Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَيۡهِمۡ اَخۡرَجۡنَا لَهُمۡ دَآبَّةً مِّنَ الۡاَرۡضِ تُكَلِّمُهُمۡۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوۡقِنُوۡنَ‏ ﴿82﴾
جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے گا ، ہم زمین سے ان کے لئے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے ۔
و اذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم ان الناس كانوا بايتنا لا يوقنون
And when the word befalls them, We will bring forth for them a creature from the earth speaking to them, [saying] that the people were, of Our verses, not certain [in faith].
Jab unn kay upper azab ka wada sabit hojaye ga hum zamin say unn kay liye aik janwar nikalen gay jo unn say batein kerta hoga kay log humari aayaton per yaqeen nahi kertay thay.
ور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان لوگوں پر آپہنچے گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے بات کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔ ( ٣٦ )
اور جب بات ان پر آپڑے گی ( ف۱۳۷ ) ہم زمین سے ان کے لیے ایک چوپایہ نکالیں گے ( ف۱۳۸ ) جو لوگوں سے کلام کرے گا ( ف۱۳۹ ) اس لیے کہ لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہ لاتے تھے ( ف۱٤۰ )
اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان پر آپہنچے گا 100 تو ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کر تے تھے ۔ 101 ؏٦
اور جب ان پر ( عذاب کا ) فرمان پورا ہونے کا وقت آجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے گفتگو کرے گا کیونکہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھے
سورة النمل حاشیہ نمبر : 100 یعنی قیامت قریب آجائے گی جس کا وعدہ ان سے کیا جارہا ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 101 ابن عمر کا قول ہے کہ یہ اس وقت ہوگا جب زمین کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہ رہے گا ۔ ابن مردویہ نے ایک حدیث ابو سعید خدری سے نقل کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود حضور سے سنی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں گے تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالی ایک جانور کے ذریعہ سے آخری مرتبہ حجت قائم فرمائے گا ۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا ایک خاص قسم کی جنس حیوان ہوگی جس کے بہت سے افراد روئے زمین پر پھیل جائیں گے ۔ دابۃ من الارض کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے ، بہر حال جو بات وہ کہے گا وہ یہ ہوگی کہ لوگ اللہ تعالی کی ان آیات پر یقین نہیں کرتے تھے جن میں قیامت کے آنے اور آخرت برپا ہونے کی خبریں دی گئی تھیں ، تو لو اب اس کا وقت آن پہنچا ہے اور جان لو کہ اللہ کی آیات سچی تھیں ، یہ فقرہ کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے یا تو اس جانور کے اپنے کلام کی نقل ہے ، یا اللہ تعالی کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت ، اگر یہ اسی کے الفاظ کی نقل ہے تو ہماری کا لفظ وہ اسی طرح استعمال کرے گا جس طرح ایک حکومت کا ہر کارندہ ہم کا لفظ اس معنی میں بولتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے بات کررہا ہے نہ کہ اپنی شخصی حیثیت میں ۔ دوسری صورت میں بات صاف ہے کہ اللہ تعالی اس کے کلام کو چونکہ اپنے الفاظ میں بیان فرما رہا ہے اس لیے اس نے ہماری آیات کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ اس جانور کے نکلنے کا وقت کون سا ہوگا ؟ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور ایک روز دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا ، ان میں سے جو نشان بھی پہلے ہو وہ بہرحال دوسری کے قریب ہی ظاہر ہوگی ( مسلم ) دوسری روایات جو مسلم ، ابن ماجہ ، ترمزی اور مسند احمد وغیرہ میں آئی ہیں ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں دجال کا خروج ، دابۃ الارض کا ظہور ، دخان ( دھواں ) اور آفتاب کا مغرب سے طلوع وہ نشانیاں ہیں جو یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گی ۔ اس جانور کی ماہیت ، شکل و صورت ، نکلنے کی جگہ اور ایسی ہی دوسری تفصیلات کے متعلق طرح طرح کی روایات نقل کی گئی ہیں جو باہم بہت مختلف اور متضاد ہیں ۔ ان چیزوں کے زکر سے بجز ذہن کی پراگندگی کے اوپر کچھ حاصل نہیں ہوتا اور ان کے جاننے کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ جس مقصد کے لیے قرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے اس سے ان تفصیلات کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ رہا کسی جانور کا انسانوں سے انسانی زبان میں کلام کرنا ، تو یہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے ، وہ جس چیز کو چاہے نطق کی طاقت بخش سکتا ہے ۔ قیامت سے پہلے تو وہ ایک جانور ہی کو نطق بخشے گا ، مگر جب وہ قیامت قائم ہوجائے گی تو اللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ اور کان اور اس کے جسم کی کھال تک بول اٹھے گی ، جیسا کہ قرآن میں بتصریح بیان ہوا ہے حَتّىٰٓ اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْــطَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۔ ( حم السجدہ ، آیات 20 ۔ 21 )
دابتہ الارض جس جانور کا یہاں ذکر ہے یہ لوگوں کے بالکل بگڑ جانے اور دین حق کو چھوڑ بیٹھنے کے وقت آخر زمانے میں ظاہر ہوگا ۔ جب کہ لوگوں نے دین حق کو بدل دیا ہوگا ۔ بعض کہتے ہیں یہ مکہ شریف سے نکلے گا بعض کہتے ہی اور کسی جگہ سے جس کی تفصیل ابھی آئے گی ان شاء اللہ تعالی ۔ وہ بولے گا باتیں کرے گا اور کہے گا کہ لوگ اللہ کی آیتوں کا یقین نہیں کرتے تھے ابن جریر اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ لیکن اس قول میں نظر ہے واللہ اعلم ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ وہ انہیں زخمی کرے گا ایک روایت میں ہے کہ وہ یہ اور وہ دونوں کرے گا ۔ یہ قول بہت اچھا ہے اور دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ، واللہ اعلم ۔ وہ احادیث جو دابتہ الارض کے بارے میں مروی ہیں ۔ ان میں سے کچھ ہم یہاں بیان کرتے ہیں واللہ المستعان ۔ صحابہ کرام ایک مرتبہ بیٹھے قیامت کا ذکر کررہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے آئے ۔ ہمیں ذکر میں مشغول دیکھ کر فرمانے لگے کہ قیامت قائم نہ ہوگی کہ تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج ، عیسی بن مریم کا ظہور ، اور دجال کانکلنا اور مغرب ، مشرق اور جزیرہ عرب میں تین خسف ہونا ، اور ایک آگ کا عدن سے نکلنا جو لوگوں کا حشر کرے گی ۔ انہی کے ساتھ رات گزارے گی اور انہی کے ساتھ دوپہر کا سوناسوئے گی ( مسلم وغیرہ ) ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ دابتہ الارض تین مرتبہ نکلے گا دور دراز کے جنگل سے ظاہر ہوگا اور اس کا ذکر شہر یعنی مکہ تک نہ پہنچے گا پھر ایک لمبے زمانے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوگا اور لوگوں کی زبانوں پر اس کا قصہ چڑھ جائے گا یہاں تک کہ مکہ میں بھی اس کی شہرت پہنچے گی ۔ پھر جب لوگ اللہ کی سب سے زیادہ حرمت وعظمت والی مسجد مسجد حرام میں ہوں گے اسی وقت اچانک دفعتا دابتہ الارض انہیں وہی دکھائی دے گا کہ رکن مقام کے درمیان اپنے سر سے مٹی جھاڑ رہا ہوگا ۔ لوگ اس کو دیکھ کر ادھر ادھر ہونے لگیں گے یہ مومنوں کی جماعت کے پاس جائے گا اور ان کے منہ کو مثل روشن ستارے کے منور کردے گا اس سے بھاگ کر نہ کوئی بچ سکتا ہے اور نہ چھپ سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص اس کو دیکھ کر نماز کو کھڑا ہوجائے گا یہ اس کو کہے گا اب نماز کو کھڑا ہوا ہے؟ پھر اس کے پیشانی پر نشان کردے گا اور چلا جائے گا اس کے ان نشانات کے بعد کافر مومن کا صاف طور امتیاز ہوجائے گایہاں تک کہ مومن کافر سے کہے گا کہ اے کافر! میرا حق ادا کر اور کافر مومن سے کہے گا اے مومن! میرا حق ادا کر یہ روایت حذیفہ بن اسید سے موقوفا بھی مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا جب کہ آپ بیت اللہ شریف کا طواف کررہے ہونگے لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں ہے ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ سب سے پہلے جو نشانی ظاہر ہوگی وہ سورج کا مغرب سے نکلنا اور دابتہ الارض کا ضحی کے وقت آجانا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ہوگا اس کے بعد ہی دوسرا ہوگا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے آپ نے فرمایا چھ چیزوں کی آمد سے پہلے نیک اعمال کرلو ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھویں کا آنا ، دجال کا آنا ، اور دابتہ الارض کا آنا تم میں سے ہر ایک کا خاص امر اور عام امر ۔ یہ حدیث اور سندوں سے دوسری کتابوں میں بھی ہے ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ دابتہ الارض کے ساتھ حضرت عیسیٰ کی لکڑی اور حضرت سلیمان کی انگوٹھی ہوگی ۔ کافروں کی ناک پر لکڑی سے مہر لگائے گا اور مومنوں کے منہ انگوٹھی سے منور کردے گا یہاں تک کہ ایک دسترخوان بیٹھے ہوئے مومن کافر سب ظاہر ہونگے ۔ ایک اور حدیث میں جو مسند احمد میں ہے ، مروی ہے کہ کافروں کے ناک پر انگوٹھی سے مہر کرے گا اور مومنوں کے چہرے لکڑی سے چمکا دے گا ۔ ابن ماجہ میں حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مکہ کے پاس ایک جنگل میں گئے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک خشک زمین ہے جس کے ارد گرد ریت ہے ۔ فرمانے لگے یہیں سے دابتہ الارض نکلے گا ۔ ابن بریدہ کہتے ہیں اس کے کئی سال بعد میں حج کے لئے نکلا تو مجھے لکڑی دکھائی دی جو میری اس لکڑی کے برابر تھی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس کے چار پیر ہونگے صفا کے کھڈ سے نکلے گا بہت تیزی سے خروج کرے گا جیسے کہ کوئی تیز رفتار گھوڑا ہو لیکن تاہم تین دن میں اس کے جسم کا تیسرا حصہ بھی نہ نکلا ہوگا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے جب اس کی بابت پوچھا گیا تو فرمانے لگے جیاد میں ایک چٹان ہے اس کے نیچے سے نکلے گا میں اگر وہاں ہوتا تو تمہیں وہ چٹان دکھا دیتا ۔ یہ سیدھا مشرق کی طرف جائے گا اور اس شور سے جائے گا کہ ہر طرف اس کی آواز پہنچ جائے گی ۔ پھر شام کی طرف جائے گا وہاں بھی چیخ لگا کر ، پھر یمن کی طرف متوجہ ہوگایہاں بھی آواز لگا کر شام کے وقت مکہ سے چل کر صبح کو عسفان پہنچ جائے گا ۔ لوگوں نے پوچھا پھر کیا ہوگا ؟ فرمایا پھر مجھے معلوم نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کا قول ہے کہ مزدلفہ کی رات کو نکلے گا ۔ حضرت عزیر کے ایک کلام کی حکایت ہے کہ سدوم کے نیچے سے یہ نکلے گا ۔ اس کے کلام کو سب سنیں گے حاملہ کے حمل وقت سے پہلے گرجائیں گے ، میٹھا پانی کڑوا ہوجائے گادوست دشمن ہوجائیں گے حکمت جل جائی گی علم اٹھ جائے گا نیچے کی زمین باتیں کرے گی انسان کی وہ تمنائیں ہونگی کہ جو کبھی پوری نہ ہوں ، ان چیزوں کی کوشش ہوگی جو کبھی حاصل نہ ہو ۔ اس بارے میں کام کریں گے جسے کھائیں گے نہیں ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کے جسم پر سب رنگ ہونگے ۔ اس کے دوسینگوں کے درمیان سوار کے لئے ایک فرسخ کی راہ ہوگی ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ موٹے نیزے کی اور بھالے کی طرح کا ہوگا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں اس کے بال ہونگے کھر ہونگے ڈاڑھی ہوگی دم نہ ہوگی ۔ تین دن میں بمشکل ایک تہائی باہر آئے گا حالانکہ تیز گھوڑے کی چال چلتا ہوگا ۔ ابو زبیر کا قول ہے کہ اس کا سر بیل کے سرکے مشابہ ہوگا آنکھیں خنزیر کی آنکھوں کے مشابہ ہونگی ، کان ہاتھی جیسے ہوں گے ، سینگ کی جگہ اونٹ کی طرح ہوگی ، شتر مرغ جیسی گردن ہوگی ، شیر جیسا سینہ ہوگا ، چیتے جیسا رنگ ہوگا بلی جیسی کمر ہوگی مینڈے جیسی دم ہوگی اونٹ جیسے پاؤں ہونگے ہر دو جوڑ کے درمیان بارہ گز کا فاصلہ ہوگا ۔ حضرت موسیٰ کی لکڑی اور حضرت سلیمان کی انگوٹھی ساتھ ہوگی ہر مومن کے چہرے پر اپنے عصائے موسوی سے نشان کرے گا جو پھیل جائے گا اور چہرہ منور ہوجائے گا اور ہر کافر کے چہرے پر خاتم سلیمانی سے نشانی لگادے گا جو پھیل جائے گا اور اس کا سارا چہرہ سیاہ ہوجائے گا ۔ اب تو اس طرح مومن کافر ظاہر ہوجائیں گے کہ خرید وفروخت کے وقت کھانے پینے کے وقت لوگ ایک دوسروں کو اے مومن اور اے کافر کہہ کر بلائیں گے ۔ دابتہ الارض ایک ایک کا نام لے کر ان کو جنت کی خوشخبری یا جہنم کی بدخبری سنائے گا ۔ یہی معنی ومطلب اس آیت کا ہے ۔