Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ زَيَّـنَّا لَهُمۡ اَعۡمَالَهُمۡ فَهُمۡ يَعۡمَهُوۡنَؕ‏ ﴿4﴾
جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے انہیں ان کے کرتوت زینت دار کر دکھائے ہیں پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں ۔
ان الذين لا يؤمنون بالاخرة زينا لهم اعمالهم فهم يعمهون
Indeed, for those who do not believe in the Hereafter, We have made pleasing to them their deeds, so they wander blindly.
Jo log qayamat per eman nahi latay hum ney unhen unn kay kartoot zeenat daar ker dikhaye hain pus woh bhataktay phirtay hain.
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، ہم نے ان کے اعمال کو ان کی نظروں میں خوشنما بنا دیا ہے ۔ ( ١ ) اس لیے وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔
وہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے ان کے کوتک ( برے اعمال ) ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے ہیں ( ف۵ )
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے ان کے کرتوتوں کو خوشنما بنا دیا ہے ، اس لیے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ 5
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اَعمالِ ( بد ان کی نگاہوں میں ) خوش نما کر دیئے ہیں سو وہ ( گمراہی میں ) سرگرداں رہتے ہیں
سورة النمل حاشیہ نمبر :5 یعنی خدا کا قانون فطرت یہ ہے ، نفسیات انسان کی فطری منطق یہی ہے کہ جب آدمی زندگی اور اس کی سعی و عمل کے نتائج کو صرف اسی دنیا تک محدود سمجھے گا ، جب وہ کسی ایسی عدالت کا قائل نہ ہوگا جہاں انسان کے پورے کارنامہ حیات کی جانچ پڑتال کر کے اس کے حسن و قبح کا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جانے والا ہو ، اور جب وہ موت کے بعد کسی ایسی زندگی کا قائل نہ ہوگا جس میں حیات دنیا کے اعمال کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق ٹھیک ٹھیک جزا و سزا دی جانے والی ہو تو لازما اس کے اندر ایک مادہ پرستانہ نقطعہ نظر نشو و نما پائے گا ۔ اسے حق اور باطل ، شرک اور توحید ، نیکی اور بدی ، اخلاق اور بد اخلاقی کی ساری بحثیں سراسر بے معنی نظر آئیں گی ، جو کچھ اسے اس دنیا میں لذت و عیش اور مادی ترقی و خوشحالی اور قوت و اقتدار سے ہمکنار کرے وہی اس کے نزدیک بھلائی ہوگی قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی فلسفہ حیات اور کوئی طرز زندگی اور نظام اخلاق ہو ، اس کو حقیقت اور صداقت سے دراصل کوئی غرض ہی نہ ہوگی ، اس کی اصل مظلوب صرف حیات دنیا کی زینتیں اور کامرانیاں ہوں گی جن کے حصول کی فکر اسے ہر وادی میں لیے بھٹکتی پھرے گی ، اور اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی وہ کرے گا اسے اپنے نزدیک بڑی خوبی کی بات سمجھے گا اور الٹا ان لوگوں کو بیوقوف سمجھے گا جو اس کی طرح دنیا طلبی میں منہمک نہیں ہیں اور اخلاق و بد اخلاقی سے بے نیاز ہوکر ہر کام کر گزرنے میں بے باک نہیں ہیں ۔ کسی کے اعمال بد کو اس کے لیے خوشنما بنا دینے کا یہ فعل قرآن مجید میں کبھی اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، اور کبھی شیطان کی طرف ، جب اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس سے مراد جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، یہ ہوتی ہے کہ جو شخص یہ نقطہ نظر اختیار کرتا ہے اسے فطرۃ زندگی کا یہی ہنجار خویش آئند محسوس ہوتا ہے اور جب یہ فعل شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس طرز فکر اور طرز عمل کو اختیار کرنے والے آدمی کے سامنے شیطان ہر وقت ایک خیالی جنت پیش کرتا رہتا ہے اور اسے خوب اطمینان دلاتا ہے کہ شاباش برخوردار بہت اچھے جارہے ہو ۔