Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَمَّنۡ جَعَلَ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنۡهٰرًا وَّجَعَلَ لَهَا رَوَاسِىَ وَجَعَلَ بَيۡنَ الۡبَحۡرَيۡنِ حَاجِزًا‌ ؕ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ‌ ؕ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ؕ‏ ﴿61﴾
کیا وہ جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں جاری کر دیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان روک بنا دی کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں ۔
امن جعل الارض قرارا و جعل خللها انهرا و جعل لها رواسي و جعل بين البحرين حاجزا ءاله مع الله بل اكثرهم لا يعلمون
Is He [not best] who made the earth a stable ground and placed within it rivers and made for it firmly set mountains and placed between the two seas a barrier? Is there a deity with Allah ? [No], but most of them do not know.
Kiya woh jiss ney zamin ko qarar gaah banaya aur uss kay darmiyan nehren jari kerdin aur uss kay liye pahar banaye aur do samandaron kay darmiyan rok bana di kiya Allah kay sath koi aur mabood bhi hai? Bulkay inn mein say aksar kuch jantay hi nahi.
بھلا وہ کون ہے جس نے زمین کو قرار کی جگہ بنایا ، اور اس کے بیچ بیچ میں دریا پیدا کیے ، اور اس ( کو ٹھہرانے ) کے لیے ( پہاڑوں کی ) میخیں گاڑ دیں ، اور دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ رکھ دی؟ ( ٣١ ) کیا ( پھر بھی تم کہتے ہو کہ ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ نہیں ! بلکہ ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں ۔
یا وہ جس نے زمین بسنے کو بنائی اور اس کے بیچ میں نہریں نکالیں اور اس کے لیے لنگر بنائے ( ف۱۰۷ ) اور دونوں سمندروں میں آڑ رکھی ( ف۱۰۸ ) کیا اللہ کے ساتھ اور خدا ہے ، بلکہ ان میں اکثر جاہل ہیں ( ف۱۰۹ )
اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار 74 بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں ﴿پہاڑوں کی﴾ میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیے؟ 75 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ﴿ان کاموں میں شریک﴾ ہے؟ نہیں ، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نادان ہیں ۔
بلکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لئے بھاری پہاڑ بنائے ۔ اور ( کھاری اور شیریں ) دو سمندروں کے درمیان آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی ( اور بھی ) معبود ہے؟ بلکہ ان ( کفار ) میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں
سورة النمل حاشیہ نمبر : 74 زمین کا اپنی بے حد و حساب مختلف النوع آبادی کے لیے جائے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے ۔ اس کرہ خاکی کو جن حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے ان کی تفصیلات پر آدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادر مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہ ہوسکتی تھیں ، یہ کرہ فضائے بسیط میں معلق ہے ، کسی چیز پر ٹکا ہوا نہیں ہے ، مگر اس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب اور اہتزاز نہں ہے ، اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز ہوتا جس کے خطرناک نتائک کا ہم کبھی زلزلہ آجانے سے بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں ، تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ تھی ، یہ کرہ باقاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے آتا اور چھپتا ہے جس سے رات اور دن کا اختلاف رونما ہوتا ہے ، اگر اس کا ایک ہی رخ ہر وقت سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا رخ ہر وقت چھپا رہتا تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رخ کو سردی اور بے نوری نباتات اور حیوانات کی پیدائش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رخ کو گرمی کی شدت بے آب و گیاہ اور غیر آباد بنا دیتی ۔ اس کرہ پر پانچ سو میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردا چرھا دیا گیا ہے جو شہابوں کی خوفناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے ۔ ورنہ روزانہ دو کروڑ شہاب ، جو 30 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں ، یہاں وہ تباہی مچاتے ہیں کہ کوئی انسان ، حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا ، یہی ہوا درجہ حرارت کو قابو میں رکھتی ہے ، یہی سمندروں سے بادل اٹھاتی اور زمین کے مختلف حصوں تک آب رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اور حیوان اور نباتات کی زندگی کو مطلوبہ گیسیں گراہم کرتی ہے ، یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کے لیے جائے قرار نہ بن سکتی ، اس کرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اور مختلف قسم کے کیمیاوی اجزاء بڑے پیمانے پر فراہم کردیے گئے ہیں جو نباتی ، حیوانی اور انسانی زندگی کے لیے مطلوب ہیں ، جس جگہ بی یہ سرو سامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کو سہارنے کے لائق نہیں ہوتی ، اس کرے پر سمندروں ، دریاؤں ، جھیلوں ، چشموں اور زیر زمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کردیا گیا ہے ، اور پہاڑوں پر بھی اس کے بڑے بڑے ذخائر کو منجمد کرنے اور پھر پگھلا کر بہانے کا انتظام کیا گیا ہے ، اس تدبیر کے بغیر یہاں کسی زندگی کا امکان نہ تھا ، پھر اس پانی ، ہوا اور تمام ان اشیاء کو جو زمین پر پائی جاتی ہیں ، سمیٹے رکھنے کے لیے اس کرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے ، یہ کشش اگر کم ہوتی تو ہوا اور پانی ، دونوں کو نہ روک سکتی اور درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوتا کہ زندگی یہاں دشوار ہوجاتی ، یہ کشش اگر زیادہ ہوتی تو ہوا بہت کثیف ہوجاتی ، اس کا دباؤ بہت بڑھ جاتا ، بخارات آبی کا اٹھنا مشکل ہوتا اور بارشیں نہ ہوسکتیں ، سردی زیادہ ہوتی ، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے ، بلکہ کشش ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت انسان اور حیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل و حرکت بھی ان کے لیے مشکل ہوتی ، علاوہ بریں اس کرے کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے جو آبای کے لیے مناسب ترین ہے ۔ اگر اس کا فاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی ، سردی بہت زیادہ ہوتءی تو موسم بہت لمبے ہوتے ، اور مشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا ، اور اگر فاصلہ کم ہوتا تو اس کے برعکس گرمی کی زیادتی اور دوسری بہت سی چیزیں مل جل کر اسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں ۔ ہپ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کے لیے جائے قرار بنی ہے ، کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان امور کو نگاہ میں رکھ کر سوچے تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہ یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیں محض ایک حادثہ کے نتیجے میں خود بخود قائم ہوگئی ہیں ، اور نہ یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کو بنانے اور رو بعمل لانے میں کسی دیوی دیوتا ، یا جن ، یا نبی و ولی یا فرشتے کا کوئی دخل ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 75 یعنی میٹھے اور کھاری پانی کے ذخیرے جو اسی زمین پر موجود ہیں ، مگر باہم خلط ملط نہیں ہوتے ، زیر زمین پانی کی سوتیں بسا اوقات ایک ہی علاقے مٰں کھاری پانی الگ اور میٹھا پانی الگ لیکر چلتی ہیں ، کھاری پانی کے سمندر تک میں بعض مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے رواں ہوتے ہیں اور ان کی دھار سمندر کے پانی سے اس طرح الگ ہوتی ہے کہ بحری مسافر اس میں سے پینے کے لیے پانی حاصل کرسکتے ہیں ۔ ( تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، سورہ الفرقان ، حاشیہ 68 )
کائنات کے مظاہر اللہ تعالیٰ کی صداقت٭٭ زمین کو اللہ تعالیٰ نے ٹھہری ہوئی اور ساکن بنایا تاکہ دنیا آرام سے اپنی زندگی بسر کرسکے اور اس پھیلے ہوئے فرش پر راحت پاسکے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اللہ الذی جعل لکم الأرض قرارا الخ ) ، اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے ٹھہری ہوئی ساکن بنایا اور آسمان کو چھت بنایا ۔ اس نے زمین پر پانی کے دریا بہادئیے جوادھر ادھربہتے رہتے ہیں اور ملک ملک پہنچ کر زمین کو سیراب کرتے ہیں تاکہ زمین سے کھیت باغ وغیرہ اگیں ۔ اس نے زمین کی مضبوطی کے لئے اس پر پہاڑوں کی میخیں گاڑھ دیں تاکہ وہ تمہیں متزلزل نہ کرسکے ٹھہری رہے ۔ اسکی قدرت دیکھو کہ ایک کھاری سمندر ہے اور دوسرا میٹھا ہے ۔ دونوں بہہ رہے ہیں بیچ میں کوئی روک آڑ پردہ حجاب نہیں لیکن قدرت نے ایک کو ایک سے الگ کر رکھا ہے اور نہ کڑوا میٹھے میں مل سکے نہ میٹھاکرڑوے میں ۔ کھاری اپنے فوائد پہنچاتا رہے میٹھا اپنے فوائد دیتا رہے اس کا نتھرا ہوا خوش ذائقہ مسرورکن خوش ہضم پانی لوگ پئیں اپنے جانوروں کو پلائیں کھتیاں باڑیاں باغات وغیرہ میں یہ پانی پہنچائیں نہائیں دھوئیں وغیرہ ۔ کھاری پانی اپنی فوائد سے لوگوں کو سود مند کرے یہ ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے تاکہ ہوا خراب نہ ہو ۔ اور اس آیت میں بھی ہے ان دونوں کا بیان موجود ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ 53؀ ) 25- الفرقان:53 ) یعنی ان دونوں سمندروں کا جاری کرنے والا اللہ ہی ہے اور اسی لئے ان دونوں کے درمیاں حد فاصل قائم کر رکھی ہے ۔ یہاں یہ قدرتیں اپنی جتاکر ۔ پھر سوال کرتا ہے کہ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ایسا ہے جس نے یہ کام کئے ہوں یا کرسکتاہو؟ تاکہ وہ بھی لائق عبادت سمجھا جائے ۔ اکثر لوگ محض بےعلمی سے غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ عبادتوں کے لائق صرف وہی ایک ہے ۔