سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :65
ان دو فقروں کے متعلق یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا حصہ ہیں یا انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ۔ اگر پہلی بات مانی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کے لیے یہ دعا کرتے وقت خود بھی ان حقائق کا احساس رکھتے تھے ۔ اور دوسری بات تسلیم کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی دعا پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے کام اگر کوئی چیز آ سکتی ہے تو وہ مال اور اولاد نہیں بلکہ صرف قلب سلیم ہے ، ایسا دل جو کفر و شرک و نافرمانی اور فسق و فجور سے پاک ہو ۔ مال اور اولاد بھی قلب سلیم ہی کے ساتھ نافع ہو سکتے ہیں ، اس کے بغیر نہیں ۔ مال صرف اس صورت میں وہاں مفید ہو گا جبکہ آدمی نے دنیا میں ایمان و اخلاص کے ساتھ اسے اللہ کی راہ میں صرف کیا ہو ، ورنہ کروڑ پتی اور ارب پتی آدمی بھی وہاں کنگال ہو گا ۔ اولاد بھی صرف اسی حالت میں وہاں کام آ سکے گی جبکہ آدمی نے دنیا میں اسے اپنی حد تک ایمان اور حسن عمل کی تعلیم دی ہو ، ورنہ بیٹا اگر نبی بھی ہو تو وہ باپ سزا پانے سے نہیں بچ سکتا جس کا اپنا خاتمہ کفر و معصیت پر ہوا ہو اور اولاد کی نیکی میں جس کا اپنا کوئی حصہ نہ ہو ۔