Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡـفَاحِشَةَ وَاَنۡـتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿54﴾
اور لوط کا ( ذکر کر ) جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ باوجود دیکھنے بھالنے کے پھر بھی تم بدکاری کر رہے ہو ۔ ؟
و لوطا اذ قال لقومه اتاتون الفاحشة و انتم تبصرون
And [mention] Lot, when he said to his people, "Do you commit immorality while you are seeing?
Aur loot ka ( zikar ker ) jabkay uss ney apni qom say kaha kay kiya bawajood dekhney bhalney kay phir bhi tum bad-kaari ker rahey ho?
اور ہم نے لوط کو پیغمبر بنا کر بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : کیا تم کھلی آنکھوں دیکھتے ہوئے بھی بے حیائی کا یہ کام کرتے ہو؟
اور لوط کو جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا بےحیائی پر آتے ہو ( ف۹۲ ) اور تم سوجھ رہے ہو ( ف۹۳ )
اور لوط 67 ( علیہ السلام ) کو ہم نے بھیجا ۔ یاد کرو وہ وقت جب اس نے اپنی قوم سے کہا ” کیا تم آنکھوں دیکھتے بدکاری کرتے ہو؟ 68
اور لوط ( علیہ السلام ) کو ( یاد کریں ) جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: کیا تم بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو حالانکہ تم دیکھتے ( بھی ) ہو
سورة النمل حاشیہ نمبر : 67 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 80 تا 84 ، ہود 74 تا 83 ، الحجر 57 77 ، الانبیاء 71 تا 75 ، الشعراء 16 تا 174 ، العنکبوت 28 تا 75 ، الصافات 133 تا 138 ، القمر 33 تا 39 سورة النمل حاشیہ نمبر : 68 اس ارشاد کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ، اور غالبا وہ سب ہی مراد ہیں ، ایک یہ کہ تم اس فعل کے فحش اور کار بد ہونے سے ناواقف نہیں ہو ، بلکہ جانتے بوجھتے اس کا ارتکاب کرتے ہو ۔ دوسرے یہ کہ تم اس بات سے بھی ناواقف نہیں ہو کہ مرد کی خواہش نفس کے لیے مرد نہیں پیدا کیا گیا بلکہ عورت پیدا کی گئی ہے ، اور مرد و عورت کا فرق بھی ایسا نہیں ہے کہ تمہاری آنکھوں کو نظر نہ آتا ہو ، مگر تم کھلی آنکھوں کے ساتھ یہ جیتی مکھی نگلتے ہو ، تیسرے یہ کہ تم علانیہ یہ بے حیائی کا کام کرتے ہو جب کہ دیکھنے والی آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں ، جیسا کہ آگے سورہ عنکبوت میں آرہا ہے: ڏوَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ، اور تم اپنی مجلسوں میں برا کام کرتے ہو ۔ ( آیت 29 )
ہم جنسوں سے جنسی تعلق ( نتیجہ ایڈز ) اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی امت یعنی اپنی قوم کو اس کے نالائق فعل پر جس کا فاعل ان سے پہلے کوئی نہ ہوا تھا ۔ یعنی اغلام بازی پر ڈرایا ۔ تمام قوم کی یہ حالت تھی کہ مرد مردوں سے عورت عورتوں سے شہوت رانی کرلیا کرتی تھیں ۔ ساتھ ہی اتنے بےحیا ہوگئے تھے کہ اس پاجی فعل کو پوشیدہ کرنا بھی کچھ ضروری نہیں جانتے تھے ۔ اپنے مجمعوں میں واہی فعل کرتے تھے ۔ عورتوں کو چھوڑ مردوں کے پاس آتے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اپنی اس جہالت سے باز آجاؤ تم تو ایسے گئے گزرے اور اتنے نادان ہوئے کہ شرعی پاکیزگی کے ساتھ ہی تم سے طبعی بھی جاتی رہی ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے ( اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٥؀ۙ ) 26- الشعراء:165 ) کیا تم مردوں کے پاس آتے ہو اور عورتوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے جوڑ بنائے ہیں چھوڑتے ہو؟ بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو ۔ قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ جب لوط اور لوط والے تمہارے اس فعل سے بیزار ہیں اور نہ وہ تمہاری مانتے ہیں نہ تم ان کی ۔ تو پھر ہمیشہ کی اس بحث و تکرار کو ختم کیوں نہیں کردیتے؟ لوط علیہ السلام کے گھرانے کو دیس نکالا دے کر ان کے روزمرہ کے کچوکوں سے نجات حاصل کرلو ۔ جب کافروں نے پختہ ارادہ کرلیا اور اس پر جم گئے اور اجماع ہوگیا تو اللہ نے انہیں کو ہلاک کردیا اور اپنے پاک بندے حضرت لوط کو اور ان کی اہل کو ان سے جو عذاب ان پر آئے ان سے بچالیا ۔ ہاں آپ کی بیوی جو قوم کے ساتھ ہی تھی وہ پہلے سے ہی ان ہلاک ہونے والوں میں لکھی جا چکی تھی وہ یہاں باقی رہ گئی اور عذاب کے ساتھ تباہ ہوئی کیونکہ یہ انہیں ان کے دین اور ان کے طریقوں میں مدد دیتی تھی انکی بد اعمالیوں کو پسند کرتی تھی ۔ اسی نے حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں کی خبر قوم کو دی تھی ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ معاذاللہ ان کی اس فحش کاری میں یہ شریک نہ تھی ۔ اللہ کے نبی علیہ السلام کی بزرگی کے خلاف ہے کہ ان کی بیوی بدکار ہو ۔ اس قوم پر آسمان سے پتھر برسائے گئے جن پر ان کے نام کندہ تھے ہر ایک پر اسی کے نام پتھر آیا اور ایک بھی ان میں سے بچ نہ سکا ۔ ظالموں سے اللہ کی سزا دور نہیں ۔ ان پر حجت ربانی قائم ہوچکی تھی ۔ انہیں ڈرایا اور دھمکایا جاچکا تھا ۔ تبلیغ رسالت کافی طور پر ہوچکی تھی ۔ لیکن انہوں نے مخالفت میں جھٹلانے میں اور اپنی بے ایمانی پر اڑنے میں کمی نہیں کی ۔ نبی اللہ علیہ السلام کو تکلیفیں پہنچائیں بلکہ انہیں نکال دینے کا ارادہ کیا اس وقت اس بدترین بارش نے یعنی سنگ باری نے انہیں فناکردیا ۔