Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قِيۡلَ لَهَا ادۡخُلِى الصَّرۡحَ‌ ۚ فَلَمَّا رَاَتۡهُ حَسِبَـتۡهُ لُـجَّةً وَّكَشَفَتۡ عَنۡ سَاقَيۡهَا ‌ؕ قَالَ اِنَّهٗ صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِيۡرَ ۙ‌قَالَتۡ رَبِّ اِنِّىۡ ظَلَمۡتُ نَـفۡسِىۡ وَ اَسۡلَمۡتُ مَعَ سُلَيۡمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿44﴾
اس سے کہا گیا کہ محل میں چلی چلو ، جسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ حوض ہے اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے ، کہنے لگی میرے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بنتی ہوں ۔
قيل لها ادخلي الصرح فلما راته حسبته لجة و كشفت عن ساقيها قال انه صرح ممرد من قوارير قالت رب اني ظلمت نفسي و اسلمت مع سليمن لله رب العلمين
She was told, "Enter the palace." But when she saw it, she thought it was a body of water and uncovered her shins [to wade through]. He said, "Indeed, it is a palace [whose floor is] made smooth with glass." She said, "My Lord, indeed I have wronged myself, and I submit with Solomon to Allah , Lord of the worlds."
Uss say kaha gaya kay mehal mein chali jao jissay dekh ker yeh samajh ker kay yeh hoz hai uss ney apni pindliyan khol din farmay yeh to seeshay say mundhi hui emaarat hai kehnay lagi aey meray perwerdigar! Mein ney apnay aap per zulm kiya. Abb mein suleman kay sath Allah rab-ul-aalameen ki mootiy aur farmanbardaar banti hun.
اس سے کہا گیا کہ : اس محل میں داخل ہوجاؤ ( ١٩ ) اس نے جو دیکھا تو یہ سمجھی کہ یہ پانی ہے ، اس لیے اس نے ( پائینچے چڑھا کر ) اپنی پنڈلیاں کھول دیں ۔ سلیمان نے کہا کہ : یہ تو محل ہے جو شیشوں کی وجہ سے شفاف نظر آرہا ہے ۔ ملکہ بول اٹھی : میرے پروردگار ! حقیقت یہ ہے کہ میں نے ( اب تک ) اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور اب میں نے سلیمان کے ساتھ رب العالمین کی فرمانبرداری قبول کرلی ہے ۔ ( ٢٠ )
اس سے کہا گیا صحن میں آ ( ف٦۹ ) پھر جب اس نے اسے دیکھا گہرا پانی سمجھی اور اپنی ساقیں کھولیں ( ف۷۰ ) سلیمان نے فرمایا یہ تو ایک چکنا صحن ہے شیشوں جڑا ( ف۷۱ ) عورت نے عرض کی اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ( ف۷۲ ) اور اب سلیمانے کے ساتھ اللہ کے حضور گردن رکھتی ہوں جو رب سارے جہان کا ( ف۷۳ )
اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو ۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اترنے کےلیے اس نے اپنے پائینچے اٹھا لیے ۔ سلیمان ( علیہ السلام ) نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے ۔ 55 اس پر وہ پکار اٹھی ” اے میرے رب ( آج تک ) میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی ، اور اب میں نے سلیمان ( علیہ السلام ) کے ساتھ اللہ رب العالمین کی اطاعت قبول کر لی ۔ 56 ” ؏۳
اس ( ملکہ ) سے کہا گیا: اس محل کے صحن میں داخل ہو جا ( جس کے نیچے نیلگوں پانی کی لہریں چلتی تھیں ) ، پھر جب ملکہ نے اس ( مزیّن بلوریں فرش ) کو دیکھا تو اسے گہرے پانی کا تالاب سمجھا اور اس نے ( پائینچے اٹھا کر ) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں ، سلیمان ( علیہ السلام ) نے فرمایا: یہ تو محل کا شیشوں جڑا صحن ہے ، اس ( ملکہ ) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! ( میں اسی طرح فریبِ نظر میں مبتلا تھی ) بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان ( علیہ السلام ) کی معیّت میں اس اللہ کی فرمانبردار ہو گئی ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے
سورة النمل حاشیہ نمبر :55 یہ آخری چیز تھی جس نے ملکہ کی آنکھیں کھول دیں ، پہلی چیز حضرت سلیمان کا وہ خط تھا جو عام بادشاہوں کے طریقے سے ہٹ کر اللہ رحمان و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا ، دوسری چیز اس کے بیش قیمت ہدیوں کو رد کرنا تھا جس سے ملکہ کو اندازہ ہوا کہ یہ بادشاہ کسی اور طرز کا ہے ، تیسری چیز ملکہ کی سفارت کا بیان تھا جس سے اس کو حضرت سلیمان کی متقیانہ زندگی ، ان کی حکمت اور ان کی دعوت حق کا علم ہوا ، اسی چیز نے اسے آمادہ کیا کہ خود چل کر ان سے ملاقات کرے ، اور اسی کی طرف اس نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا کہ ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم مسلم ہوچکے تھے ۔ چوتھی چیز اس عظیم الشان تخت کا آناً فاناً مارب سے بیت المقدس پہنچ جانا تھا جس سے ملکہ کو معلوم ہوا کہ اس شخص کی پشت پر اللہ تعالی کی طاقت ہے ، اور اب آخری چیز یہ تھی کہ اس نے دیکھا جو شخص یہ سامان عیش و تنعم رکھتا ہے اور ایسے شاندار محل میں رہتا ہے وہ کس قدر غرور نفس سے پاک ہے ، کتنا خدا ترس اور نیک نفس ہے ، کس طرح بات بات پر اس کا سر خدا کے آگے شکر گزاری میں جھکا جاتا ہے ، اور اس کی زندگی فریفتگان حیات دنیا کی زندگی سے کتنی مختلف ہے ، یہی چیز تھی جس نے اسے وہ کچھ پکار اٹھنے پر مجبور کردیا جو آگے اس کی زبان سے نقل کیا گیا ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 56 حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کا یہ قصہ بائیبل کے عہد عتیق و جدید اور روایات یہود ، سب میں مختلف طریقوں سے آیا ہے ، مگر قرآن کا بیان ان سب سے مختلف ہے ، عہد عتیق میں اس قصے کا خلاصہ یہ ہے: اور جب سبا کی ملکہ نے خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے ، اور وہ بہت بڑی جلو کے ساتھ یروشلم میں آئی ۔ جب وہ سلیمان کے پاس پہنچی تو اس نے ان سب باتوں کے بارہ میں جو اس کے دل میں تھیں اس سے گفتگو کی ، سلیمان نے ان سب کا جواب دیا ۔ اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حکمت اور اس محل کو جو اس نے بنایا تھا اور اس کے دسترخوان کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کی حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور اس کے ساقیوں اور اس سیڑھی کو جس سے وہ خداوند کے گھر کو جاتا تھا دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت کی بابت اپنے ملک میں سنی تھی ، تو بھی میں نے وہ باتیں باور نہ کیں جب تک خود آخر اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیا ، اور مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے ۔ خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خوش نصیب ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے اور تیری حکمت سنتے ہیں ۔ خداوند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے ایسا خوشنود ہوا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا ۔ اور اس نے بادشاہ کو ایک سو بیس قنطار سونا اور مسالے کا بہت بڑا انبار اور بیش بہا جواہر دیے اور جیسے مسالے سبا کی ملکہ نے سلیمان بادشاہ کو دیے ویسے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے ۔ اور سلیمان بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشتاق ہو٤ی اور جو کچھ اس نے مانگا دیا ، پھر وہ اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ گئی ۔ ( سلاطین ۔ 10 ۔ 1 ۔ 13 ۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون 2 تواریخ 9 ۔ 1 ۔ 12 میں بھی ہے ۔ عہد جدید میں حضرت عیسی کی ایک تقریر کا صرف یہ فقرہ ملکہ سبا کے متعلق منقول ہوا ہے : دکھن کی ملکہ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ اٹھ کر ان کو مجرم ٹھہرائے گی ، کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیمان کی حکمت سننے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے ۔ ( متی 12 ۔ 43 ۔ لوقا 11 ۔ 31 ) یہودی ربیوں کی روایات میں حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کا قصہ اپنی بیشتر تفصیلات میں قرآن سے ملتا جلتا ہے ۔ ہدہد کا غائب ہونا ، پھر آکر سبا اور اس کی ملکہ کے حالات بیان کرنا ، حضرت سلیمان کا اس کے ذریعہ سے خط بھیجنا ، ہدہد کا عین اس وقت وہ خط ملکہ کے آگے گرانا جبکہ وہ آفتاب کی پرستش کو جارہی تھی ، ملکہ کا اس خط کو دیکھ کر اپنے وزراء کی کونسل منعقد کرنا ، پھر ملکہ کا ایک قیمتی ہدیہ حضرت سلیمان کے پاس بھیجنا ، خود یروشلم پہنچ کر انسے ملان ، ان کے محل میں پہنچ کر یہ خیال کرنا کہ حضرت سلیمان پانی کے حوض میں بیٹھے ہیں ، اور اس میں اترنے کے لیے پانچے چڑھا لینا ، یہ سب ان روایات میں اسی طرح مذکور ہے جس طرح قرآن میں بیان ہوا ہے ، مگر ہدیہ وصول ہونے پر حضرت سلیمان کا جواب ملکہ کے تخت کو اٹھوا منگانا ، ہر موقع پر ان کا خدا کے آگے جھکنا اور آخر کار ملکہ کا ان کے ہاتھ پر ایمان لانا ، یہ سب باتیں بلکہ خدا پرستی اور توحید کی ساری باتیں ہی ان روایات میں ناپید ہیں ، سب سے بڑھ کر غضب یہ ہے کہ ان ظالموں نے حضرت سلیمان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ملکہ سبا کے ساتھ معاذ اللہ زنا کا ارتکاب کیا اور اسی حرامی نسل سے بابل کا بادشاہ بخت نصر پیدا ہوا جس نے بیت المقدس کو تباہ کیا ( جیوش انسائیکلو پیڈیا ج 11 صفحہ 443 ) اصل معاملہ یہ ہے کہ یہودی علماء کا ایک گروہ حضرت سلیمان کا سخت مخالف رہا ہے ، ان لوگوں نے ان پر توراۃ کے احکام کی خلاف ورزی ، غرور حکومت ، غرور عقل و دانش ، زن مریدی ، عیش پرستی اور شرک و بت پرستی کے گھناؤنے الزامات لگائے ہیں ( جیوش انسائیکلوپیڈیا ج 11 ص 439 ۔ 441 ) اور یہ اسی پروپیگنڈے کا اثر ہے کہ بائیبل انہیں نبی کے بجائے محض ایک بادشاہ کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور بادشاہ بھی ایسا جو معاذ اللہ احکام الہی کے خلاف مشرک عورتوں کے عشق میں گم ہوگیا ، جس کا دل خدا سے پھر گیا اور جو خدا کے سوا دوسرے معبودوں کی طرف مائل ہوگیا ( سلاطین 11 ۔ 1 ۔ 11 ) ان چیزوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے بنی اسرائیل پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے اکابر کا دامن کود ان کی پھینکی ہوئی گندگیوں سے صاف کیا ، اور یہ بنی اسرائیل کتنے احسان فراموش ہیں کہ اس پر بھی یہ قرآن اور اس کے لانے والے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔