Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَيَوۡمَ يُنۡفَخُ فِىۡ الصُّوۡرِ فَفَزِعَ مَنۡ فِىۡ السَّمٰوٰتِ وَمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰهُ‌ؕ وَكُلٌّ اَتَوۡهُ دٰخِرِيۡنَ‏ ﴿87﴾
جس دن صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب آسمانوں والے اور زمین والے گھبرا اٹھیں گے مگر جسے اللہ تعالٰی چاہے اور سارے کے سارے عاجز و پست ہو کر اس کے سامنے حاضر ہونگے ۔
و يوم ينفخ في الصور ففزع من في السموت و من في الارض الا من شاء الله و كل اتوه دخرين
And [warn of] the Day the Horn will be blown, and whoever is in the heavens and whoever is on the earth will be terrified except whom Allah wills. And all will come to Him humbled.
Jiss din soor phooka jayega tum sab kay sab aasmanon walay aur zmain walay ghabra uthen gay magar jissay Allah Taalaa chahaye aur saray kay saray aajiz-o-pust ho ker uss kay samney hazir hongay.
اور جس دن صور پھونکا جائے گا ، تو آسمانوں اور زمین کے سب رہنے والے گھبرا اٹھیں گے ۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے ۔ ( ٣٧ ) اور سب اس کے پاس جھکے ہوئے حاضر ہوں گے ۔
اور جس دن پھونکا جائے گا صور ( ف۱٤۸ ) تو گھبرائے جائیں گے جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں ( ف۱٤۹ ) مگر جسے خدا چاہے ( ف۱۵۰ ) اور سب اس کے حضور حاضر ہوئے عاجزی کرتے ( ف۱۵۱ )
اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صور پھونکا جائے گا اور ہول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں 106 سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہول سے بچانا چاہے گا ۔ ۔ ۔ ۔ اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے ۔
اور جس دن صُور پھونکا جائے گا تو وہ ( سب لوگ ) گھبرا جائیں گے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں مگر جنہیں اللہ چاہے گا ( نہیں گھبرائیں گے ) ، اور سب اس کی بارگاہ میں عاجزی کرتے ہوئے حاضر ہوں گے
سورة النمل حاشیہ نمبر : 106 نفخ صور پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، سورہ انعام حاشیہ 47 ، ابراہیم حاشیہ 57 ، سورہ طہ حاشیہ 78 ، سورہ حج حاشیہ 1 ، یسین حواشی 46 ۔ 47 ، الزمر حاشیہ 79
جب صور پھونکا جائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کی گھبراہٹ اور بےچینی کو بیان فرما رہے ہیں ۔ صور میں حضرت اسرافیل علیہ السلام بحکم الہی پھونک ماریں گے ۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ ہونگے ۔ دیر تک نفخہ پھونکتے رہیں گے ۔ جس سے سب پریشان حال ہوجائیں گے سوائے شہیدوں کے جو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں دئیے جاتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک دن کسی شخص نے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا فرمایا کرتے ہیں کہ اتنے اتنے وقت تک قیامت آجائے گی؟ آپ نے سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ بطور تعجب کہا اور فرمانے لگے سنو! اب تو جی چاہتا ہے کہ کسی سے کوئی حدیث بیان ہی نہ کرو میں نے یہ کہا تھا کہ عنقریب تم بڑی اہم باتیں دیکھو گے ۔ بیت اللہ خراب ہوجائے گا اور یہ ہوگا وہ ہوگا وغیرہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دجال میری امت میں چالیس ٹھہرے گا ۔ میں نہیں جانتاکہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نازل فرمائے گا ۔ وہ صورت شکل میں بالکل حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالی ٰعنہ جیسے ہونگے آپ اسے ڈھونڈ نکالیں گے اور اسے ہلاک کردیں گے ۔ پھر سات سال ایسے گزریں گے کہ دنیا بھر میں دو شخص ایسے نہ ہونگے جن میں آپس میں بغض وعدوات ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک بھینی بھینی ٹھنڈی ہوا چلائے گا جس سے ہر مومن فوت ہوجائے گا ۔ ایک ذرے کے برابر بھی جس کے دل میں خیر یا ایمان ہوگا اس کی روح بھی قبض ہوجائے گی ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی پہاڑ کی کھوہ میں گھس گیا ہوگا تو یہ ہوا وہیں جاکر اسے فناکردے گی ۔ اب زمین پر صرف بد لوگ رہ جائیں گے جو پرندوں جیسے ہلکے اور چوپائیوں جیسے بےعقل ہوں گے ۔ ان میں سے بھلائی برائی کی تمیز اٹھ جائے گی ان کے پاس شیطان پہنچے گا اور کہے گا تم شرماتے نہیں؟ کہ بتوں کی پرستش چھوڑے بیٹھے ہو؟ یہ بت پرستی شروع کردیں گے ۔ اللہ انہیں روزیاں پہنچاتا رہے گا اور خوش وخرم رکھے گا ۔ یہ اسی مستی میں ہونگے جو صور پھونکنے کا حکم مل جائے گا ۔ جس کے کان میں آواز پڑی وہیں دائیں بائیں لوٹنے لگا سب سے پہلے اسے وہ شخص سنے گا جو اپنے اونٹ کے لئے حوض ٹھیک ٹھاک کر رہا ہوگا سنتے ہی بیہوش ہوجائے گا ۔ اور سب لوگ بیہوش ہونا شروع ہوجائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مثل شبنم کے بارش برسائے گا جس سے لوگوں کے جسم اٹھنے لگیں گے ۔ پھر دوسرا نفخہ پھونکا جائے گا جس سے سب اٹھ کھڑے ہونگے ۔ وہیں آواز لگے گی کہ لوگو! اپنے رب کے پاس چلو ۔ وہاں ٹھہرو تم سے سوال جواب ہوگا پھر فرمایا جائے گا کہ آگ کا حصہ نکالو ۔ پوچھا جائے گا کہ کتنوں میں سے کتنے؟ تو فرمایا جائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔ یہ ہوگا وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کردے ۔ یہ ہوگا وہ دن جب پنڈلی ( تجلی رب ) کی زیارت کرائی جائے گی ۔ پہلا نفخہ تو گھبراہٹ کا نفخہ ہوگا ۔ دوسرا بیہوشی اور موت کا اور تیسرا دوبارہ جی کر رب العلمین کے دربار میں پیش ہونے کا ۔ أتوہ کی قرائت الف کے مد کے ساتھ بھی مروی ہے ۔ ہر ایک ذلیل وخوار ہو کر پست ولاچار ہو کر بےبس اور مجبور ہوکر ماتحت اور محکوم ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہوگا ۔ ایک سے بھی بن نہ پڑے گی کہ اسکی حکم عدولی کرے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52؀ۧ ) 17- الإسراء:52 ) جس دن اللہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی حمد بیان کرتے ہوئے اس کی فرمانبرداری کروگے اور آیت میں ہے کہ پھر جب وہ تمہیں زمین سے بلائے گا تو تم سب نکل کھڑے ہوگے ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ تمام روحیں صور کے سوراخ میں رکھی جائیں گی اور جب جسم قبروں سے اٹھ رہے ہونگے ۔ صورپھونک دیا جائے گا روحیں اڑنے لگیں گی مومنوں کی روحیں نورانی ہونگی کافروں کی روحیں اندھیرے اور ظلمت والی ہونگی ۔ رب العالمین خالق کل فرمادے گا میرے جلال کی میری عزت کی قسم ہے ہر روح اپنے بدن میں چلی جائے ۔ جس طرح زہر رگ وپے میں سرایت کرتا ہے اس طرح روحیں اپنے جسموں میں پھیل جائیں گی اور لوگ اپنی اپنی جگہ سے سرجھاڑ اٹھ کھڑے ہوں گے جیسے فرمایا کہ اس دن قبروں سے اس طرح جلدی نکلیں گے جس طرح اپنی عبادت گاہ کی طرف دوڑے بھاگے جاتے تھے ۔ یہ بلند پہاڑ جنہیں تم گڑا ہوا اور جما ہوا دیکھ رہے ہو یہ اس دن اڑتے بادلوں کی طرح ادھر ادھر پھیلے ہوئے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے دکھائی دیں گے ۔ ریزہ ریزہ ہو کر یہ چلنے پھرنے لگیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہو کر بےنام ونشان ہوجائیں گے زمین صاف ہتھیلی جیسی بغیر کسی اونچ نیچ کے ہوجائے گی یہ ہے صفت اس صناع کی جس کی ہرصفت حکمت والی مضبوط پختہ اور اعلی ہوتی ہے ۔ جس کی اعلی تر قدرت انسانی سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ بندوں کے تمام اعمال خیر وشر سے وہ واقف ہے ہر ایک فعل کی سزا جزا وہ ضرور دے گا ۔ اس اختصار کے بعد تفصیل بیان فرمائی کہ نیکی اخلاص توحید لے کر جو آئے گا وہ ایک کے بدلے دس پائے گا اور اس دن کی گھبراہٹ سے نڈر رہے گا اور لوگ گھبراہٹ میں عذاب میں ہونگے ۔ یہ امن میں ثواب میں ہوگا بلند وبالا بالاخانوں میں راحت واطمینان سے ہوگا ۔ اور جس کی برائیاں ہی برائیاں ہوں یا جس کی برائیاں بھلائیوں سے زیادہ ہوں اسے ان کا بدلہ ملے گا ۔ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ۔ اکثر مفسرین سے مروی ہے کہ برائی سے مراد شرک ہے ۔