Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَحُشِرَ لِسُلَيۡمٰنَ جُنُوۡدُهٗ مِنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ وَالطَّيۡرِ فَهُمۡ يُوۡزَعُوۡنَ‏ ﴿17﴾
سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کئے گئے ( ہر ہر قسم ) کی الگ الگ درجہ بندی کردی گئی ۔
و حشر لسليمن جنوده من الجن و الانس و الطير فهم يوزعون
And gathered for Solomon were his soldiers of the jinn and men and birds, and they were [marching] in rows.
Suleman kay samney unn kay tamam lashkar jinnaat aur insan aur perind mein say jama kiye gaye ( her her qisam ki ) alag alag darja bandi kerdi gaee.
اور سلیمان کے لیے ان کے سارے لشکر جمع کردیے گئے تھے جو جنات ، انسانوں اور پرندوں پر مشتمل تھے ، چنانچہ انہیں قابو میں رکھا جاتا تھا ۔ ( ٩ )
اور جمع کیے گئے سلیمان کے لیے اس کے لشکر جنوں اور آدمیوں اور پرندوں سے تو وہ روکے جاتے تھے ( ف۲٦ )
سلیمان ( علیہ السلام ) کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے 23 اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے ۔
اور سلیمان ( علیہ السلام ) کے لئے ان کے لشکر جنّوں اور انسانوں اور پرندوں ( کی تمام جنسوں ) میں سے جمع کئے گئے تھے ، چنانچہ وہ بغرضِ نظم و تربیت ( ان کی خدمت میں ) روکے جاتے تھے
سورة النمل حاشیہ نمبر : 23 بائیبل میں اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ جن حضرت سلیمان کے لشکروں میں شامل تھے اور وہ ان سے خدمت لیتے تھے ، لیکن تلمود اور تبیوں کی روایات میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے ( جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد 11 صفحہ 440 ) موجودہ زمانہ کے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ جن اور طیر سے مراد جنات اور پرندے نہیں ہیں بلکہ انسان ہی ہیں جو حضرت سلیمان کے لشکر میں مختلف کام کرتے تھے ، وہ کہتے ہیں کہ جن سے مراد پہاڑی قبائل کے وہ ولگ ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے مسخر کیا تھا اور وہ ان کے ہاں حیرت انگیز طاقت اور محنت کے کام کرتے تھے ، اور طیر سے مراد گھوڑ سواروں کے دستے ہیں جو پیدل دستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تیزی سے نقل و حرکت کرتے تھے ۔ لیکن یہ قرآن مجید میں بے جا تاویل کی بدترین مثالیں ہیں ، قرآن یہاں جن ، انس اور طیر ، تین الگ الگ اقسام کے لشکر بیان کر رہا ہے اور تینوں پر الف ل تعریف جنس کے لیے لایا گیا ہے ، اس لیے لا محالہ الجن اور الطیر الانس میں شامل نہیں ہوسکے بلکہ وہ اس سے مختلف دو الگ اجناس ہی ہوسکتی ہیں ۔ علاوہ بریں کوئی شخص جو عربی زبان سے ذرہ برابر بھی واقفیت رکھتا ہو یہ تصور نہیں کرسکتا کہ اس زبان میں محض لفظ الجن بول کو انسانوں کا کوئی گروہ یا محض الطیر بول کر سواروں کا رسالہ کبھی مراد لیا جاسکتا ہے اور کوئی عرب ان الفاظ کو سن کر ان کے یہ معنی سمجھ سکتا ہے ، محض محاورے میں کسی انسان کو اس کے فوق العادۃ کام کی وجہ سے جن یا کسی عورت کو اس کے حسن کی وجہ سے پری ، اور کسی تیز رفتار انسان ہی کے ہوجائیں ، ان الفاظ کے یہ معنی تو مجازی ہیں نہ کہ حقیقی ، اور کسی کلام میں کسی لفظ کو حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنوں میں صرف اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے ، اور سننے والے بھی ان کو مجازی معنوں میں صرف اسی وقت لے سکتے ہیں جبکہ آس پاس کوئی واضح قرینہ ایسا موجود ہو جو اس کے مجاز ہونے پر دلالت کرتا ہو ۔ یہاں آخر کون سا قرینہ پایا جاتا ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ جن اور طیر کے الفاظ اپنے حقیقی لغوی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال کیے گئے ہیں؟ بلکہ آگے ان دونوں گروہوں کے ایک ایک فرد کا جو حال اور کام بیان کیا گیا ہے وہ تو اس تاویل کے بالکل خلاف معنی پر صریح دلالت کررہا ہے ۔ کسی شخص کا دل اگر قرآن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہتا ہو تو اسے صاف کہنا چاہیے کہ میں اس بات کو نہیں مانتا ۔ لیکن یہ بڑی اخلاقی بزدلی اور علمی خیانت ہے کہ آدمی قرآن کے صاف صاف الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے من مانے معنی پر ڈھالے اور یہ ظاہر ہے کہ وہ قرآن کے بیان کو مانتا ہے حالانکہ دراصل قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اسے نہیں بلکہ خود اپنے زبردستی گھڑے ہوئے مفہوم کو مانتا ہے ۔