Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
طٰسٓمٓ‏ ﴿1﴾
طٰسم
Ta, Seen, Meem.
Tuaa-Seen-Meem
طا ، سین ، میم ( حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں )
سورة القصص: نام: آیت نمبر 25 کے اس فقرے سے ماخوذ ہے وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ ، یعنی وہ سورہ جس میں القصص کا لفظ آیا ہے ۔ لظت کے اعتبار سے قصص کے معنی ترتیب وار واقعات بیان کرنے ہیں ، اس لحاظ سے یہ لفظ باعتبار معنی بھی اس سورے کا عنوان ہوسکتا ہے ، کیونکہ اس میں حضرت موسی کا مفصل بیان ہوا ہے ۔ زمانہ نزول: سورہ نمل کے دیباچے میں ابن عباس اور جابر بن زید کا یہ قول ہم نقل کر چکے ہیں کہ سورہ شعراء ، سورہ نمل اور سورہ قصس یکے بعد دیگرے نازل ہوئی ہیں ، زبان ، انداز بیان اور مضامین سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان تینوں سورتوں کا زمانہ نزول قریب ایک ہی ہے ۔ اور اس لحاظ سے بھی ان تینوں میں قریبی تعلق ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے قصے کے مختلف اجزاء جو ان میں بیان کیے گئے ہیں و باہم ملک کر ایک پورا قصہ بن جاتے ہیں ۔ سورہ شعراء میں نبوت کا منصب قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے حضرت معسی عرض کرتے ہیں کہ قوم فرعون کا ایک جرم میرے ذمہ ہے جس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ وہاں جاؤں گا تو وہ مجھے قتل کردیں گے ۔ پھر جب حضرت موسی فرعون فرعون کے ہاں تشریف لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کیا ہم نے اپنے ہاں تجھے بچہ سا نہیں پالا تھا ، اور تو ہمارے ہاں چند سال رہا پھر کر گیا جو کچھ کہ کر گیا ۔ ان دونوں باتوں کی کوئی تفصیل وہاں نہیں بیان کی گئی ۔ اس سورے میں اسے بتفصیل بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ نمل میں قصہ یکایک اس بات سے شروع ہوگیا ہے کہ حضرت موسی اپنے اہل و عیال کو لے کر جارہے تھے اور اچانک انہوں نے ایک آگ دیکھی ، وہاں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی کہ یہ کیسا سفر تھا ، کہاں سے وہ آرہے تھے اور کدھر جارہے تھے ، یہ تفصیل اس سورے میں بیان ہوئی ہے ، اس طرح یہ تینوں سورتیں ملکر قصہ موسی علیہ السلام کی تکمیل کردیتی ہیں ۔ موضوع اور مباحث: اس کا موضوع ان شبہات و اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر وارد کیے جارہے تھے ، اور ان عذرات کو قطع کرنا ہے جو آپ پر ایمان نہ لانے کے لیے پیش کیے جاتے تھے ۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے حضرت موسی کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو زمانہ نزول کے حالات سے ملکر خود بخود چند حقیقتیں سامع کے ذہن نشین کردیتا ہے ۔ اول یہ کہ اللہ تعالی جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس کے لیے وہ غیر محسوس طریقے سے اسباب و ذرائع فراہم کردیتا ہے ، جس بچے کے ہاتھوں آخرکار فرعون کا تختہ الٹنا تھا اسے اللہ نے خود فرعون ہی کے گھر میں اس کے اپنے ہاتھوں پرورش کرادیا اور فرعون یہ نہ جان سکا کہ وہ کسے پرورش کرہا ہے ، اس خدا کی مشیت سے کون لڑ سکتا ہے اور کس کی چالیں اس کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ نبوت کسی شخص کو کسی بڑے جشن اور زمین و آسمان سے کسی بھاری اعلان کے ساتھ نہیں دی جاتی ، تم کو حیرت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوچپکے سے یہ نبوت کہاں سے مل گئی اور بیٹھے بٹھائے یہ نبی کیسے بن گئے ۔ مگر جن موسی ( علیہ السلام ) کا تم خود حوالہ دیتے ہو کہ لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي ، ( آیت 48 ) انہیں بھی اسی طرح راہ چلتے نبوت مل گئی تھی اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی تھی کہ آج طور سینا کی سنسان وادی میں کیا واقعہ پیش آگیا ۔ موسی خود ایک لمحے پہلے تک نہ جانتے تھے کہ انہیں کیا چیز ملنے والی ہے ، آگے لینے چلے تھے اور پیمبری مل گئی ۔ تیسرے یہ کہ جس بندے سے خدا کوئی کام لینا چاہتا ہے وہ بغیر کسی لاؤ لشکر اور سرو سامان کے اٹھتا ہے ۔ کوئی اس کا مددگار نہیں ہوتا ، کوئی طاقت بظاہر اس کے پاس نہیں ہوتی ، مگر بڑے بڑے لاؤ لشکر اور سروسامان والے آخر کار اس کے مقابلے میں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ جو نسبت آج تم اپنے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے درمیان پار ہے ہوا اس سے بہت زیادہ فرق موسی ( علیہ السلام ) اور فرعون کی طاقت کے درمیان تھا ، مگر دیکھ لو کہ آخر کون جیتا اور کون ہارا ۔ چوتھے یہ کہ تم لوگ باربار موسی کا حوالہ دیتے ہو کہ محمد کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسی کو دیا گیا تھا ۔ یعنی عصا اور ید بیضا اور دوسرے کھلے کھلے معجزے ۔ گویا تم ایمان لانے کو تیار بیٹھے ہو ، بس انتظار ہے تو یہ کہ تمہیں وہ معجزے دکھائے جائیں جو موسی نے فرعون کو دکھائے تھے ، مگر تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ جن لوگوں کو وہ معجزے دکھائے گئے تھے انہوں نے کیا کیا تھا ؟ وہ انہیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائ؁ ، انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ یہ جادو ہے ، کیونکہ وہ حق کے خلاف ہٹ دھرمی اور عناد میں مبتلا تھے ، اسی مرض میں آج تم مبتلا ہو ، کیا تم اسی طرح کے معجزے دیکھ کر ایمان لے آؤ گے؟ پھر تمہیں کچھ یہ بھی خبر ہے کہ جن لوگوں نے وہ معجزے دیکھ کر حق کا انکار کیا تھا ان کا انجام کیا ہوا ؟ آخر کار اللہ نے انہیں تباہ کرکے چھوڑا ، اب کیا تم بھی ہٹ دھرمی کے ساتھ معجزہ مانگ کر اپنی شامت بلانا چاہتے ہو؟ یہ وہ باتیں ہیں جو کسی تصریح کے بغیر آپ سے آپ ہر اس شخص کے زہن میں اتر جاتی تھیں جو مکے کے کافرانہ ماحول میں اس قصے کو سنتا تھا ، کیونکہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان ویسی ہی ایک کشمکش برپا تھی جیسی اس سے پہلے فرعون اور حضرت موسی کے درمیان برپا ہوچکی تھی اور ان حالات میں یہ قصہ سنانے کے معنی یہ تھے کہ اس کا ہر ہر جز وقت کے حالات پر خودبخود چسپاں ہوتا چلا جائے ، خواہ ایک لفظ بھی ایسا نہ کہا جائے جس سے معلوم ہو کہ قصے کا کون سا جز اس وقت کے کس معاملے پر چسپاں ہورہا ہے ۔ اس کے بعد پانچویں رکوع سے اصل موضوع پر براہ راست کلام شروع ہوتا ہے ۔ پہلے اس بات کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ آپ امی ہونے کے باوجود دو ہزار برس پہلے گزرا ہوا ایک تاریخی واقعہ اس تفصیل کے ساتھ من وعن سنا رہے ہیں ، حالانکہ آپ کے شہر اور آپ کی برادری کے لوگ خوب جانتے تھے کہ آپ کے پاس ان معلومات کے حاصل ہونے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس کی وہ نشان دہی کرسکیں ۔ پھر آپ کے نبی بنائے جانے کو ان لوگوں کے حق میں اللہ کی ایک رحمت قرار دیا جاتا ہے کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے اور اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے یہ انتظام کیا ۔ پھر ان کے اس اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے جو وہ باربار پیش کرتے تھے کہ یہ نبی وہ معجزے کیوں نہ لایا جو اس سے پہلے موسی لائے تھے ۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ موسی جن کے متعلق تم خود مان رہے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے معجزے لائے تھے ، انہی کو تم نے کب مانا ہے کہ اب اس نبی سے معجزے کا مطالبہ کرتے ہو؟ خواہشات نفس کی بندگی نہ کرو و حق اب بھی تمہیں نظر آسکتا ہے ، لیکن اگر اس مرض میں تم مبتلا رہو تو خواہ کوئی معجزہ آجائے تمہاری آنکھیں نہیں کھل سکتیں ۔ پھر کفار مکہ کو اس واقعہ پر عبرت اور شرم دلائی گئی ہے جو اسی زمانے میں پیش آیا تھا کہ باہر سے کچھ عیسائی مکہ آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سن کر ایمان لے آئے ، مگر مکہ کے لوگ اپنے گھر کی اس نعمت سے مستفید تو کیا ہوتے ، ان کے ابو جہل نے الٹی ان لوگوں کی کھلم کھلا بے عزتی کی ۔ آخر میں کفار مکہ کے اس اصل عذر کو لیا جاتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ ماننے کے لیے وہ پیش کرتے تھے ، ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہم اہل عرب کے دین شرک کو چھوڑ کر اس نئے دین توحید کو قبول کرلیں تو یکایک اس ملک سے ہماری مذہبی ، سیاسی اور معاشی چودھراہٹ ختم ہوجائے گی اور ہمارا حال یہ ہوگا کہ عرب کے سبسے زیادہ بااثر قبیلے کی حیثیت کھو کر اس سرزمین میں ہمارے لیے کوئی جائے پناہ تک باقی نہ رہے گی ۔ یہ چونکہ سرداران قریش کی حق دشمنی کا اصل محرک تھا اور باقی سارے شبہات و اعتراضات محض بہانے تھے وج وہ عوام کو فریب دینے کے لیے تراشتے تھے ، اس لیے اللہ تعالی نے اس پر آخر سورہ تک مفصل کلام فرمایا ہے اور اس کے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈال کر نہایت حکیمانہ طریقے ان تمام بنیادی امراض کا مداوا کیا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ حق اور باطل کا فیصلہ دنیوی مفاد کے نقطہ نظر سے کرتے تھے ۔
حروف مقطعہ کا بیان پہلے ہوچکاہے ۔ یہ آیتیں ہیں واضح جلی روشن صاف اور کھلے قرآن کی تمام کاموں کی اصلیت اب گذشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور سب سچی اور کھلی ۔ ہم تیرے سامنے موسیٰ اور فرعون کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ہم تیرے سامنے بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ اس طرح کہ گویا تو اس کے ہونے کے وقت وہیں موجود تھا ۔ فرعون ایک متکبر سرکش اور بددماغ انسان تھا ۔ اس نے لوگوں پر بری طرح قبضہ جمارکھا تھا اور انہیں آپس میں لڑوا لڑوا کر ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈلوا کر انہیں کمزور کرکے خود ان پر جبر وتعدی کے ساتھ سلطنت کر رہا تھا ۔ خصوصا بنی اسرائیل کو تو اس ظالم نے نیست ونابود کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ اور دن رات یہ بےچارے بیکار میں گھیسٹے جاتے تھے ۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈانہ ہوتا تھا یہ ان کی نرینہ اولاد کو قتل کروا ڈالتا تھا ۔ تاکہ یہ افرادی قوت سے محروم رہیں قوت والے نہ ہوجائیں اور اس لئے بھی کہ یہ ذلیل وخوار رہیں اور اس لئے بھی کہ اسے ڈر تھا کہ ان میں سے ایک بچے کے ہاتھوں میری سلطنت تباہ ہونے والی ہے ۔ بات یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام مصر کی حکومت میں سے مع اپنی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کے جا رہے تھے اور یہاں کے سرکش بادشاہ نے حضرت سارہ کو لونڈی بنانے کے لئے آپ سے چھین لیا جنہیں اللہ نے اس کافر سے محفوظ رکھا اور اسے آپ پردست درازی کرنے کی قدرت ہی حاصل نہ ہوئی تو اس وقت حضرت ابراہیم نے بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ تیری اولاد میں سے ایک کی اولاد کے لڑکے کے ہاتھوں ملک مصر اس قوم سے جاتا رہے گا اور انکا بادشاہ اس کے سامنے ذلت کے ساتھ ہلاک ہوگا ۔ چونکہ یہ روایت چلی آرہی تھی اور ان کے درس میں ذکر ہوتا رہتا تھا جسے قبطی بھی سنتے تھے جو فرعون کی قوم تھی ، انہوں نے دربار میں مخبری کی جب سے فرعون نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ قانوں بنادیا کہ بنو اسرائیل کے بچے قتل کردئے جائیں اور ان کی بچیاں چھوڑ دی جائیں ۔ لیکن رب کو جو منظور ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر ہو کر ہی رہتا ہے حضرت موسیٰ زند رہ گئے اور اللہ نے آپ کے ہاتھوں اس عاری سرکش کوذلیل وخوار کیا ، فالحمدللہ چنانچہ فرمان ہے کہ ہم نے ان ضعیفوں اور کمزوروں پر رحم کرنا چاہا ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت کا پورا ہونا یقینی ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ بِمَا صَبَرُوْا ۭوَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ١٣٧؁ ) 7- الاعراف:137 ) آپ نے اس گری پڑی قوم کو ان کی تمام چیزوں کا مالک بنادیا ۔ فرعون نے اپنی تمام ترطاقت کا مظاہرہ کیا لیکن اسے اللہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا ۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا اور جس ایک بچے کی خاطر ہزاروں بےگناہ بچوں کا خون ناحق بہایا تھا ۔ اس بچے کو قدرت نے اسی کی گود میں پلوایا ، پروان چڑھایا ، اور اسی کے ہاتھوں اسکا اسکے لشکر کا اور اسکے ملک ومال کا خاتمہ کرایا تاکہ وہ جان لے اور مان لے کہ وہ اللہ کا ذلیل مسکین بےدست وپا غلام تھا اور رب کی چاہت پر کسی کی چاہت غالب نہیں آسکتی ۔ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو اللہ نے مصر کی سلطنت دی اور فرعوں جس سے خائف تھا وہ سامنے آگیا اور تباہ وبرباد ہوا ۔ فالحمد للہ