Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَلَمَّا جَآءَتۡ قِيۡلَ اَهٰكَذَا عَرۡشُكِ‌ؕ قَالَتۡ كَاَنَّهٗ هُوَ‌ۚ وَاُوۡتِيۡنَا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِهَا وَ كُنَّا مُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿42﴾
پھر جب وہ آگئی تو اس سے کہا ( دریافت کیا ) گیا کہ ایسا ہی تیرا ( بھی ) تخت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ گویا وہی ہے ہمیں اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے ۔
فلما جاءت قيل اهكذا عرشك قالت كانه هو و اوتينا العلم من قبلها و كنا مسلمين
So when she arrived, it was said [to her], "Is your throne like this?" She said, "[It is] as though it was it." [Solomon said], "And we were given knowledge before her, and we have been Muslims [in submission to Allah ].
Phir jab woh aagaee to uss say kaha ( daryaft kiya ) gaya kay aisa hi tera ( bhi ) takht hai? Uss ney jawab diya kay yeh goya wohi hai humen iss say pehlay hi ilm diya gaya tha aur hum musalman thay.
غرض جب وہ آئی تو اس سے پوچھا گیا : کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے؟ کہنے لگی : ایسا لگتا ہے کہ یہ تو بالکل وہی ہے ۔ ( ١٦ ) ہمیں تو اس سے پہلے ہی ( آپ کی سچائی کا ) علم عطا ہوگیا تھا ، اور ہم سر جھکا چکے تھے ۔ ( ١٧ )
پھر جب وہ آئی اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ، بولی گویا یہ وہی ہے ( ف٦۵ ) اور ہم کو اس واقعہ سے پہلے خبر مل چکی ( ف٦٦ ) اور ہم فرمانبردار ہوئے ( ف٦۷ )
ملکہ جب حاضر ہوئی تو اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ وہ کہنے لگی ” یہ تو گویا وہی ہے ۔ 52 ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم نے سر اطاعت جھکا دیا تھا ۔ ( یا ہم مسلم ہو چکے تھے ) ۔ ” 53
پھر جب وہ ( ملکہ ) آئی تو اس سے کہا گیا: کیا تمہارا تخت اسی طرح کا ہے ، وہ کہنے لگی: گویا یہ وہی ہے اور ہمیں اس سے پہلے ہی ( نبوتِ سلیمان کے حق ہونے کا ) علم ہو چکا تھا اور ہم مسلمان ہو چکے ہیں
سورة النمل حاشیہ نمبر : 52 اس سے ان لوگوں کے خیالات کی بھی تردید ہوجاتی ہے جنہوں نے صورت واقعہ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ گویا حضرت سلیمان اپنی مہمان ملکہ کے لیے ایک تخت بنوانا چاہتے تھے ، اس غرض کے لیے انہوں نے ٹینڈر طلب کیے ، ایک ہٹے کٹے کاریگر نے کچھ زیادہ مدت میں تخت بنا دینے کی پیش کش کی ، مگر ایک دوسرے ماہر استاد نے کہا میں ترت پھرت بنائے دیتا ہوں ، اس سارے نقشے کا تارو پود اس بات سے بکھر جاتا ہے کہ حضرت سلیمان نے خود ملکہ ہی کا تخت لانے کے لیے فرمایا تھا ( اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا ) اور اس کی آمد پر اپنے ملازموں کو اسی کا تخت انجام طریقے سے اس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا ( نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا ) پھر جب وہ آئ تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ( اَهٰكَذَا عَرْشُكِ ) اور اس نے کہا گویا یہ وہی ہے ( كَاَنَّهٗ هُوَ ) اس صاف بیان کی موجودگی میں ان لا طائل تاویلات کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ، اس پر بھی کسی کو شک رہے تو بعد کا فقرہ اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 53 یعنی یہ معجزہ دیکھنے سے پہلے ہی سلیمان علیہ السلام کے جو اوصاف اور حالات ہمیں معلوم ہوچکے تھے ان کی بنا پر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ اللہ کے نبی ہیں ، محض ایک سلطنت کے فرمانروا نہیں ہیں ، تخت کو دیکھنے اور گویا یہ وہی ہے کہنے کے بعد اس فقرے کا اضافہ کرنے میں آخر کیا معنویت باقی رہ جاتی ہے ، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت سلیمان نے اس کے لیے ایک تخت بنوا کر رکھ دیا تھا ؟ بالفرض اگر وہ تخت ملکہ کے تخت سے مشابہ ہی تیار کرا لیا گیا ہو تب بھی اس میں آخر وہ کیا کمال ہوسکتا تھا کہ ایک آفتاب پرست ملکہ اسے دیکھ کر یہ بول اٹھتی کہ ( اُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ ) ہم کو پہلے ہی علم نصیب ہوگیا تھا اور ہم مسلم ہوچکے تھے ۔