Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَجَحَدُوۡا بِهَا وَاسۡتَيۡقَنَـتۡهَاۤ اَنۡفُسُهُمۡ ظُلۡمًا وَّعُلُوًّا‌ ؕ فَانْظُرۡ كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿14﴾
انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا ۔
و جحدوا بها و استيقنتها انفسهم ظلما و علوا فانظر كيف كان عاقبة المفسدين
And they rejected them, while their [inner] selves were convinced thereof, out of injustice and haughtiness. So see how was the end of the corrupters.
Unhon ney inkar ker diya halankay unn kay dil yaqeen ker chukay thay sirf zulm aur takabbur ki bina per. Pus dekh lijiye kay inn fitna perdaaz logon ka anjam kaisa kuch hua.
اور اگرچہ ان کے دلوں کو ان ( کی سچائی ) کا یقین ہوچکا تھا ، مگر انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان ان کا انکار کیا ۔ اب دیکھ لو ان فساد مچانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟ ( ٦ ) ۔
اور ان کے منکر ہوئے اور ان کے دلوں میں ان کا یقین تھا ( ف۱۹ ) ظلم اور تکبر سے تو دیکھو کیسا انجام ہوا فسادیوں کا ( ف۲۰ )
انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے ۔ 17 اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا ۔ ؏١
اور انہوں نے ظلم اور تکبّر کے طور پر ان کا سراسر انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل ان ( نشانیوں کے حق ہونے ) کا یقین کر چکے تھے ۔ پس آپ دیکھئے کہ فساد بپا کرنے والوں کا کیسا ( بُرا ) انجام ہوا
سورة النمل حاشیہ نمبر :17 قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ جب موسی علیہ اللام کے اعلان کے مطابق کوئی بلائے عام مصڑ پر نازل ہوتی تھی تو فرعون حضرت موسی سے کہتا تھا کہ تم اپنے خدا سے دعا کر کے اس بلا کو ٹلوا دو ، پھر جو کچھ تم کہتے ہو وہ ہم مان لیں گے ، مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی اسی ہٹ دھرمی پر تل جاتا تھا ( الاعراف ، آیت 134 ، الزخرف ، آیت 50 ، 49 ) بائیبل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے ( خروج ، باب 8 تا 10 ) اور ویسے بھی یہ بات کسی طرح تصور میں نہ آسکتی تھی کہ ایک پورے ملک پر قحط اور طوفان اور ٹڈی دلوں کا ٹوٹ پڑنا اور مینڈکوں اور سرسریوں کے بے شمار لشکروں کا امڈ آنا کسی جادو کا کرشہ ہوسکتا ہے ، یہ ایسے کھلے ہوئے معجزے تھے جن کو دیکھ کر ایک بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی یہ سمجھ سکتا تھا کہ پیغمبر کے کہنے پر ایسی ملک یر بلاؤں کا آنا اور پھر اس کے کہنے پر پر ان کا دور ہوجانا صرف اللہ رب العالمین ہی کے تصرف کا نتیجہ ہوسکتا ہے ۔ اسی بنا پر حضرت موسی نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ تو خوب جان چکا ہے کہ یہ نشانیاں مالک زمین و آسمان کے سوا کسی اور نے نازل نہیں کی ہیں ۔ ( بنی اسرائیل ، اایت 1002 ) لیکن جس وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کے س رداروں نے جان بوجھ کر ان کا انکار کیا وہ یہ تھی کہ اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے؟ ( المومنون ، آیت 47 )