Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَمَّنۡ يَّبۡدَؤُا الۡخَـلۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُهٗ وَمَنۡ يَّرۡزُقُكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ‌ؕ قُلۡ هَاتُوۡا بُرۡهَانَكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿64﴾
کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ ۔
امن يبدؤا الخلق ثم يعيده و من يرزقكم من السماء و الارض ءاله مع الله قل هاتوا برهانكم ان كنتم صدقين
Is He [not best] who begins creation and then repeats it and who provides for you from the heaven and earth? Is there a deity with Allah ? Say, "Produce your proof, if you should be truthful."
Kiya woh jo makhlooq ki awwal dafa pedaeesh kerta hai phir ussay lotaye ga aur jo tumhen aasman aur zamin say roziyan dey raha hai kiya Allah kay sath koi aur mabood hai keh dijiye kay agar sachay hoto apni daleel lao.
بھلا وہ کون ہے جس نے ساری مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا ، پھر وہ اس کو دوبارہ پیدا کرے گا ، اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق فراہم کرتا ہے؟ کیا ( پھر بھی تم کہتے ہو کہ ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ کہو : لاؤ اپنی کوئی دلیل ، اگر تم سچے ہو ۔
یا وہ جو خلق کی ابتداء فرماتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائے گا ( ف۱۱۵ ) اور وہ جو تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی دیتا ہے ( ف۱۱٦ ) کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ، تم فرماؤ کہ اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو ( ف۱۱۷ )
اور وہ کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ 80 اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ 81 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ﴿ان کاموں میں حصہ دار﴾ ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو ۔ 82
بلکہ وہ کون ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا فرماتا ہے پھر اسی ( عملِ تخلیق ) کو دہرائے گا اور جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق عطا فرماتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی ( اور بھی ) معبود ہے؟ فرما دیجئے: ( اے مشرکو! ) اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو
سورة النمل حاشیہ نمبر : 80 یہ سادہ سی بات جس کو ایک جملے میں بیان کردیا گیا ہے اپنےا ندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اترتا جاتا ہے اتنے ہی وجود الہ اور وحدت الہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں ، پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے ۔ انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے ، اس وقت تک مسلم سائنٹفک حقیقت یہی ہے کہ بے جان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہوسکتی ، حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقا جمع ہوکر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ تو ضرور ہے ، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق ( law of Chance ) کو اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا ، اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معملوں ( Labo ratories ) میں بے جان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے باوجود وہ سب قطعی ناممکن ہوچکی ہیں ، زیادہ سے زیادہ جو چیز پیدا کی جاسکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں ( D.N.A ) کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ جوہر حیات تو ضرور ہے مگر خود جاندار نہیں ہے ۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبے کا نتیجہ ہے ۔ اس کے بعد آگے دیکھیے ۔ زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں بلکہ بے شمار متنوع صورتوں میں پائی جاتی ہے ، اس وقت تک روئے زمین پر حیوانات کی تقریبا 10 لاکھ اور اور نباتات کی تقریبا دو لاکھ انواع کا پتہ چلا ہے ۔ یہ لکوکھا انواع اپنی ساخت اور نوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اور قطعی امتیاز رکھتی ہیں ، اور قدیم ترین معلوم زمانے سے اپنی اپنی صورت نوعیہ کو اس طرح مسلسل برقرار رکھتی چلی آرہی ہیں کہ ایک خدا کے تخلیقی منصوبے ( Design ) کے سوا زندگی کے اس عظیم تنوع کی کوئی اور معقول توجیہ کردینا کسی ڈارون کے بس کی بات نہیں ہے ۔ آج تک کہیں بھی دو نوعوں کے درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکی ہے جو ایک نوع کی ساخت اور خصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہو اور ابھی دوسری نوع کی ساخت اور خصوصیات تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہو ۔ متحجرات ( Fossils ) کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثی مشکل کہیں نہیں ملا ہے ۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے اپنی پوری صورت نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے ، اور ہر وہ افسانہ جو کسی مفقود کڑی کے ہم پہنچ جانے کا وقتا فوقتا سنا دیا جاتا ہے ۔ تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں ۔ اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع حکیم ، ایک خالق الباری المصور ہی نے زندگی کو یہ لاکھوں متنوع صورتیں عطا کی ہیں ۔ یہ تو ہے ابتدائے خلق کا معاملہ ۔ اب ذرا عادۃ خلق پر غور کیجیے ۔ خالق نے ہر نوع حیوانی اور نباتی کی ساخت و ترکیب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل ( Mechanism ) رکھ دیا ہے جو اس کے بے شمار افراد میں سے بے حد و حساب نسل ٹھیک کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہ چلا جاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہا کروڑ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہ تناسل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کر پھینک دے ۔ جدید علم تناسل ( Genetics ) کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں ۔ ہر پودے میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کا ایسا مکمل انتظام کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہو اور اس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افراد سے اپنی صورت نوعیہ میں ممیز ہو ۔ یہ بقائے نوع اور تناسل کا سامان ہر پودے کے ایک خلیے ( Cell ) کے ایک حصہ میں ہوتا ہے جسے بمشکل انتہائی طاقت ور خوردبین سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ چھوٹا سا انجینیر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشوونما کو حتما اسی راستے پر ڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورت نوعیہ کا راستہ ہے ۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانہ سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے گہیوں ہی پیدا کیا ہے ، کسی آب و ہوا اور کسی ماحول میں یہ حادثہ کبھی رونما نہیں ہوا کہ دانہ گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانہ جو پیدا ہوجاتا ، ایسا ہی معاملہ حیوانات اور انسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کی تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہوکر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ناقابل تصور وسیع پیمانے پر ہر طرف اعادۃ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہر نوع کے افراد سے پیہم اسی نوع کے بے شمار افراد وجود میں لاتا چلا جارہا ہے ۔ اگر کوئی شخص توالد و تناسل کے اس خورد بینی تخم کو دیکھے جو تمام نوعی امتیازات اور موروثی خصوصیات کو اپنے ذرا سے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے ، اور پھر اس انتہائی نازک اور پیچیدہ عضوی نظام اور بے انتہا لطیف و پر پیچ عملیات ( Progresses ) کو دیکھے جن کی مدد سے ہر نوع کے ہر فرد کا تخم تناسل اسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے ، تو اہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ایسا نازک اور پیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے ۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتدا کے لیے ایک صانع حکیم چالہتی ہے ، بلکہ ہر آن اپنے درست طریقہ پر چلتے رہنے کے لیے بھی ایک نظام و مدبر اور ایک حی و قیوم کی طلاب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی ان کارخانوں کی نگرانی و رہنمائی سے غافل نہ ہو ۔ یہ حقائق ایک دہریے کے انکار خدا کی بھی اسی طرح جڑ کاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی ، کون احمق یہ گمان کرسکتا ہے کہ خدا کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی ذرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے ، اور کون صاحب عقل آدمی تعصب سے پاک ہوکر یہ کہہ سکتا ہے کہ سارا کارخانہ خلق و اعادۃ خلق اس کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقا شروع ہوا اور آپ سے آپ چلے جارہا ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 81 رزق دینے کا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے جتنا سرسری طور پر ان مختصر سے الفاظ کو پڑھ کر کوئی شخص محسوس کرتا ہے ۔ اس زمین پر لاکھوں انواع حیوانات کی اور لاکھوں ہی نباتات کی پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک کے اربوں افراد موجود ہیں اور ہر ایک کی غذائی ضروریات الگ ہیں ۔ خالق نے ان میں سے ہر نوع کی غذا کا سامان اس کثرت سے اور ہر ایک کی دسترس کے اس قدر قریب فراہم کیا ہے کہ کسی نوع کے افراد بھی یہاں غذا پانے سے محروم نہیں رہ جاتے ۔ پھر اس انتظام میں زمین اور آسمان کی اتنی مختلف قوتیں مل جل کر کام کرتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے ، گرمی ، روشنی ، ہوا ، پانی ، اور زمین کے مختلف الاقسام مادوں کے درمیان اگر ٹھیک تناسب کے ساتھ تعاون نہ ہو تو غذا کا ایک ذرہ بھی وجود میں نہیں آسکتا ۔ کون شخص تصور کرسکتا ہے کہ یہ حکیمانہ انتظام ایک مدبر کی تدبیر اور سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر یونہی اتفاقا ہوسکتا تھا ؟ اور کون اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یہ خیال کرسکتا ہے کہ اس انتظام میں کسی جن یا فرشتے یا کسی بزرگ کی روح کا کوئی دخل ہے؟ سورة النمل حاشیہ نمبر : 82 یعنی یا تو اس بات پر دلیل لاؤ کہ ان کاموں میں واقعی کوئی اور بھی شریک ہے ، یا نہیں تو پھر کسی معقول دلیل سے یہی بات سمجھا دو کہ یہ سارے کام تو ہوں صرف ایک اللہ کے مگر بندگی و عبادت کا حق پہنچے اس کے سوا کسی اور کو یا اس کے ساتھ کسی اور کو بھی ۔
قدرت کاملہ کا ثبوت فرمان ہے کہ اللہ وہ ہے جو اپنی قدرت کاملہ سے مخلوقات کو بےنمونہ پیدا کرتا ہے ۔ پھر انہیں فنا کرکے دوبارہ پیدا کرے گا ۔ جب تم اسے پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر مان رہے ہو تو دوبارہ کی پیدائش جو اس کے لیے بہت ہی آسان ہے اس پر قادر کیوں نہیں مانتے؟ آسمان سے بارش برسانا اور زمین سے اناج اگانا اور تمہاری روزی کا سامان آسمان اور زمین سے پیدا کرنا اسی کا کام ہے ۔ جیسے سورۃ طارق میں فرمایا پانی والے آسمان کی اور پھوٹنے والی زمین کی قسم ۔ اور آیت میں ہے ( يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ الرَّحِيْمُ الْغَفُوْرُ Ą۝ ) 34- سبأ:2 ) ، یعنی اللہ خوب جانتا ہے ہر اس چیز کو جو آسمان میں سما جائے اور جو زمین سے باہر اگ آئے ۔ اور جو آسمان سے اترے اور جو اس پر چڑھے ۔ پس آسمان سے مینہ برسانے والا اسے زمین میں ادھر اھر تک پہنچانے والا اور اسکی وجہ سے طرح طرح کے پھل پھول اناج گھاس پات اگانے والا وہی ہے جو تمہاری اور تمہارے جانوروں کی روزیاں ہیں ۔ یقینا یہ تمام چیزیں صاحب عقل کے لئے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔ اپنی ان قدرتوں کو اور اپنے ان گراں بہا احسانوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ کیا اللہ کے ساتھ ان کاموں کا کرنے والا کوئی اور بھی ہے؟ جس کی عبادت کی جائے اگر تم اللہ کے سوا دوسروں کو معبود ماننے کے دعوے کو دلیل سے ثابت کرسکتے ہو تو وہ دلیل پیش کرو؟ لیکن چونکہ وہ محض بےدلیل ہیں اس لئے دوسری آیت میں فرمادیا کہ اللہ کے ساتھ جو دوسرے کو بھی پوجے جس کی کوئی دلیل بھی اس کے پاس نہ ہو وہ یقینا کافر ہے اور نجات سے محروم ہے ۔