Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰى ثَمُوۡدَ اَخَاهُمۡ صٰلِحًا اَنِ اعۡبُدُوۡا اللّٰهَ فَاِذَا هُمۡ فَرِيۡقٰنِ يَخۡتَصِمُوۡنَ‏ ﴿45﴾
یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے ۔
و لقد ارسلنا الى ثمود اخاهم صلحا ان اعبدوا الله فاذا هم فريقن يختصمون
And We had certainly sent to Thamud their brother Salih, [saying], "Worship Allah ," and at once they were two parties conflicting.
Yaqeenan hum ney samood ki taraf unn kay bhai saleh ko bheja kay tum sab Allah ki ibadat kero phir bhi woh do fareeq bann ker aapas mein larney jhagarney lagay.
اور ہم نے قوم ثمود کے پاس ان کے بھائی صالح کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو ( ٢١ ) تو اچانک وہ دوگروہ بن گئے جو آپس میں جھگڑنے لگے ۔
اور بیشک ہم نے ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا کہ اللہ کو پوجو ( ف۷٤ ) تو جبھی وہ دو گروہ ہوگئے ( ف۷۵ ) جھگڑا کرتے ( ف۷٦ )
اور ثمود 57 کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح ( علیہ السلام ) کو ﴿یہ پیغام دے کر﴾ بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو ، تو یکایک وہ دو متخاصم فریق بن گئے ۔ 58
اور بیشک ہم نے قومِ ثمود کے پاس ان کے ( قومی ) بھائی صالح ( علیہ السلام ) کو ( پیغمبر بنا کر ) بھیجا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو تو اس وقت وہ دو فرقے ہو گئے جو آپس میں جھگڑتے تھے
سورة النمل حاشیہ نمبر : 57 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 73 تا 79 ۔ ہود 61 تا 68 ۔ الشعراء 141 تا 159 ۔ القمر 23 تا 32 ۔ الشمس ، آیات 11 تا 15 سورة النمل حاشیہ نمبر : 58 یعنی جونہی کہ حضرت صالح کی دعوت کا آغاز ہوا ، ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا ، دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا ، اور اس تفرقہ کے ساتھ ہی ان کے درمیان کش مکش شروع ہوگئی ، جیسا کہ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے : قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭقَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ ۔ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِيْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ۔ اس کی قوم میں سے جو سردار اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے تھے انہوں نے ان لوگوں سے جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے ، جو ان سے ایمان لائے تھے ، کہا کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہے؟ انہوں نے جوابد یا ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جس کو لے کر وہ بھیجے گئے ہیں ، ان متکبرین نے کہا جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کے ہم کافر ہیں ۔ ( الاعراف ، آیات 75 ۔ 76 ) یاد رہے کہ ٹھیک یہی صورت حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ مکہ میں بھی پیدا ہوئی تھی کہ قوم دو حصوں میں بٹ گئ اور اس کے ساتھ ہی ان دونوں گروہوں میں کش مکش شروع ہوگئی ۔ اس لیے یہ قصہ آپ سے آپ ان حالات پر چسپاں ہورہا تھا جن میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔
صالح علیہ السلام کی ضدی قوم حضرت صالح علیہ السلام جب اپنی قوم ثمود کے پاس آئے اور اللہ کی رسالت ادا کرتے ہوئے انہیں دعوت توحید دی تو ان میں دو فریق بن گئے ایک جماعت مومنوں کی دوسرا گروہ کافروں کا ۔ یہ آپس میں گتھ گئے جیسے اور جگہ ہے کہ متکبروں نے عاجزوں سے کہا کہ کیا تم صالح کو رسول اللہ مانتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم کھلم کھلا ایمان لاچکے ہیں انہوں نے کہا بس تو ہم ایسے ہی کھلم کھلا کافر ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا بجائے رحمت کے عذاب مانگ رہے ہو؟ تم استغفار کرو تاکہ نزول رحمت ہو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا تو یقین ہے کہ ہماری تمام مصیبتوں کا باعث تو ہے اور تیرے ماننے والے ۔ یہی فرعونیوں نے کلیم اللہ سے کہا تھا کہ جو بھلائیاں ہمیں ملتی ہیں ان کے لائق تو ہم ہیں لیکن جو برائیاں پہنچتی ہیں وہ سب تیری اور تیرے ساتھیوں کی وجہ سے ہیں اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا 78؀ ) 4- النسآء:78 ) یعنی اگر انہیں کوئی بھلائی مل جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچ جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری جانب سے ہے تو کہہ دے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے یعنی اللہ کی قضا و قدر سے ہے ۔ سورہ یسین میں بھی کفار کا اپنے نبیوں کو یہی کہنا موجود ہے آیت ( قَالُوْٓا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ 18؀ ) 36-يس:18 ) ہم تو آپ سے بدشگونی لیتے ہیں اگر تم لوگ باز نہ رہے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور سخت دیں گے ۔ نبیوں نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو ہر وقت تمہارے وجود میں موجود ہے ۔ یہاں ہے کہ حضرت صالح نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو اللہ کے پاس ہے یعنی وہی تمہیں اس کا بدلہ دے گا ۔ بلکہ تم تو فتنے میں ڈالے ہوئے لوگ ہو تمہیں آزمایا جارہا ہے اطاعت سے بھی اور معصیت سے بھی اور باوجود تمہاری معصیت کے تمہیں ڈھیل دی جارہی ہے یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اس کے بعد پکڑے جاؤ گے ۔