Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
كَذَّبَ اَصۡحٰبُ لْئَيۡكَةِ الۡمُرۡسَلِيۡنَ ‌ۖ‌ۚ‏ ﴿176﴾
ایکہ والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا ۔
كذب اصحب ليكة المرسلين
The companions of the thicket denied the messengers
Aeeka walon ney bhi rasoolon ko jhutlaya.
ایکہ کے باشندوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا ۔ ( ٣٨ )
بن والوں نے رسولوں کو جھٹلایا ( ف۱۵٤ )
اصحاب الایکہ نے رسولوں کو جھٹلایا ۔ 115
باشندگانِ ایکہ ( یعنی جنگل کے رہنے والوں ) نے ( بھی ) رسولوں کو جھٹلایا
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :115 اصحاب الایکہ کا مختصر ذکر سورہ الحجر آیت 78 ۔ 84 میں پہلے گزر چکا ہے ۔ یہاں اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا مَدْیَن اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں ہیں یا ایک ہی قوم کے دو نام ہیں ۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دو الگ قومیں ہیں اور اس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سورہ اعراف میں حضرت شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کا بھائی فرمایا گیا ہے ( وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْباً ) ، اور یہاں اصحاب الایکہ کے ذکر میں صرف یہ ارشاد ہوا ہے کہ اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیبٌ ( جبکہ ان سے شعیب نے کہا ) ، ان کے بھائی ( اَخُوْھُمْ ) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین دونوں کو ایک ہی قوم قرار دیتے ہیں ، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں جو امراض اور اوصاف اصحاب مدین کے بیان ہوئے ہیں وہی یہاں اصحاب الایکہ کے بیان ہو رہے ہیں ، حضرت شعیب کی دعوت و نصیحت بھی یکساں ہے ، اور آخر کار ان کے انجام میں بھی فرق نہیں ہے ۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اقوال اپنی جگہ صحیح ہیں ۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ بلا شبہ دو الگ قبیلے ہیں مگر ہیں ایک ہی نسل کی دو شاخیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ان کی بیوی یا کنیز قطورا کے بطن سے تھی وہ عرب اور اسرائیل کی تاریخ میں بنی قطُورا کے نام سے معروف ہے ۔ ان میں سے ایک قبیلہ جو سب سے زیادہ مشہور ہوا ، مدیان بن ابراہیم کی نسبت سے مدیانی ، یا اصحاب مدین کہلایا ، اور اس کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک اور وہاں سے جزیرہ نمائے سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیج عقبہ کے سواحل پر پھیل گئی ۔ اس کا صدر مقام شہر مدین تھا جس کی جائے وقوع ابوالفدا نے خلیج عقبہ کے مغربی کنارے اَیلَہ ( موجودہ عقبہ ) سے پانچ دن کی راہ پر بتائی ہے ۔ باقی بنی قطورا جن میں بنی ودان ( Dedanites ) نسبۃً زیادہ مشہور ہیں ، شمالی عرب میں تَیماء اور تبوک اور العُلاء کے درمیان آباد ہوئے اور ان کا صدر مقام تبوک تھا جسے قدیم زمانے میں ایکہ کہتے تھے ۔ ( یاقوت نے معجم البلدان میں لفظ ایکہ کے تحت بتایا ہے کہ یہ تبوک کا پرانا نام ہے اور اہل تبوک میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ یہی جگہ کسی زمانے میں ایکہ تھی ) ۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ کے لیے ایک ہی پیغمبر مبعوث کیے جانے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے تھے ، ایک ہی زبان بولتے تھے ، اور ان کے علاقے بھی بالکل ایک دوسرے سے متصل تھے ۔ بلکہ بعید نہیں کہ بعض علاقوں میں یہ ساتھ ساتھ آباد ہوں اور آپس کے شادی بیاہ سے ان کا معاشرہ بھی باہم گھل مل گیا ہو ۔ اس کے علاوہ بنی قطور کی ان دونوں شاخوں کا پیشہ بھی تجارت تھا ۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی تجارتی بے ایمانیاں اور مذہبی و اخلاقی بیماریاں پائی جاتی تھیں ۔ بائیبل کی ابتدائی کتابوں میں جگہ جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ بعل فغور کی پرستش کرتے تھے اور بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر ان کے علاقے میں آئے تو ان کے اندر بھی انہوں نے شرک اور زنا کاری کی وبا پھیلا دی ( گنتی ، باب 25 آیت 1 ۔ 5 ، باب 31 آیت 16 ۔ 17 ) ۔ پھر یہ لوگ بین الاقوامی تجارت کی ان دو بڑی شاہراہوں پر آباد تھے جو یمن سے شام اور خلیج فارس سے مصر کی طرف جاتی تھیں ۔ ان شاہراہوں پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر رہزنی کا سلسلہ چلا رکھا تھا ۔ دوسری قوموں کے تجارتی قافلوں کو بھاری خراج لیے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے ، اور بین الاقوامی تجارت پر خود قابض رہنے کی خاطر انہوں نے راستوں کا امن خطرے میں ڈال رکھا تھا ۔ قرآن مجید میں ان کی اس پوزیشن کو یوں بیان کیا گیا ہے : اِنَّھُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ O یہ دونوں ( قوم لوط اور اصحاب الایکہ ) کھلی شاہراہ پر آباد تھے ، اور ان کی رہزنی کا ذکر سورہ اعراف میں اس طرح کیا گیا ہے : وَلَا تَقْعُدُوْا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ O اور ہر راستے پر لوگوں کو ڈرانے نہ بیٹھو ۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قبیلوں کے لیے ایک ہی پیغمبر بھیجا اور ان کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی ۔ حضرت شعیب علی السلام اور اہل مدین کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 85 ۔ 93 ۔ ہود 84 ۔ 95 ۔ العنکبوت 36 ۔ 37 ۔
شیعب علیہ السلام یہ لوگ مدین کے رہنے والے تھے ۔ حضرت شعیب علیہ السلام بھی ان ہی میں تھے آپ کو ان کا بھائی صرف اس لئے نہیں کہا گیا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی نسبت ایکہ کی طرف کی ہے ۔ جسے یہ لوگ پوجتے تھے ۔ ایکہ ایک درخت تھا یہی وجہ ہے کہ جیسے اور نبیوں کی ان کی امتوں کا بھائی فرمایا گیا انہیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا ورنہ یہ لوگ بھی انہی کی قوم میں سے تھے ۔ بعض لوگ جن کے ذہن کی رسائی اس نکتے تک نہیں ہوئی وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی قوم میں سے نہ تھے ۔ اس لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو انکا بھائی فرمایا گیا یہ اور ہی قوم تھی ۔ شعیب علیہ السلام اپنی قوم کی طرف بھی بھیجے گئے تھے اور ان لوگوں کی طرف بھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک تیسری امت کی طرف بھی آپ کی بعثت ہوئی تھی ۔ چنانچہ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ کسی نبی کو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ نہیں بھیجا سوائے حضرت شعیب علیہ السلام کے کہ ایک مرتبہ انہیں مدین والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ سے انہیں ایک چنگھاڑ کے ساتھ ہلاک کردیا ۔ اور دوبارہ انہیں ایکہ والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ ان پر سائے والے دن کا عذاب آیا اور وہ برباد ہوئے ۔ لیکن یاد رہے کہ اس کے راویوں میں ایک راوی اسحاق بن بشر کاہلی ہے جو ضعیف ہے ۔ قتادۃ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رس اور اصحاب ایکہ قوم شعیب ہے اور ایک بزرگ فرماتے ہیں اصحاب ایکہ اور اصحاب مدین ایک ہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عساکر میں ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ دو قومیں ہیں ان دونوں نے امتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا تھا لیکن یہ حدیث غریب ہے اور اسکے مرفوع ہونے میں کلام ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف ہی ہو ۔ صحیح امر یہی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی امت ہے ۔ دونوں جگہ ان کے وصف الگ الگ بیان ہوئے ہیں مگر وہ ایک ہی ہے ۔ اس کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ دونوں قصوں میں حضرت شعیب علیہ السلام کا وعظ ایک ہی ہے دونوں کو ناپ تول صحیح کرنے کا حکم دیاہے ۔