Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‌ؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚؔ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔ‌ۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ‌ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿7﴾
وہی اللہ تعالٰی ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔
هو الذي انزل عليك الكتب منه ايت محكمت هن ام الكتب و اخر متشبهت فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاويله و ما يعلم تاويله الا الله و الرسخون في العلم يقولون امنا به كل من عند ربنا و ما يذكر الا اولوا الالباب
It is He who has sent down to you, [O Muhammad], the Book; in it are verses [that are] precise - they are the foundation of the Book - and others unspecific. As for those in whose hearts is deviation [from truth], they will follow that of it which is unspecific, seeking discord and seeking an interpretation [suitable to them]. And no one knows its [true] interpretation except Allah . But those firm in knowledge say, "We believe in it. All [of it] is from our Lord." And no one will be reminded except those of understanding.
Wohi Allah Taalaa hai jiss ney tujh per kitab utari jiss mein wazeh mazboot aayaten hain jo asal kitab hain aur baaz mutashabeh aayaten hain. Pus jin kay dilon mein kuji hai woh to iss ki mutashabeh aayaton kay peechay lag jatay hain fitney ki talab aur inn kay murad ki justujoo kay liye halankay inn ki haqeeqi murad ko siwaye Allah Taalaa kay koi nahi janta aur pukhta aur mazboor ilm walay yehi kehtay hain kay hum to inn per eman laa chukay yeh humaray rab ki taraf say hain aur naseehat to sirf aqal mand hi hasil kertay hain.
۔ ( اے رسول ) وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں ۔ ( ٣ ) اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں ، حالانکہ ان آیتوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور جن لوگوں کا علم پختہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس ( مطلب ) پر ایمان لاتے ہیں ( جو اللہ کو معلوم ہے ) سب کچھ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے ، اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔
وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں ( ف٦ ) وہ کتاب کی اصل ہیں ( ف۷ ) اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے ( ف۸ ) وہ جن کے دلوں میں کجی ہے ( ف۹ ) وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں ( ف۱۰ ) گمراہی چاہنے ( ف۱۱ ) اور اس کا پہلو ڈھونڈنے کو ( ف۱۲ ) اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے ( ف۱۳ ) اور پختہ علم والے ( ف۱٤ ) کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ( ف۱۵ ) سب ہمارے رب کے پاس سے ہے ( ف۱٦ ) اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے ( ف۱۷ )
وہی خدا ہے ، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے ۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات ، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں 5 اور دوسری متشا بہات 6 ۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں ، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بخلا ف اس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے ، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں ۔ 7 اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں ۔
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم ( یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی ) ہیں وہی ( احکام ) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ ( یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی ) ہیں ، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں ( فقط ) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے ، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے ، ساری ( کتاب ) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے ، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :5 محکم پکی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں ۔ ”آیات محکمات“ سے مراد وہ آیات ہیں ، جن کی زبان بالکل صاف ہے ، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے ، جن کے الفاظ معنی و مدعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں ، جنہیں تاویلات کا تختہ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مل سکتا ہے ۔ یہ آیات”کتاب کی اصل بنیاد ہیں“ ، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے ، اس غرض کو یہی آیتیں پورا کرتی ہیں ۔ انہی میں اسلام کی طرف دنیا کی دعوت دی گئی ہے ، انہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں ، انہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہ راست کی توضیح کی گئی ہے ۔ انہی میں دین کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں ۔ انہی میں عقائد ، عبادات ، اخلاق ، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں ۔ پس جو شخص طالب حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے ، اس کی پیاس بجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً انہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر انہی سے فائدہ اٹھانے میں مشغول رہے گا ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :6 متشابہات ، یعنی وہ آیات جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا ، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومت انسان کو نہ دی جائیں ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں ، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں ، نہ آسکتی ہیں ، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا ، نہ چھوا ، نہ چکھا ، ان کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو انہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب بیان مل سکتے ہیں ، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھنچ جائے ۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کر نے کے لیے الفاظ اور اسالیب بیان وہ استعمال کیے جائیں ، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں ۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں ، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے ۔ لیکن اس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھندلا سا تصور پیدا کردے ۔ ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی ، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا ، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اَور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا ۔ پس جو لوگ طالب حق ہیں اور ذوق فضول نہیں رکھتے ، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اس دھندلے تصور پر قناعت کر لیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں ، مگر جو لوگ بوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں ، ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :7 یہاں کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں ، تو ان پر ایمان کیسے لے آئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے ، نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے ۔ اور جب آیات محکمات میں غور و فکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے ، تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے ۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے ، اس کو وہ لے لیتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے ، وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے ۔
ہماری سمجھ سے بلند آیات یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے ۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے ، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہوسکتی ، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں ، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں ، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گر پڑیں ، ام الکتاب یعنی کتاب اللہ اصل اصولوں کی وہ صاف اور واضح آیتیں ہیں ، شک و شبہ میں نہ پڑو اور کھلے احکام پر عمل کرو انہی کو فیصلہ کرنے والی مانو اور جو نہ سمجھ میں آئے اسے بھی ان سے ہی سمجھو ، بعض اور آیتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک معنی تو ان کا ایسا نکلتا ہے جو ظاہر آیتوں کے مطابق ہو اور اس کے سوا اور معانی بھی نکلتے ہیں ، گو وہ حرف لفظ اور ترکیب کے اعتبار سے واقعی طور پر نہ ہو تو ان غیر ظاہر معنوں میں نہ پھنسو ، محکم اور متشابہ کے بہت سے معنی اسلاف سے منقول ہیں ، حضرت ابن عباس تو فرماتے ہیں کہ محکمات وہ ہیں جو ناسخ ہوں جن میں حلال حرام احکام حکم ممنوعات حدیں اور اعمال کا بیان ہو ، اسی طرح آپ سے یہ بھی مروی ہے ( آیت قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم الخ ، ) اور اس کے بعد کے احکامات والی اور ( آیت وقضی ربک ان لا تبعدوا الخ ، ) اور اس کے بعد کی تین آیتیں محکمات سے ہیں ، حضرت ابو فاختہ فرماتے ہیں سورتوں کے شروع میں فرائض اور احکام اور روک ٹوک اور حلال و حرام کی آیتیں ہیں ، سعید بن جبیر کہتے ہیں انہیں اصل کتاب اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ تمام کتابوں میں ہیں ، حضرت مقاتل کہتے ہیں اس لئے کہ تمام مذہب والے انہیں مانتے ہیں ، متشابہات ان آیتوں کو کہتے ہیں جو منسوخ ہیں اور جو پہلے اور بعد کی ہیں اور جن میں مثالیں دی گئیں ہیں اور قسمیں کھائی گئی ہیں اور جن پر صرف ایمان لایا جاتا ہے اور عمل کیلئے وہ احکام نہیں ، حضرت ابن عباس کا بھی یہی فرمان ہے حضرت مقاتل فرماتے ہیں اس سے مراد سورتوں کے شروع کے حروف مقطعات ہیں ۔ حضرت مجاہد کا قول یہ ہے کہ ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ) 39 ۔ الزمر:23 ) اور مثانی وہ ہے جہاں دو مقابل کی چیزوں کا ذِکر ہو جیسے جنت دوزخ کی صفت ، نیکوں اور بدوں کا حال وغیرہ وغیرہ ۔ اس آیت میں متشابہ محکم کے مقابلہ میں اس لئے ٹھیک مطلب وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا اور حضرت محمد بن اسحاق بن یسار کا یہی فرمان ہے ، فرماتے ہیں یہ رب کی حجت ہے ان میں بندوں کا بچاؤ ہے ، جھگڑوں کا فیصلہ ہے ، باطل کا خاتمہ ہے ، انہیں ان کے صحیح اور اصل مطلب سے کوئی گھما نہیں سکتا نہ ان کے معنی میں ہیرپھیر کر سکتا ہے ۔ متشابہات کی سچائی میں کلام نہیں ان میں تصرف و تاویل نہیں کرنی چاہئے ۔ ان سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے جیسے حلال حرام سے آزماتا ہے ، انہیں باطل کی طرف لے جانا اور حق سے پھیرنا چاہئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جن کے دِلوں میں کجی ٹیڑھ پن گمراہی اور حق سے باطل کی طرف ہی ہے وہ تو متشابہ آیتوں کو لے کر اپنے بدترین مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور لفظی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی طرف موڑ لیتے ہیں اور جو محکم آیتیں ان میں ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ان کے الفاظ بالکل صاف اور کھلے ہوئے ہوتے ہیں نہ وہ انہیں ہٹا سکتے ہیں نہ ان سے اپنے لئے کوئی دلیل حاصل کر سکتے ہیں ۔ اسی لئے فرمان ہے کہ اس سے ان کا مقصد فتنہ کی تلاش ہوتی ہے تاکہ اپنے ماننے والوں کو بہکائیں ، اپنی بدعتوں کی مدافعت کریں جیسا کہ عیسائیوں نے قرآن کے الفاظ روح اللہ اور کلمۃ اللہ سے حضرت عیسیٰ کے اللہ کا لڑکا ہونے کی دلیل لی ہے ۔ پس اس متشابہ آیت کو لے کر صاف آیت جس میں یہ لفظ ہیں کہ ( آیت ان ھو الا عبد الخ ، یعنی حضرت عیسیٰ اللہ کے غلام ہیں ، جن پر اللہ کا انعام ہے ، اور جگہ ہے آیت ( اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ) 3 ۔ آل عمران:59 ) یعنی حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم کی طرح ہے کہ انہیں اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا کہ ہوجا ، وہ ہو گیا ، چنانچہ اسی طرح کی اور بھی بہت سی صریح آیتیں ہیں ان سب کو چھوڑ دیا اور متشابہ آیتوں سے حضرت عیسیٰ کے اللہ کا بیٹا ہونے پر دلیل لے لی حالانکہ آپ اللہ کی مخلوق ہیں ، اللہ کے بندے ہیں ، اس کے رسول ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کی دوسری غرض آیت کی تحریف ہوتی ہے تاکہ اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر مفہوم بدل لیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں میں جھگڑتے ہیں تو انہیں چھوڑ دو ، ایسے ہی لوگ اس آیت میں مراد لئے گئے ہیں ۔ یہ حدیث مختلف طریق سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے ، صحیح بخاری شریف میں بھی یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے ، ملاحظہ ہو کتاب القدر ، ایک اور حدیث میں ہے یہ لوگ خوارج ہیں ( مسند احمد ) پس اس حدیث کو زیادہ سے زیادہ موقوف سمجھ لیا جائے تاہم اس کا مضمون صحیح ہے اس لئے کہ پہلے بدعت خوارج نے ہی پھیلائی ہے ، فرقہ محض دنیاوی رنج کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت حنین کی غنیمت کا مال تقسیم کیا اس وقت ان لوگوں نے اسے خلاف عدل سمجھا اور ان میں سے ایک نے جسے ذواخویصرہ کہا جاتا ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر صاف کہا کہ حضرت عدل کیجئے ، آپ نے اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اللہ نے امین بنا کر بھیجا تھا ، اگر میں بھی عدل نہیں کروں تو پھر برباد ہو اور نقصان اٹھائے ، جب وہ پلٹا تو حضرت عمر فاروق نے درخواست کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اسے مار ڈالوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوڑ دو ، اس کے ہم خیال ایک ایسی قوم پیدا ہوگی کہ تم لوگ اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنی قرآن خوانی کو ان کی قرآن خوانی کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے لیکن دراصل وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے ، تم جہاں انہیں پاؤ گے قتل کرو گے ، انہیں قتل کرنے والے کو بڑا ثواب ملے گا ، حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں ان کا ظہور ہوا اور آپ نے انہیں نہروان میں قتل کیا پھر ان میں پھوٹ پڑی تو ان کے مختلف الخیال فرقے پیدا ہوگئے ، نئی نئی بدعتیں دین میں جاری ہوگئیں اور اللہ کی راہ سے بہت دور چلے گئے ، ان کے بعد قدریہ فرقے کا ظہور ہوا ، پھر معتزلہ پھر جہمیہ وغیرہ پیدا ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی پوری ہوئی کہ میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوں گے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے ۔ صحابہ نے پوچھا وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو اس چیز پر ہوں جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ( مستدرک حاکم ) ایویعلیٰ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے ایک قوم پیدا ہوگی جو قرآن تو پڑھے گی لیکن اسے اس طرح پھینکے گی جیسے کوئی کھجور کی گٹھلیاں پھینکتا ہو ، اس کے غلط مطالب بیان کرے گی ، پھر فرمایا اس کی حقیقی تاویل اور واقعی مطلب اللہ ہی جانتا ہے ، لفظ اللہ پر وقف ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس تو فرماتے ہیں تفسیر چار قسم کی ہے ، ایک وہ جس کے سمجھنے میں کسی کو مشکل نہیں ، ایک وہ جسے عرب اپنے لغت سے سمجھتے ہیں ، ایک وہ جسے جید علماء اور پورے علم والے ہی جانتے ہیں اور ایک وہ جسے بجزذاتِ الہٰی کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے ، حضرت عائشہ کا بھی یہی قول ہے ، معجم کبیر میں حدیث ہے کہ مجھے اپنی امت پر صرف تین باتوں کا ڈر ہے ۔ مال کی کثرت کا جس سے حسد و بغض پیدا ہوگا اور آپس کی لڑائی شروع ہوگی ، دوسرا یہ کہ کتاب اللہ کی تاویل کا سلسلہ شروع ہو گا حالانکہ اصلی مطلب ان کا اللہ ہی جانتا ہے اور اہل علم والے کہیں گے کہ ہمارا اس پر ایمان ہے ۔ تیسرے یہ کہ علم حاصل کرنے کے بعد اسے بےپرواہی سے ضائع کر دیں گے ، یہ حدیث بالکل غریب ہے اور حدیث میں ہے کہ قرآن اس لئے نہیں اترا کہ ایک آیت دوسری آیت کی مخالف ہو ، جس کا تمہیں علم ہو اور اس پر عمل کرو اور جو متشابہ ہوں ان پر ایمان لاؤ ( ابن مردویہ ) ابن عباس حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت مالک بن انس سے بھی یہی مروی ہے کہ بڑے سے بڑے عالم بھی اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے ، ہاں اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ پختہ علم والے یہی کہتے ہیں اس کی تاویل کا علم اللہ ہی کو ہے کہ اس پر ہمارا ایمان ہے ۔ ابی بن کعب بھی یہی فرماتے ہیں ، امام ابن جریر بھی اسی سے اتفاق کرتے ہیں ، یہ تو تھی وہ جماعت جو الا اللہ پر وقف کرتی تھی اور بعد کے جملہ کو اس سے الگ کرتی تھی ، کچھ لوگ یہاں نہیں ٹھہرتے اور فی العلم پر وقف کرتے ہیں ، اکثر مفسرین اور اہل اصول بھی یہی کہتے ہیں ، ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ جو سمجھ میں نہ آئے اس بات کا ٹھیک نہیں ، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے میں ان راسخ علماء میں ہوں جو تاویل جانتے ہیں ، مجاہد فرماتے ہیں راسخ علم والے تفسیر جانتے ہیں ، حضرت محمد بن جعفر بن زبیر فرماتے ہیں کہ اصل تفسیر اور مراد اللہ ہی جانتا ہے اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے پھر متشابہات آیتوں کی تفسیر محکمات کی روشنی کرتے ہیں جن میں کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ، قرآن کے مضامین ٹھیک ٹھاک سمجھ میں آتے ہیں دلیل واضح ہوتی ہے ، عذر ظاہر ہو جاتا ہے ، باطل چھٹ جاتا ہے اور کفر دفع ہو جاتا ہے ، حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس کیلئے دعا کی کہ اے اللہ انہیں دین کی سمجھ دے اور تفسیر کا علم تھے ، بعض علماء نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے ، قرآن کریم میں تاویل دو معنی میں آئی ہے ، ایک معنی جن سے مفہوم کی اصلی حقیقت اور اصلیت کی نشاندہی ہوتی ہے ، جیسے قرآن میں ہے ( يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ ۡ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا ) 12 ۔ یوسف:100 ) میرے باپ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے ، اور جگہ ہے آیت ( هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَهٗ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ) 7 ۔ الاعراف:53 ) کافروں کے انتظار کی حد حقیقت کے ظاہر ہونے تک ہے اور یہ دن وہ ہوگا جب حقیقت سچائی کی گواہ بن کر نمودار ہوگی ، پس ان دونوں جگہ پر تاویل سے مراد حقیقت ہے ، اگر اس آیت مبارکہ میں تاویل سے مراد یہی تاویل لی جائے تو الا اللہ پر وقف ضروری ہے اس لئے کہ تمام کاموں کی حقیقت اور اصلیت بجز ذات پاک کے اور کوئی نہیں جانتا تو راسخون فی العلم مبتدا ہوگا اور یقولون امنابہ خبر ہوگی اور یہ جملہ بالکل الگ ہوگا اور تاویل کے دوسرے معنی تفسیر اور بیان اور ہے اور ایک شئی کی تعبیر دوسری شے ہے ، جیسے قرآن میں ہے آیت ( نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ ) 12 ۔ یوسف:36 ) ہمیں اس کی تاویل بتاؤ یعنی تفسیر اور بیان ، اگر آیت مذکورہ میں تاویل سے یہ مراد لی جائے تو فی العلم پر وقف کرنا چاہئے ، اس لئے کہ پختہ علم والے علماء جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیونکہ خطاب انہی سے ہے ، گو حقائق کا علم انہیں بھی نہیں ، تو اس بنا پر امنا بہ حال ہوگا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بغیر معطوف علیہ کے معطوف ہو ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ ) 59 ۔ الحشر:8 ) سے ( يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) 59 ۔ الحشر:10 ) تک دوسری جگہ ہے آیت ( وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ) 89 ۔ الفجر:22 ) یعنی وجاء الملائکۃ صفوفا صفوفا اور ان کی طرف سے یہ خبر کہ ہم اس پر ایمان لائے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہ پر ایمان لائے ، پھر اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب یعنی محکم اور متشابہ حق اور سچ ہے اور یعنی ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ) 4 ۔ النسآء:82 ) یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا ، اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ اسے صرف عقلمند ہی سمجھتے ہیں جو اس پر غور و تدبر کریں ، جو صحیح سالم عقل والے ہوں جن کے دماغ درست ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ پختہ علم والے کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی قسم سچی ہو ، جس کی زبان راست گو ہو ، جس کا دِل سلامت ہو ، جس کا پیٹ حرام سے بچا ہو اور جس کی شرم گاہ زناکاری سے محفوظ ہو ، وہ مضبوط علم والے ہیں ( ابن ابی حاتم ) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو دیکھا کہ وہ قرآن شریف کے بارے میں لڑ جھگڑ رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو تم سے پہلے لوگ بھی اسی میں ہلاک ہوئے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی آیتوں کو ایک دوسرے کیخلاف بتا کر اختلاف کیا حالانکہ کتاب اللہ کی ہر آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے ، تم ان میں اختلاف پیدا کرکے ایک کو دوسری کے متضاد نہ کہو ، جو جانو وہی کہو اور جو نہیں جانو اسے جاننے والوں کو سونپ دو ( مسند احمد ) اور حدیث میں ہے کہ قرآن سات حرفوں پر اترا ، قرآن میں جھگڑنا کفر ہے ، قرآن میں اختلاف اور تضاد پیدا کرنا کفر ہے ، جو جانو اس پر عمل کرو ، جو نہ جانو اسے جاننے والے کی طرف سونپو جل جلالہ ( ایویعلی ) راسخ فی العلم کون؟ نافع بن یزید کہتے ہیں راسخ فی العلم وہ لوگ ہیں جو متواضح ہوں جو عاجزی کرنے والے ہوں ، رب کی رضا کے طالب ہوں ، اپنے سے بڑوں سے مرعوب نہ ہوں ، اپنے سے چھوٹے کو حقیر سمجھنے والے نہ ہوں ۔ پھر فرمایا کہ یہ سب دعا کرتے ہیں کہ ہمارے دِلوں کو ہدایت پر جمانے کے بعد انہیں ان لوگوں کے دِلوں کی طرح نہ کر جو متشابہ کے پیچھے پڑ کر برباد ہو جاتے ہیں بلکہ ہمیں اپنی صراطِ مستقیم پر قائم رکھ اور اپنے مضبوط دین پر دائم رکھ ، ہم پر اپنی رحمت نازل فرما ، ہمارے دِلوں کو قرار دے ، ہم سے گندگی کو دور کر ، ہمارے ایمان و یقین کو بڑھا تو بہت بڑا دینے والا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگا کرتے تھےحدیث ( یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک ) اے دِلوں کے پھیرنے والے میرے دِل کو اپنے دین پر جما ہوا رکھ ، پھر یہ دعا ربنا لاتزغ پڑھتے اور حدیث میں ہے کہ آپ بکثرت یہ دعا پڑتھے تھے حدیث ( اللھم مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک حضرت اسماء نے ایک دن پوچھا کیا دِل الٹ پلٹ ہو جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہر انسان کا دِل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ، اگر چاہے قائم رکھے اگر چاہے پھیر دے ، ہماری دعا ہے ہمارا رب دِلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمتیں عنایت فرمائے ، وہ بہت زیادہ دینے والا ہے ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے کہ میں اپنے لئے مانگا کروں ، آپ نے فرمایا یہ دعا مانگ ( حدیث اللھم رب محمد النبی اغفرلی ذنبی و اذھب غیظ قلبی و اجرنی من مضلات الفتن ) اے اللہ اے محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب میرے گناہ معاف فرما ، میرے دِل کا غصہ اور رنج اور سختی دور کر اور مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بچا لے ، حضرت عائشہ صدیقہ نے بھی آپ کی دعا یامقلب القلوب سن کر حضرت اسماء کی طرح میں نے بھی یہی سوال کیا اور آپ نے وہی جواب دیا اور پھر قرآن کی یہ دعا سنائی ، یہ حدیث غریب ہے لیکن قرآنی آیت کی تلاوت کے بغیر یہی بخاری مسلم میں بھی مروی ہے ، اور نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے ( حدیث لا الہ الا انت سبحانک استغفرک لذنبی واسئلک رحمۃ اللھم زدنی علما ولا تزغ بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب ) اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں ، اللہ میرے علم میں زیادتی فرما اور میرے دِل کو تو نے ہدایت دے دی ہے اسے گمراہ نہ کرنا اور مجھے اپنے پاس کی رحمت بخش تو بہت زیادہ دینے والا ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے مغرب کی نماز پڑھائی ، پہلی دو رکعتوں میں الحمدشریف کے بعد مفصل کی چھوٹی سی دو سورتیں پڑھیں اور تیسری رکعت میں سورۃ الحمد شریف کے بعد یہی آیت پڑھی ۔ ابو عبد اللہ صبالجی فرماتے ہیں میں اس وقت ان کے قریب چلا گیا تھا ، یہاں تک کہ میرے کپڑے ان کے کپڑوں سے مل گئے تھے اور میں نے خود اپنے کان سے ابو بکر صدیق کو یہ پڑھتے ہوئے سنا ( عبدالرزاق ) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب تک یہ حدیث نہیں سنی تھی آپ اس رکعت میں قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے لیکن یہ حدیث سننے کے بعد امیرالمومنین نے بھی اسی کو پڑھنا شروع کیا اور کبھی ترک نہیں کیا ۔ پھر فرمایا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ تو قیامت کے دن اپنی تمام مخلوق کو جمع کرنے والا ہے اور ان میں فیصلے اور حکم کرنے والا ہے ، ان کے اختلافات کو سمیٹنے والا ہے اور ہر ایک کو بھلے برے عمل کا بدلہ دینے والا ہے اس دن کے آنے میں اور تیرے وعدوں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں ۔