Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
كَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ الۡمُرۡسَلِيۡنَ‌ ۖ‌ۚ‏ ﴿141﴾
ثمودیوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا ۔
كذبت ثمود المرسلين
Thamud denied the messengers
Samoodiyon ney bhi payghumbaron ko jhutlaya.
قوم ثمود نے پیغمبروں کو جھٹلایا ( ٣٠ )
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا ،
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا ۔ 95
۔ ( قومِ ) ثمود نے ( بھی ) پیغمبروں کو جھٹلایا
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :95 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 73 تا 79 ۔ ہود ، 61 ۔ 68 ۔ الحجر ، 80 ۔ 84 ۔ بنی اسرائیل 59 ۔ مزید تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی پیش نظر رہیں : النمل ، 45 ۔ 53 ۔ الذاریات ، 43 ۔ 45 ۔ القمر ، 23 ۔ 31 ۔ الحاقہ ، 4 ۔ 5 ۔ الفجر ، 9 ۔ الشمس ، 11 ۔ اس قوم کے متعلق قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جو تصریحات کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عاد کے بعد جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہی تھی ، جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ ( الاعراف آیت 74 ) مگر اس کی تمدنی ترقی نے بھی بالآخر وہی شکل اختیار کی جو عاد کی ترقی نے کی تھی ، یعنی معیار زندگی بلند سے بلند تر اور معیار آدمیت پست سے پست تر ہوتا چلا گیا ۔ ایک طرف میدانی علاقوں میں عالی شان قصر اور پہاڑوں میں ایلورا اور اجنٹہ کے غاروں جیسے مکان بن رہے تھے ۔ دوسری طرف معاشرے میں شرک و بت پرستی کا زور تھا اور زمین ظلم و ستم سے لبریز ہو رہی تھی ۔ قوم کے بد ترین مفسد لوگ اس کے لیڈر بنے ہوئے تھے ۔ اونچے طبقے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں سرشار تھے ۔ حضرت صالح کی دعوت حق نے اگر اپیل کیا تو نچلے طبقے کے کمزور لوگوں کو کیا ۔ اونچے طبقوں نے اسے ماننے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہ کٰفِرُوْنَ ، جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کو ہم نہیں مان سکتے ۔
صالح علیہ السلام اور قوم ثمود اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول حضرت صالح علیہ السلام کا واقعہ بیان ہو رہا کہ آپ اپنی قوم ثمود کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یہ لوگ عرب حجر نامی شہر میں رہتے تھے جو وادی القری اور ملک شام کے درمیان ہے ۔ یہ عادیوں کے بعد اور ابراہمیوں سے پہلے تھے شام کی طرف جاتے ہوئے آپ کا اس جگہ سے گزرنے کا بیان سورئہ اعراف کی تفسیر میں پہلے گزرچکا ہے ۔ انہیں ان کے نبی نے اللہ کی طرف بلایا کہ یہ اللہ کی توحید کو مانیں اور حضرت صالح علیہ السلام کی رسالت کا اقرار کریں لیکن انہوں نے بھی انکار کردیا اور اپنے کفر پر جمے رہے اللہ کے پیغمبر کو جھوٹا کہا ۔ باوجود اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت سننے کی پرہیزگاری اختیار نہ کی ۔ باوجود رسول امین کی موجودگی کے راہ ہدایت اختیار نہ کی ۔ حالانکہ نبی کا صاف اعلان تھا کہ میں اپنا کوئی بوجھ تم پر ڈال نہیں رہا میں تو رسالت کی تبلیغ کے اجرا کا صرف اللہ تعالیٰ سے خواہاں ہوں ۔ اس کے بعد اللہ کی نعمتیں انہیں یاد دلائیں ۔