Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلَـقَدۡ اٰتَيۡنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيۡمٰنَ عِلۡمًا‌ ۚ وَقَالَا الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّنۡ عِبَادِهِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿15﴾
اور ہم نے یقیناًداؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا اور دونوں نے کہا ، تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے ۔
و لقد اتينا داود و سليمن علما و قالا الحمد لله الذي فضلنا على كثير من عباده المؤمنين
And We had certainly given to David and Solomon knowledge, and they said, "Praise [is due] to Allah , who has favored us over many of His believing servants."
Aur hum ney yaqeenan dawood aur suleman ko ilm dey rakha thaaur dono ney kaha tareef uss Allah kay liye hai jiss ney humen apnay boht say eman daar bandon per fazeelat ata farmaee hai.
اور ہم داود اور سلیمان کو علم عطا کیا ۔ اور انہوں نے کہا : تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے ۔
اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا ( ف۲۱ ) اور دونوں نے کہا سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت بخشی ( ف۲۲ )
﴿دوسری طرف﴾ ہم نے داؤد ( علیہ السلام ) و سلیمان ( علیہ السلام ) کو علم عطا کیا 18 اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی ۔ 19
اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان ( علیہما السلام ) کو ( غیر معمولی ) علم عطا کیا ، اور دونوں نے کہا کہ ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے
سورة النمل حاشیہ نمبر :18 یعنی حقیقت کا علم ۔ اس بات کا علم کہ درحقیقت ان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے اللہ کا عطیہ ہے اور اس پر تصرف کرنے کے جو اختیارات بھی ان کو بخشے گئے ہیں انہیں اللہ ہی کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے ، اور اس اختیار کے صحیح و غلط استعمال پر انہیں مالک حقیقی کے حضور جواب دہی کرنی ہے ، یہ علم اس جہالت کی ضد ہے جس میں فرعون مبتلا تھا ، اس جہالت نے جو سیرت تعمیر کی تھی اس کا نمونہ وپر مذکور ہوا ، اب بتایا جاتا ہے کہ یہ علم کیسی سیرت کا نمونہ تیار کرتاہے ، بادشاہی ، دولت ، حشمت ، طاقت ، دونوں طرف یکساں ہے ، فرعون کو بھی یہ ملی تھی اور داؤد و سلیمان علیہما السلام کو بھی ۔ لیکن جہالت اور علم کے فرق نے ان کے درمیان کتنا عظیم الشان فرق پیدا کردیا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :19 یعنی دوسرے مومن بندے بھی ایسے موجود تھے جن کو خلافت عطا کی جاسکتی تھی ، لیکن یہ ہماری کو٤ی ذاتی خوبی نہیں بلکہ محض اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس مملکت کی فرمانروائی کے لیے منتخب فرمایا ۔
حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیھما السلام پر خصوصی انعامات ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کی خبر دے رہا ہے جو اس نے اپنے بندے اور نبی حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہ السلام پر فرمائی تھیں کہ کس طرح دونوں جہان کی دولت سے انہیں مالا مال فرمایا ۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہی اپنے شکرئیے کی بھی توفیق دی تھی ۔ دونوں باپ بیٹے ہر وقت اللہ کی نعمتوں پر اس کی شکر گزاری کیا کرتے تھے اور اس کی تعریفیں بیان کرتے رہتے تھے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ جو نعمتیں دے اور ان پر وہ اللہ کی حمد کرے تو اس کی حمد ان نعمتوں سے بہت افضل ہے دیکھو خود کتاب اللہ میں یہ نکتہ موجود ہے پھر آپ نے یہی آیت لکھ کر لکھا کہ ان دونوں پیغمبروں کو جو نعمت دی گئی تھی اس سے افضل نعمت کیا ہوگی ۔ حضرت داؤد کے وارث حضرت سلیمان ہوئے اس سے مراد مال کی وراثت نہیں بلکہ ملک ونبوت کی وراثت ہے ۔ اگر مالی میراث مراد ہوتی تو اس میں صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کا نام نہ آتا کیونکہ حضرت داؤد کی سو بیویاں تھیں ۔ انبیاء کی مال کی میراث نہیں بٹتی ۔ چنانچہ سید الانبیاء علیہ السلام کا ارشاد ہے ہم جماعت انبیاء ہیں ہمارے ورثے نہیں بٹا کرتے ہم جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہے حضرت سلیمان اللہ کی نعمتیں یاد کرتے فرماتے ہیں یہ پورا ملک اور یہ زبردست طاقت کہ انسان جن پرند سب تابع فرمان ہیں پرندوں کی زبان بھی سمجھ لیتے ہیں یہ خاص اللہ کا فضل وکرم ہے ۔ جو کسی انسان پر نہیں ہوا ۔ بعض جاہلوں نے کہا ہے کہ اس وقت پرند بھی انسانی زبان بولتے تھے ۔ یہ محض ان کی بےعلمی ہے بھلا سمجھو تو سہی اگر واقعی یہی بات ہوتی تو پھر اس میں حضرت سلیمان کی خصوصیت ہی کیا تھی جسے آپ اس فخر سے بیان فرماتے کہ ہمیں پرندوں کی زبان سکھا دی گئی پھر تو ہر شخص پرند کی بولی سمجھتا اور حضرت سلیمان کی خصوصیت جاتی رہتی ۔ یہ محض غلط ہے پرند اور حیوانات ہمیشہ سے ہی ایسے ہی رہے ان کی بولیاں بھی ایسی ہی رہیں ۔ یہ خاص اللہ کا فضل تھا کہ حضرت سلیمان ہر چرند پرند کی زبان سمجھتے تھے ۔ ساتھ ہی یہ نعمت بھی حاصل ہوئی تھی ۔ کہ ایک بادشاہت میں جن جن چیزوں کی ضروت ہوتی ہے سب حضرت سلیمان علیہ السلام کو قدرت نے مہیا کردی تھیں ۔ یہ تھا اللہ کا کھلا احسان آپ پر ۔ مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام بہت ہی غیرت والے تھے جب آپ گھر سے باہر جاتے تو دروازے بند کر جاتے پھر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی ایک مرتبہ آپ اسی طرح باہر تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک بیوی صاحبہ کی نظر اٹھی تو دیکھتی ہیں کہ گھر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کھڑے ہیں حیران ہوگئیں اور دوسروں کو دکھایا ۔ آپس میں سب کہنے لگیں یہ کہاں سے آگئے؟ دروازے بند ہیں یہ کہاں سے آگئے ؟ اس نے جواب دیا وہ جسے کوئی روک اور دروازہ روک نہ سکے وہ کسی بڑے سے بڑے کی مطلق پرواہ نہ کرے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام سمجھ گئے اور فرمانے لگے مرحبا مرحبا آپ ملک الموت ہیں اسی وقت ملک الموت نے آپ کی روح قبض کی ۔ سورج نکل آیا اور آپ پر دھوپ آگئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت داؤد پر سایہ کریں انہوں نے اپنے پر کھول کر ایسی گہری چھاؤں کردی کہ زمین پر اندھیرا سا چھا گیا پھر حکم دیا کہ ایک ایک کرکے اپنے سب پروں کو سمیٹ لو ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرندوں نے پھر پر کیسے سمیٹے؟ آپ نے فرمایا اپنا ہاتھ سمیٹ کر بتلایا کہ اس طرح ۔ اس پر اس دن سرخ رنگ گدھ غالب آگئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر جمع ہوا جس میں انسان جن پرند سب تھے ۔ آپ سے قریب انسان تھے پھر جن تھے پرند آپ کے سروں پر رہتے تھے ۔ گرمیوں میں سایہ کرلیتے تھے ۔ سب اپنے اپنے مرتبے پر قائم تھے ۔ جس کی جو جگہ مقررر تھی وہ وہیں رہتا ۔ جب ان لشکروں کو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام چلے ۔ ایک جنگل پر گذر ہوا جہاں چیونٹیوں کا لشکر تھا ۔ لشکر سلیمان کو دیکھ کر ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہاکہ جاؤ اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر سلیمان چلتا ہوا تمہیں روند ڈالے اور انہیں علم بھی نہ ہو ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اس چیونٹی کا نام حرمس تھا یہ بنو شعبان کے قبیلے سے تھی ۔ تھی بھی لنگڑی بقدر بھیڑیئے کے اسے خوف ہوا کہیں سب روندی جائیں گی اور پس جائیگی یہ سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام کو تبسم بلکہ ہنسی آگئی اور اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے اپنی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا الہام کر جو تونے مجھ پر انعام کی ہیں مثلا پرندوں اور حیوانوں کی زبان سکھا دینا وغیرہ ۔ نیز جو نعمتیں تونے میرے والدین پر انعام کی ہیں کہ وہ مسلمان مومن ہوئے وغیرہ ۔ اور مجھے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جن سے تو خوش ہوا اور جب میری موت آجائے تو مجھے اپنے نیک بندوں اور بلند رفقاء میں ملادے جو تیے دوست ہیں ۔ مفسین کا قول ہے کہ یہ وادی شام میں تھی ۔ بعض اور جگہ بتاتے ہیں ۔ یہ جیونٹی مثل مکھوں کے پردار تھی ۔ اور بھی اقوال ہیں نوف بکالی کہتے ہیں یہ بھیڑئیے کے برابر تھی ۔ ممکن ہے اصل میں لفظ ذباب ہو یعنی مکھی کے برابر اور کاتب کی غلطی وہ ذیاب لکھ دیا گیا ہو یعنی بھیڑیا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ جانوروں کی بولیاں سمجھتے تھے اس کی بات کو بھی سمجھ گئے اور بے اختیار ہنسی آگئی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام بن داؤد علیہ السلام استسقاء کے لئے نکلے تو دیکھا کہ ایک چیونٹی الٹی لیٹی ہوئی اپنے پاؤں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دعا کر رہی ہے کہ اے اللہ ہم بھی تیری مخلوق ہیں پانی برسنے کی محتاجی ہمیں بھی ہے ۔ اگر پانی نہ برسا تو ہم ہلاک ہوجائیں گے یہ دعا اس چیونٹی کی سن کر آپ نے لوگوں میں اعلان کیا لوٹ چلو کسی اور ہی کی دعا سے تم پانی پلائے گئے ۔ حضور فرماتے ہیں نبیوں میں سے کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا انہوں نے چیونٹیوں کے سوراخ میں آگ لگانے کا حکم دے دیا اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ اے پیغمبر محض ایک چونٹی کے کاٹنے پر تو نے ایک گروہ کے گروہ کو جو ہماری تسبیح خواں تھا ۔ ہلاک کردیا ۔ تجھے بدلہ لینا تھا تو اسی سے لیتا ۔