Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
فَلَمَّا جَآءَهُمُ الۡحَـقُّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوۡا لَوۡلَاۤ اُوۡتِىَ مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِىَ مُوۡسٰى‌ ؕ اَوَلَمۡ يَكۡفُرُوۡا بِمَاۤ اُوۡتِىَ مُوۡسٰى مِنۡ قَبۡلُ ‌ۚ قَالُوۡا سِحۡرٰنِ تَظَاهَرَا وَقَالُوۡۤا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿48﴾
پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہتے ہیں کہ یہ وہ کیوں نہیں دیا گیا جیسے دیئے گئے تھے موسیٰ ( علیہ السلام ) اچھا تو کیا موسیٰ ( علیہ السلام ) کو جو کچھ دیا گیا تھا اس کے ساتھ لوگوں نے کفر نہیں کیا تھا صاف کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم تو ان سب کے منکر ہیں ۔
فلما جاءهم الحق من عندنا قالوا لو لا اوتي مثل ما اوتي موسى او لم يكفروا بما اوتي موسى من قبل قالوا سحرن تظهرا و قالوا انا بكل كفرون
But when the truth came to them from Us, they said, "Why was he not given like that which was given to Moses?" Did they not disbelieve in that which was given to Moses before? They said, "[They are but] two works of magic supporting each other, and indeed we are, in both, disbelievers."
Phir jab unn kay pass humari taraf say haq aa phoncha to kehtay hain kay yeh woh kiyon nahi diya gaya jesay diyey gaye thay musa ( alh-e-salam ) acha to kiya musa ( alh-e-salam ) ko jo kuch diya gaya tha uss kay sath logon ney kufur nahi kiya tha saaf kaha tha kay yeh dono jadoogar hain jo aik doosray kay madadgaar hain aur hum to inn sab kay munkir hain.
پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آگیا تو کہنے لگے کہ : اس پیغمبر کو اس جیسی چیز کیوں نہیں دی گئی جیسی موسیٰ ( علیہ السلام ) کو دی گئی تھی؟ ( ٢٧ ) حالانکہ جو چیز موسیٰ کو دی گئی تھی کیا انہوں نے پہلے ہی اس کا انکار نہیں کردیا تھا؟ انہوں نے کہا تھا کہ : یہ دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں ، اور ہم ان میں سے ہر ایک کے منکر ہیں ۔
پھر جب ان کے پاس حق آیا ( ف۱۲۳ ) ہماری طرف سے بولے ( ف۱۲٤ ) انھیں کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا ( ف۱۲۵ ) کیا اس کے منکر نہ ہوئے تھے جو پہلے موسیٰ کو دیا گیا ( ف۱۲٦ ) بولے دو جادو ہیں ایک دوسرے کی پشتی ( امداد ) پر ، اور بولے ہم ان دونوں کے منکر ہیں ( ف۱۲۷ )
مگر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آگیا تو وہ کہنے لگے ” کیوں نہ دیا گیا اس کو وہی کچھ جو موسی ( علیہ السلام ) کو دیا گیا تھا ؟ 67 ” کیا یہ لوگ اس کا انکار نہیں کر چکے ہیں جو اس سے پہلے موسی ( علیہ السلام ) کو دیا گیا تھا ؟ 68 انہوں نے کہا ” دونوں جادو ہیں 69 جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ ” اور کہا ” ہم کسی کو نہیں مانتے ۔ ”
پھر جب ان کے پاس ہمارے حضور سے حق آپہنچا ( تو ) وہ کہنے لگے کہ اس ( رسول ) کو ان ( نشانیوں ) جیسی ( نشانیاں ) کیوں نہیں دی گئیں جو موسٰی ( علیہ السلام ) کو دی گئیں تھیں؟ کیا انہوں نے ان ( نشانیوں ) کا انکار نہیں کیا تھا جو اس سے پہلے موسٰی ( علیہ السلام ) کو دی گئی تھیں؟ وہ کہنے لگے کہ دونوں ( قرآن اور تورات ) جادو ہیں ( جو ) ایک دوسرے کی تائید و موافقت کرتے ہیں ، اور انہوں نے کہا کہ ہم ( ان ) سب کے منکر ہیں
سورة القصص حاشیہ نمبر : 67 یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سارے معجزے کیوں نہ دیے گئے جو حجرت موسی کو دیے گئے تھے ، یہ بھی عصا کا اژدھا بنا کر ہمیں دکھاتے ، ان کا ہاتھ بھی سورج کی طرح چمک اٹھتا ، جھٹلانے والوں پر ان کے اشارے سے بھی پے درپے طوفانوں اور زمین و آسمان سے بلاؤں کا نزول ہوتا اور یہ بھی پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام لاکر ہمیں دیتے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 68 یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے ، مطلب یہ ہے کہ ان معجزوں کے باوجود موسی ہی پر تم کب ایمان لائے تھے جو اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مطالبہ کر رہے ہو ، تم خود کہتے ہو کہ موسی کو یہ معجزے دیے گئے تھے ، مگر پھر بھی ان کو نبی مان کر ان کی پیروی تم نے کبھی قبول نہیں کی ، سورہ سبا آیت 31 میں بھی کفار مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ نہ ہم اس قرآن کو مانیں گے نہ ان کتابوں کو جو اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 69 یعنی قرآن اور توراۃ ۔
پہلے بیان ہوا کہ اگر نبیوں کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان پر عذاب بھیج دیتے تو ان کی یہ بات رہ جاتی کہ اگر رسول ہمارے پاس آتے تو ہم ضرور ان کی مانتے اس لیے ہم نے رسول بھیجے ۔ بالخصوص رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر الزمان رسول بنا کر بھیجا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکے پاس پہنچے تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں منہ موڑلیا اور تکبر عناد کیساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہنے لگے جیسے حضرت موسیٰ کو بہت معجزات دئے گئے تھے جیسے لکڑی اور ہاتھ طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک خون اور اناج کی پھلوں کی کمی وغیرہ جن سے دشمنان الٰہی تنگ آئے اور دریاکو چیرنا اور ابر کا سایہ کرنا اور من وسلویٰ کا اتارنا وغیرہ جو زبردست اور بڑے بڑے معجزے تھے انہیں کیوں نہیں دئیے گئے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ لوگ جس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جس جیسے معجزے طلب کر رہے ہیں یہ خود انہی معجزوں کو کلیم اللہ کے ہاتھ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی کون سا ایمان لائے تھے؟ جو ان کے ایمان کی تمناکرے؟ انہوں نے تو یہ معجزے دیکھ کر صاف کہا تھا یہ دونوں بھائی ہمیں اپنے بڑوں کی تابعداری سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنی بڑائی ہم سے منوانا چاہتے ہیں ہم تو ہرگز انہیں مان کر نہیں دیں گے دونوں نبیوں کو جھٹلاتے رہے آخر انجام ہلاک کردئیے گئے تو فرمایا کہ ان بڑے جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تھے انہوں نے خود موسیٰ کیساتھ کفر کیا اور ان معجزوں کو دیکھ کر صاف کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں بھائی آپس میں متفق ہو کر ہمیں زیر کرنے اور خود بڑا بننے کے لئے آئے ہیں تو ہم تو ان دونوں میں سے کسی کی بھی نہیں ماننے کے ۔ یہاں گو ذکر صرف موسیٰ علیہ السلام کا ہے لیکن چونکہ حضرت ہارون انکے ساتھ ایسے گھل مل گئے تھے کہ گویا دونوں ایک تھے تو ایک کے ذکر کے کو دووسرے کے ذکر کے لئے کافی سمجھا ، جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ جب میں کسی جگہ کا ارادہ کرتا ہوں تو میں نہیں جانتا کہ وہاں مجھے نفع ملے گا یا نقصان ہوگا ؟ تو یہاں بھی شاعر نے خیر کا لفظ تو کہا مگر شرط کا لفظ بیان نہیں کیونکہ خیر وشر دونوں کی ملازمت مقاربت اور مصاحبت ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہودیوں نے قریش سے کہا کہ تم یہ اعتراض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرو انہوں نے کیا اور جواب پاکر خاموش رہے ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں جادوگروں سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کی مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس تیسرے قول میں تو بہت ہی بعد ہے اور دوسرے قول سے بھی پہلا قول مضبوط اور عمدہ ہے اور بہت قوی ہے واللہ اعلم ۔ یہ مطلب ساحران کی قرأت پر ہے اور جن کی قرأت سحران ہے وہ کہتے ہیں مراد تورات اور انجیل ہے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب ۔ لیکن اس قرأت پر بھی ظاہری تورات و قرآن کے معنی ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی فرمان اللہ ہے کہ تم ہی ان دونوں سے زیادہ ہدایت کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے لاؤ جس کی میں تابعداری کروں ۔ تورات اور قرآن کو اکثر ایک ہی جگہ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَهَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا ۚ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ ۭ قُلِ اللّٰهُ ۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِيْ خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ 91؀ ) 6- الانعام:91 ) پس یہاں تورات کے نور وہدایت ہونے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا آیت ( وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ١٥٥؀ۙ ) 6- الانعام:155 ) اور اس کتاب کو بھی ہم نے ہی بابرکت بناکر اتارا ہے ۔ اور سورت کے آخر میں فرمایا ( ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ ١٥٤؀ۧ ) 6- الانعام:154 ) پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرمان ہے ( وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ١٥٥؀ۙ ) 6- الانعام:155 ) اس ہماری اتاری ہوئی مبارک کتاب کی تم پیروی کرو اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے جنات کا قول قرآن میں ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے وہ کتاب سنی جو موسیٰ کے بعد اتاری گئی ہے جو اپنے سے پہلے کی اور الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ۔ ورقہ بن نوفل کا مقولہ حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا یہ وہی اللہ کے راز داں بھی دی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ جس شخص نے غائر نظر سے علم دین کا مطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ عظمت وشرافت والی عزت وکرامت والی کتاب تو یہی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو اللہ تعالیٰ حمید و مجید نے اپنے رؤف ورحیم نبی آخر الزمان پر نازل فرمائی اس کے بعد تورات شریف کا درجہ ہے جس میں ہدایت ونور تھا جس کے مطابق انیباء اور انکے ماتحت حکم احکام جاری کرتے رہے ۔ انجیل تو صرف توراۃ کو تمام کرنے والی اور بعض حرام کو حلال کرنے والی تھی اس لیے فرمایا کہ ان دونوں کتابوں سے بہتر کتاب اگر تم اللہ کے ہاں سے لاؤ تو میں اس کی تابعداری کرونگا ۔ پھر فرمایا کہ جو آپ کہتے ہیں وہ بھی اگر یہ نہ کریں اور نہ آپ کی تابعداری کریں تو جان لے کہ دراصل انہیں دلیل برہان کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ یہ صرف جھگڑالو ہیں اور خواہش پرست ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ خواہش کے پابند لوگوں سے جو اللہ کی ہدایت سے خالی ہوں بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ۔ اس میں انہماک کرکے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں وہ آخر تک راہ راست سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ ہم نے ان کے لیے تفصیلی قول بیان کردیا واضح کردیا صاف کردیا اگلی پچھلی باتیں بیان کردیں قریشوں کے سامنے سب کچھ ظاہر کردیا ۔ بعض مراد اس سے رفاعہ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ کے اور نو آدمی ۔ یہ رفاعہ حضرت صفیہ بن حی کے ماموں ہیں جنہوں نے تمیمیہ بن وہب کو طلاق دی تھی جن کا دوسرا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہوا تھا ۔