس کا اقرار کرانے کی کوشش کی ۔ اس افسانے میں ذرہ برابر بھی کوئی صداقت ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ جادوگر ہاتھ پاؤں کٹوانے اور سولی پر چڑھ جانے کے لیے یوں تیار ہو جاتے ۔ ایسی کسی سازش سے اگر کوئی سلطنت مل جانے کا لالچ تھا تو اب اس کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ، کیونکہ سلطنت کے مزے تو جو لوٹے گا سو لوٹے گا ، ان غریبوں کے حصے میں تو صرف کٹ کٹ کر جان دینا ہی رہ گیا ہے ۔ اس ہولناک خطرے کو انگیز کر کے بھی ان جادوگروں کا اپنے ایمان پر قائم رہنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ سازش کا الزام سراسر جھوٹا ہے اور سچی بات یہی ہے کہ جادوگر اپنے فن میں ماہر ہونے کی وجہ سے ٹھیک ٹھیک جان گئے ہیں کہ جو کچھ موسیٰ علیہ السلام نے دکھایا ہے وہ ہرگز جادو نہیں ہے بلکہ واقعی اللہ رب العالمین ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے ۔ دوسری بات جو اس وقت ملک کے گوشے گوشے سے سمٹ کر آئے ہوئے ہزارہا آدمیوں کے سامنے کھل کر آ گئی وہ یہ تھی کہ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتے ہی ان جادوگروں میں کیسا زبردست اخلاقی انقلاب واقع ہو گیا ۔ کہاں تو ان کی پستی ذہن و فکر کا یہ حال تھا کہ دین آبائی کی نصرت کے لیے آئے تھے اور فرعون کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر انعام مانگ رہے تھے ، اور کہاں اب آن کی آن میں ان کی بلندی ہمت و عزم اس درجے کو پہنچ گئی کہ وہی فرعون ان کی نگاہ میں ہیچ ہو گیا ، اس کی بادشاہی کی ساری طاقت کو انہوں نے ٹھوکر مار دی اور اپنے ایمان کی خاطر وہ موت اور بد ترین جسمانی تعذیب تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ اس سے بڑھ کر مصریوں کے دین شرک کی تذلیل اور موسیٰ علیہ السلام کے لائے ہوئے دین حق کی مؤثر تبلیغ اس نازک نفسیاتی موقع پر شاید ہی کوئی اور ہو سکتی تھی ۔