Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَمَكَثَ غَيۡرَ بَعِيۡدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمۡ تُحِطۡ بِهٖ وَ جِئۡتُكَ مِنۡ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيۡنٍ‏ ﴿22﴾
کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آکر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر لایا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں ، میں سبا کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں ۔
فمكث غير بعيد فقال احطت بما لم تحط به و جتك من سبا بنبا يقين
But the hoopoe stayed not long and said, "I have encompassed [in knowledge] that which you have not encompassed, and I have come to you from Sheba with certain news.
Kuch ziyada dare na guzri thi kay aaker uss ney kaha mein aik aisi cheez ki khabar laya hun kay tujhay uss ki khabar hi nahi mein saba ki aik sachi khabar teray pass laya hun.
پھر ہدہد نے زیادہ دیر نہیں لگائی اور ( آکر ) کہا کہ : میں نے ایسی معلومات حاصل کی ہیں جن کا آپ کو علم نہیں ہے ، اور میں ملک سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں ۔ ( ١٠ )
تو ہدہد کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہرا اور آکر ( ف۳۵ ) عرض کی کہ میں وہ بات دیکھ کر آیا ہوں جو حضور نے نہ دیکھی اور میں شہر سبا سے حضور کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں ،
” کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اس نے آکر کہا ” میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں ۔ میں سبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں ۔ 29
پس وہ تھوڑی ہی دیر ( باہر ) ٹھہرا تھا کہ اس نے ( حاضر ہو کر ) عرض کیا: مجھے ایک ایسی بات معلوم ہوئی ہے جس پر ( شاید ) آپ مطلع نہ تھے اور میں آپ کے پاس ( ملکِ ) سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں
سورة النمل حاشیہ نمبر :29 سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دار الحکومت مارب موجودہ یمن کے دار السلطنت صنعاء سے 55 میل بجانب شمال مشرق واقع تھا ۔ اس کا زمانہ عروج معین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریبا 1100 ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال تک یہ عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی ، پھر 115 ق م میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی ، عرب میں یمن اور حضر موت ، اور افریقہ میں حبش کے عالقے پر اس کا قبضہ تھا ، مشرقی افریقہ ، ہندوستان ، مشرق بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر و شام اور یونان و روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ زیادہ تر انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھی ۔ اسی وجہ سے یہ قوم قدیم زمانہ میں اپنی دولت کے لیے نہایت مشہور تھی ، بلکہ یونانی مورخین تو اسے دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کہتے ہیں تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظام آب پاشی قائم کر رکھا تھا ، جس سے ان کا پورا علاقہ جنت بنا ہوا تھا ، ان کے ملک کی اس غیر معمولی سرسبزی و شادابی کا ذکر یونانی مورخین نے بھی کیا ہے اور سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ ہدہد کا یہ بیان کہ میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں ۔ یہ معنی نہیں رکھتا کہ حضرت سلیمان سبا سے بالکل ناواقف تھے ، ظاہر ہے کہ فلسطین و شام کے جس فرمانروا کی سلطنت بحر احمر کے شمالی کنارے ( خلیج عقبہ ) تک پہنچی ہوئی تھی وہ اسی بحر احمر کے جنوبی کنارے ( یمن ) کی ایک ایسی قوم سے ناواقف نہ ہوسکتا تھا جو بین الاقوامی تجارت کے ایک اہم حصے پر قابض تھی ، علاوہ ازیں زبور سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان سے بھی پہلے ان کے والد ماجد حضرت داؤد سبا سے واقف تھے ، ان کی دعا کے یہ الفاظ زبور میں ہمیں ملتے ہیں: اے خدا ، بادشاہ ( یعنی خود حضرت داؤد ) کو اپنے احکام اور شاہزادے ( یعنی حضرت سلیمان ) کو اپنی صداقت عطا فرما ۔ ترسیس اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گھزاریں گے ، سبا اور شیبا ( یعنی سبا کی یمنی اور حبشی شاخوں ) کے بادشاہ ہدیے لائیں گے ۔ ( 72 ۔ 1 ۔ 2 و 1 ۔ 11 ) اس لیے ہدہد کے قول کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم سبا کے مرکز میں جو چشم دید حالات میں دیکھ کر آیا ہوں وہ ابھی تک آپ کو نہیں پہنچے ہیں ۔
ہدہد کی غیر حاضری ہدہد کی غیر حاضری کی تھوڑی سی دیر گزری تھی جو وہ آگیا ۔ اس نے کہا کہ اے نبی اللہ جس بات کی آپ کو خبر بھی نہیں میں اس کی ایک نئی خبر لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں ۔ میں سبا سے آرہا ہوں اور پختہ یقینی خبر لایا ہوں ۔ ان کے سباحمیر تھے اور یہ یمن کے بادشاہ تھے ۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے اس کا نام بلقیس بنت شرجیل تھا یہ سب کی ملکہ تھی ۔ قتادہ کہتے ہیں ۔ اس کی ماں جنیہ عورت تھی اس کے قدم کا پچھلا حصہ چوپائے کے کھر جیسا تھا اور روایت میں ہے اس کی ماں کا نام رفاعہ تھا ابن جریج کہتے ہیں ان کے باپ کا نام ذی سرخ تھا اور ماں کا نام بلتعہ تھا لاکھوں کا اس کا لشکر تھا ۔ اس کی بادشاہی ایک عورت کے ہاتھ میں ہے اسکے مشیر وزیر تین سو بارہ شخص ہیں ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ ہزار کی جمعیت ہے اس کی زمین کا نام مارب ہے یہ صنعاء سے تین میل کے فاصلہ پر ہے یہی قول قرین قیاس ہے اس کا اکثر حصہ مملکت یمن ہے واللہ اعلم ہر قسم کا دنیوی ضروری اسباب اسے مہیا ہے اس کا نہایت ہی شاندار تخت ہے جس پر وہ جلوس کرتی ہے ۔ سونے سے منڈھا ہوا ہے اور جڑاؤ اور مروارید کی کاریگری اس پر ہوئی ہے ۔ یہ اسی ہاتھ اونچا اور چالیس ہاتھ چوڑا تھا ۔ چھ سو عورتیں ہر وقت اس کی خدمت میں کمر بستہ رہتی تھیں اس کا دیوان خاص جس میں یہ تخت تھے بہت بڑا محل تھا بلند وبالاکشادہ اور فراخ پختہ مضبوط اور صاف جس کے مشرقی حصہ میں تین سو ساٹھ طاق تھے اور اتنے ہی مغربی حصے میں ۔ اسے اس صنعت سے بنایا تھا کہ ہر دن سورج ایک طاق سے نکلتا اور اسی کے مقابلہ کے طاق سے غروب ہوتا ۔ اہل دربار صبح وشام اس کو سجدہ کرتے ۔ راجا پر جا سب آفتاب پرست تھے اللہ کا عابد ان میں ایک بھی نہ تھا شیطان نے برائیاں انہیں اچھی کر دکھائی تھیں اور ان پر حق کا راستہ بند کر رکھا تھا وہ راہ راست پر آتے ہی نہ تھے ۔ راہ راست یہ ہے کہ سورج چاند اور ستاروں کی بجائے صرف اللہ ہی کی ذات کو سجدے کے لائق مانا جائے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے کہ رات دن سورج چاند سب قدرت اللہ کی نشانیاں ہیں ۔ تمہیں سورج چاند کو سجدہ نہ کرنا چاہئے سجدہ صرف اسی اللہ کو کرنا چاہئے جو ان سب کا خالق ہے ۔ آیت ( الا یسجدوا ) کی ایک قرأت ( الایا اسجدوا ) بھی ہے ۔ یا کہ بعد کامنادیٰ محذوف ہے یعنی اے میری قوم خبردار سجدہ اللہ ہی کے لئے کرنا جو آسمان کی زمین کی ہر ہرپوشیدہ چیز سے باخبر ہے ۔ خب کی تفسیر پانی اور بارش اور پیداوار سے بھی کی گئی ہے ۔ کیا عجب کہ ہدہد کی جس میں یہی صفت تھی یہی مراد ہو ۔ اور تمہارے ہر مخفی اور ظاہر کام کو بھی وہ جانتا ہے ۔ کھلی چھپی بات اس پر یکساں ہے وہی تنہا معبود برحق ہے وہی عرش عظیم کا رب ہے جس سے بڑی کوئی چیز نہیں ۔ چونکہ ہدہد خیر کی طرف بلانے والا ایک اللہ کی عبادت کا حکم دینے وال اس کے سوا غیر کے سجدے سے روکنے والا تھا اسی لئے اس کے قتل کی ممانعت کر دی گئی ۔ مسند احمد ابو داؤد ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں کا قتل منع فرمادیا ۔ چیونٹی شہد کی مکھی ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ۔