Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَلَوۡلَاۤ اَنۡ تُصِيۡبَـهُمۡ مُّصِيۡبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ فَيَقُوۡلُوۡا رَبَّنَا لَوۡلَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَـيۡنَا رَسُوۡلًا فَنَـتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَـكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿47﴾
اگر یہ بات نہ ہوتی کہ انہیں ان کے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا ؟کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اور ایمان والوں میں سے ہو جاتے ۔
و لو لا ان تصيبهم مصيبة بما قدمت ايديهم فيقولوا ربنا لو لا ارسلت الينا رسولا فنتبع ايتك و نكون من المؤمنين
And if not that a disaster should strike them for what their hands put forth [of sins] and they would say, "Our Lord, why did You not send us a messenger so we could have followed Your verses and been among the believers?"...
Agar yeh baat na hoti kay enhen unn kay apnay hathon aagay bhejay huyey aemaal ki waja say koi naseehat phonchti to yeh keh uthtay kay aey humaray rab! Tu ney humari taraf koi rasool kiyon na bheja? Kay hum teri aayaton ki tabeydaari kertay aur eman walon mein say ho jatay.
اور تاکہ جب ان لوگوں پر ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی مصیبت آئی تو وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ : ہمارے پروردگار ! آپ نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم آپ کی آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان والوں میں بھی شامل ہوجاتے؟
اور اگر نہ ہوتا کہ کبھی پہنچتی انھیں کوئی مصیبت ( ف۱۲۰ ) اس کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ( ف۱۲۱ ) تو کہتے ، اے ہمارے رب! تو نے کیوں نہ بھیجا ہماری طرف کوئی رسول کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان لاتے ( ف۱۲۲ )
﴿اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ﴾ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اپنے کیے کرتوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب ان پر آئے تو وہ کہیں ” اے پروردگار ، تو نے کیوں نہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہل ایمان میں سے ہوتے ۔ ” 66
اور ( ہم کوئی رسول نہ بھیجتے ) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچے ان کے اعمالِ بد کے باعث جو انہوں نے خود انجام دیئے تو وہ یہ نہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجاتے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 66 اسی چیز کو قرآن مجید متعدد مقامات پر رسولوں کے بھیجے جانے کی وجہ کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اس غرض کے لیے ہر وقت ہر جگہ ایک رسول آنا چاہیے ۔ جب تک دنیا میں ایک رسول کا پیغام اپنی صحیح صورت میں موجود رہے اور لوگوں تک اس کے پہنچنے کے ذرائع موجود رہیں ، کسی نئے رسول کی حاجت نہیں رہتی ، الا یہ کہ پچھلے پیغام میں کسی اضافے کی اور کوئی نیا پیغام دینے کی ضرورت ہو ۔ البتہ جب انبیاء کی تعلیمات محو ہوجائیں ، یا گمراہیوں میں خلط ملط ہوکر وسیلہ ہدایت بننے کے قابل نہ رہیں ، تب لوگوں کے لیے یہ عذر پیش کرنے کا موقع پیدا ہوجاتا ہے کہ ہمیں حق و باطل کے فرق سے آگاہ کرنے اور صحیح راہ بتانے کا کوئی انتظام سرے سے موجود ہی نہیں تھا ، پھر بھلا ہم کیسے ہدایت پاسکتے تھے ، اسی عذر کو قطع کرنے کے لیے اللہ تعالی ایسے حالات میں نبی مبعوث فرماتا ہے تاکہ اس کے بعد جو شخص بھی غلط راہ پر چلے وہ اپنی کجروی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے ۔