Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
تُوۡلِجُ الَّيۡلَ فِى النَّهَارِ وَتُوۡلِجُ النَّهَارَ فِى الَّيۡلِ‌ وَتُخۡرِجُ الۡحَـىَّ مِنَ الۡمَيِّتِ وَتُخۡرِجُ الۡمَيِّتَ مِنَ الۡحَـىِّ‌ وَتَرۡزُقُ مَنۡ تَشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ‏ ﴿27﴾
تُو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں لے جاتا ہےتُو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تُوہی جاندار سے بےجان پیدا کرتا ہے تُو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے شمار روزی دیتا ہے ۔
تولج اليل في النهار و تولج النهار في اليل و تخرج الحي من الميت و تخرج الميت من الحي و ترزق من تشاء بغير حساب
You cause the night to enter the day, and You cause the day to enter the night; and You bring the living out of the dead, and You bring the dead out of the living. And You give provision to whom You will without account."
Tu hi raat ko din mein dakhil kerta hai aur din ko raat mein ley jata hai tu hi bey jaan say jaandar peda kerta hai aur tu jaandar say bey jaan peda kerta hai tu hi hai kay jissay chahata hai bey shumar rozi deta hai.
تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ ( ٧ ) اور تو ہی بے جان چیز میں سے جاندار کو برآمد کرلیتا ہے اور جاندار میں سے بے جان چیز نکال لاتا ہے ، ( ٨ ) اور جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے ۔
تو دن کا حصّہ رات میں ڈالے اور رات کا حصہ دن میں ڈالے ( ف۵۸ ) اور مردہ سے زندہ نکالے اور زندہ سے مردہ نکالے ( ف۵۹ ) اور جسے چاہے بےگنتی دے ،
رات کو دن میں پِروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ۔ جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو ۔ اور جسے چاہتا ہے ، بے حساب رزق دیتا ہے ۔ 24
تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تُو ہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اورمُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے ( اپنی نوازشات سے ) بہرہ اندوز کرتا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :24 جب انسان ایک طرف کافروں اور نافرمانوں کے کرتوت دیکھتا ہے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں کس طرح پھل پھول رہے ہیں ، دوسری طرف اہل ایمان کی اطاعت شعاریاں دیکھتا ہے اور پھر ان کو اس فقر و فاقہ اور ان مصائب و آلام کا شکار دیکھتا ہے ، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام سن ۳ ہجری اور اس کے لگ بھگ زمانے میں مبتلا تھے ، تو قدرتی طور پر اس کے دل میں ایک عجیب حسرت آمیز استفہام گردش کرنے لگتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس استفہام کا جواب دیا ہے اور ایسے لطیف پیرائے میں دیا ہے کہ اس سے زیادہ لطافت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔