Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَقَالَتِ امۡرَاَتُ فِرۡعَوۡنَ قُرَّتُ عَيۡنٍ لِّىۡ وَلَكَ‌ ؕ لَا تَقۡتُلُوۡهُ ‌ۖ  عَسٰٓى اَنۡ يَّـنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَـتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿9﴾
اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، اسے قتل نہ کرو بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنالیں اور یہ لوگ شعور ہی نہیں رکھتے تھے ۔
و قالت امرات فرعون قرت عين لي و لك لا تقتلوه عسى ان ينفعنا او نتخذه ولدا و هم لا يشعرون
And the wife of Pharaoh said, "[He will be] a comfort of the eye for me and for you. Do not kill him; perhaps he may benefit us, or we may adopt him as a son." And they perceived not.
Aur firaon ki biwi ney kaha kay yeh to teri aur meri aankhon ki thandak hai issay qatal na kero boht mumkin hai kay yeh humen koi faeeda phonchaye ya hum issay apna hi beta bana len aur yeh log shaoor hi na rakhtay thay.
اور فرعون کی بیوی نے ( فرعون سے ) کہا کہ : یہ بچہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ اسے قتل نہ کرو ، کچھ بعید نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے ، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں ۔ اور ( یہ فیصلہ کرتے وقت ) انہیں انجام کا پتہ نہیں تھا ۔
اور فرعون کی بی بی نے کہا ( ف۲۰ ) یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، اسے قتل نہ کرو ، شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں ( ف۲۱ ) اور وہ بےخبر تھے ( ف۲۲ )
فرعون کی بیوی نے ﴿اس سے﴾ کہا ” یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، اسے قتل نہ کرو ، کیا عجب کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو ، یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں ۔ ”12 اور وہ ﴿انجام سے﴾ بے خبر تھے ۔
اور فرعون کی بیوی نے ( موسٰی علیہ السلام کو دیکھ کر ) کہا کہ ( یہ بچہ ) میری اور تیری آنکھ کے لئے ٹھنڈک ہے ۔ اسے قتل نہ کرو ، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور وہ ( اس تجویز کے انجام سے ) بے خبر تھے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 12 اس بیان سے جو صورت معاملہ صاف سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تابوت یا ٹوکرا دریا میں بہتا ہوا جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے ، تو فرعون کے خدام نے اسے پکڑ لیا اور لے جاکر بادشاہ اور ملکہ کے سامنے پیش کردیا ۔ ممکن ہے کہ بادشاہ اور ملکہ خود اس وقت دریا کے کنارے سیر میں مشغول ہوں اور ان کی نگاہ اس ٹوکرے پر پڑی ہو اور انہی کے حکم سے وہ نکالا گیا ہو ۔ اس میں ایک بچہ پڑا ہوا دیکھ کر بآسانی یہ قیاس کیا جاسکتا تھا کہ یہ ضرور کسی اسرائیلی کا بچہ ہے ، کیونکہ وہ ان محلوں کی طرف سے آرہا تھا جن میں بنی اسرائٰل رہتے تھے ، اور انہی کے بیٹے اس زمانے میں قتل کیے جارہے تھے ، اور انہی کے متعلق یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ کسی نے بچے کو چھپا کر کچھ مدت تک پالا ہے اور پھر جب وہ زیادہ دیر چھپ نہ سکا تو اب اسے اس امید پر دریا میں ڈال دیا ہے کہ شاید اسی طرح اس کی جان بچ جائے اور کوئی اسے نکال کر پال لے ۔ اسی بنا پر کچھ ضرورت سے زیادہ وفادار غلاموں نے عرض کیا کہ حضور اسے فورا قتل کرادیں ، یہ بھی کوئی بچہ افعی ہی ہے ، لیکن فرعون کی بیوی آخر عورت تھی اور بعید نہیں کہ بے اولاد ہو ، پھر بچہ بھی بہت پیاری صورت کا تھا ، جیسا کہ سورہ طہ میں اللہ تعالی خود حضرت موسی کو بتاتا ہے کہ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ( میں نے اپنی طرف سے تیرے اوپر محبت ڈال دی تھی ) یعنی تجھے ایسی موہنی صورت دی تھی کہ دیکھنے والوں کو بے اختیار تجھ پر پیار آجاتا تھا اس لیے اس عورت سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو بلکہ لے کر پال لو ۔ یہ جب ہمارے ہاں پرورش پائے گا اور ہم اسے اپنا بیٹھا بنا لیں گے تو اسے کیا خبر ہوگی کہ میں اسرائیلی ہوں ۔ یہ اپنے آپ کو آل فرعون ہی کا ایک فرد سمجھے گا اور اس کی قابلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کام آئیں گی ۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ عورت جس نے حضرت موسی کو پالنے اور بیٹا بنانے کے لیے کہا تھا فرعون کی بیٹی تھی ۔ لیکن قرآن صاف الفاظ میں اسے امرأۃ فرعون ( فرعون کی بیوی ) کہتا ہے اور ظاہر ہے کہ صدیوں بعد مرتب کی ہوئی زبانی روایات کے مقابلے میں براہ راست اللہ تعالی کا بیان ہی قابل اعتماد ہے ۔ کوئی وجہ نہیں کہ خواہ مخواہ اسرائیلی روایات سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر عربی محاورہ و استعمال کے خلاف امرأۃ فرعون کے معنی فرعون کے خاندان کی عورت کیے جائیں ۔