Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنۡ قَوۡلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًـا تَرۡضٰٮهُ وَاَدۡخِلۡنِىۡ بِرَحۡمَتِكَ فِىۡ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿19﴾
اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے ۔
فتبسم ضاحكا من قولها و قال رب اوزعني ان اشكر نعمتك التي انعمت علي و على والدي و ان اعمل صالحا ترضىه و ادخلني برحمتك في عبادك الصلحين
So [Solomon] smiled, amused at her speech, and said, "My Lord, enable me to be grateful for Your favor which You have bestowed upon me and upon my parents and to do righteousness of which You approve. And admit me by Your mercy into [the ranks of] Your righteous servants."
Uss ki iss baat per suleman muskura ker hans diye aur dua kerney lagay kay aey perwerdigaar! Tu mujhay tofiq dey kay mein teri inn nematon ka shukar baja laaon jo tu ney mujh per inam ki hain aur meray maa baap per aur mein aisay nek amal kerta rahon jin say tu khush rahey mujhay apni rehmat say nek bandon mein shamil kerlay.
اس کی بات پر سلیمان مسکرا کر ہنسے ، اور کہنے لگے : میرے پر ورگار ! مجھے اس بات کا پابند بنا دیجیے کہ میں ان نعمتوں کا شکر اداکروں جو آپ نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائی ہیں ، اور وہ نیک عمل کروں جو آپ کو پسند ہو ، اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل فرمالیجیے ۔
تو اس کی بات مسکرا کر ہنسا ( ف۳۰ ) اور عرض کی اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں شکر کروں تیرے احسان کا جو تو نے ( ف۳۱ ) مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے اور یہ کہ میں وہ بھلا کام کروں جو تجھے پسند آئے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے قرب خاص کے سزاوار ہیں ( ف۳۲ )
” سلیمان ( علیہ السلام ) اس کی بات پر مسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ” اے میرے رب ، مجھے قابو میں 25 رکھ کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر ۔ ”26
تو وہ ( یعنی سلیمان علیہ السلام ) اس ( چیونٹی ) کی بات سے ہنسی کے ساتھ مسکرائے اور عرض کیا: اے پروردگار! مجھے اپنی توفیق سے اس بات پر قائم رکھ کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام فرمائی ہے اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو راضی ہوتا ہے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے خاص قرب والے نیکوکار بندوں میں داخل فرما لے
سورة النمل حاشیہ نمبر : 25 اصل الفاظ ہیں رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ ۔ وزع کے اصل معنی عربی زبان میں روکنے کے ہیں ، اس موقع پر حضرت سلیمان کا یہ کہنا کہ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ( مجھے روک کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں ) ہمارے نزدیک دراصل یہ معنی دیتا ہے کہ اے میرے رب جو عظیم الشان قوتیں اور قابلیتیں تونے مجھے دی ہیں وہ ایسی ہیں کہ اگر میں ذرا سی غفلت میں بھی مبتلا ہوجاؤں تو حد بندگی سے خارج ہوکر اپنی کبریائی کے خبط میں نہ معلوم کہاں سے کہاں نکل جاؤں ، اس لیے اسے میرے پروردگار تو مجھے قابو میں رکھ تاکہ میں کافر نعمت بننے کے بجائے شکر نعمت پر قائم رہوں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 26 صالح بندوں میں داخل کرنے سے مراد غالبا یہ ہے کہ آخرت میں میرا انجام صالح بندوں کے ساتھ ہو اور میں ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں ۔ اس لیے کہ آدمی جب عمل صالح کرے گا تو صالح تو وہ آپ سے آپ ہوگا ہی ، البتہ آخعرت میں کسی کا جنت میں داخل ہونا محض اس کے عمل صالح کے بل بوتے پر نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اللہ کی رحمت پر موقوف ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لن یدخل احکم الجنۃ عملہ تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں پہنچاوے گا ۔ عرض کیا گیا کہ ولا انت یا رسول اللہ کیا حضور کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ؟ فرمایا ولا انا الا ان یتغمد فی اللہ تعالی برحمتہ ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک اللہ تعالی اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے ۔ حضرت سلیمان کی یہ دعا اس موقع پر بالکل بے محل ہوجاتی ہے اگر النمل سے مراد انسانوں کا کوئی قبیلہ لے لیا جائے اور نملۃ کے معنی قبیلہ نمل کے ایک فرد کے لے لیے جائیں ، ایک بادشاہ کے لشکر جرار سے ڈر کر کسی انسانی قبیلہ کے ایک فرد کا اپنے قبیلے کو خطرہ سے خبردار کرنا آخر کون سی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ وہ جلیل القدر بادشاہ اس پر خدا سے یہ دعا کرنے لگے ۔ البتہ ایک شخص کو اتنی زبردست قوت ادراک حاصل ہونا کہ وہ دور سے ایک چیونٹی کی آواز بھی سن لے اور اس کا مطلب سمجھ جائے ضرور ایسی بات ہے جس سے آدمی کے غرور نفس میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو ۔ اسی صورت میں حضرت سلیمان کی یہ دعا بر محل ہوسکتی ہے ۔