Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
اَلَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِهٖ هُمۡ بِهٖ يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿52﴾
جس کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وہ تو اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔
الذين اتينهم الكتب من قبله هم به يؤمنون
Those to whom We gave the Scripture before it - they are believers in it.
Jiss ko hum ney iss say pehlay kitab inayat farmaee woh to uss per bhi eman rakhtay hain.
جن کو ہم نے قرآن سے پہلے آسمانی کتابیں دی ہیں ، وہ اس ( قرآن ) پر ایمان لاتے ہیں ، ( ٢٩ )
جن کو ہم نے اس سے پہلے ( ف۱۳۳ ) کتاب دی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ،
جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس ﴿قرآن﴾ پر ایمان لاتے ہیں ۔ 72
جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عطا کی تھی وہ ( اسی ہدایت کے تسلسل میں ) اس ( قرآن ) پر ( بھی ) ایمان رکھتے ہیں
سورة القصص حاشیہ نمبر : 72 اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام اہل کتاب ( یہودی اور عیسائی ) اس پر ایمان لاتے ہیں ، بلکہ یہ اشارہ دراصل اس واقعہ کی طرف ہے جو اس سورہ کے نزول کے زمانہ میں پیش آیا تھا ، اور اس سے اہل مکہ کو شرم دلانی مقصود ہے کہ تم اپنے گھر آئی ہوئی نعمت کو ٹھکرا رہے ہو حالانکہ دور دور کے لوگ اس کی خبر سن کر آرہے ہیں اور اس کی قدر پہچان کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اس واقعہ کو ابن ہشام اور بیہقی وغیرہ نے محمد بن اسحاق کے حوالہ سے اس طرح روایت کیا ہے کہ ہجرت حبشہ کے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میں پھیلیں تو وہاں سے 20 کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد حرام میں ملا ۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردو پیش کھڑے ہوگئے ۔ وفد کے لوگوں نے حضور سے کچھ سوالات کیے جن کا آپ نے جواب دیا ، پھر آپ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں ۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضور پر ایمان لے آئے ، جب مجلس برخاست ہوئی تو ابوجہل اور اس کے چند ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستہ میں جالیا اور انہیں سخت ملامت کی کہ بڑے نامراد ہو تم لوگ ، تمہارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ اور انہیں ٹھیک ٹھیک خبردو ، مگر تم ابھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے ۔ تم سے زیاہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں ۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ سلام ہے بھائیو تم کو ، ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں کرسکتے ، ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پر چلتے رہو ، ۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے ۔ ( سیرت ابن ہشام ج 2 ، ص 32 ۔ البدایہ والنہایہ ، ج 3 ، ص 82 ) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الشعراء ، حاشیہ 123 ۔
اہل کتاب علماء اہل کتاب کے علماء درحقیقت اللہ کے دوست تھے ان کے پاکیزہ اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں جیسے فرمان ہے جنہیں ہم نے کتاب دی ہے اور وہ سمجھ بوجھ کر پڑھتے ہیں ان کا تو اس قرآن پر ایمان ہے ۔ اور آیت میں ہے کہ بعض اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو اللہ کو مان کر تمہاری طرف نازل شدہ کتاب اور اپنی طرف اتری ہوئی کتاب کو بھی مانتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ اور جگہ ہے پہلے کے اہل کتاب ایسے بھی ہیں کہ ہمارے اس قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں کہ دعا ( وَّيَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا ١٠٨؁ ) 17- الإسراء:108 ) اور آیت میں ہے ( وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى ۭذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 82؀ ) 5- المآئدہ:82 ) یعنی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کے اعتبار سے سب لوگوں سے قریب تر انہیں پاؤ گے جو اپنے تئیں انصاری کہتے ہیں اس لیے کہ ان میں علماء اور مشائخ تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی حبشہ کے بھیجے ہوئے آئے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورۃ یاسین سنائی جسے سن کر یہ رونے لگے اور مسلمان ہوگئے ۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں اتریں کہ یہ انہیں سنتے ہی اپنے موحد مخلص ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور قبول کرکے مومن مسلم بن جاتے ہیں ۔ ان کی ان صفتوں پر اللہ بھی انہیں دوہرا اجر دیتا ہے ایک پہلی کتاب کو ماننے کا دوسرا قرآن کو تسلیم کرنے وتعمیل کا ۔ یہ اتباع حق پر ثابت قدمی کرتے ہیں جو دراصل ایک مشکل اور اہم کام ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے اہل کتاب جو اپنے نبی کو مان کر پھر مجھ پر بھی ایمان لائے ۔ غلام مملوک جو اپنے مجازی آقا کی فرماں برداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی بھی کرتا رہے اور وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جسے وہ ادب وعلم سکھائے پھر آزاد کرے اور اس سے نکاح کرلے ۔ قاسم بن ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں فتح مکہ والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کیساتھ ہی اور بالکل پاس ہی تھا ۔ آپ نے بہت بہترین باتیں ارشاد فرمائیں جن میں یہ بھی فرمایا کہ یہود ونصاری میں جو مسلمان ہوجائے اسے دوہرا دوہرا اجر ہے اور اس کے عام مسلمانوں کے برابر حقوق ہیں ۔ پھر ان کے نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں ۔ کہ یہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں ۔ درگزر کردیتے ہیں ۔ اور نیک سلوک ہی کرتے ہیں اور اپنی حلال روزیاں اللہ کے نام خرچ کرتے ہیں اپنے بال بچوں کا پیٹ بھی پالتے ہیں زکوٰۃ صدقات وخیرات میں بھی بخیلی نہیں کرتے ۔ لغویات سے بچے ہوئے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے دوستیاں نہیں کرتے ایسی مجلسوں سے دور رہتے ہیں بلکہ اگر اچانک گزر ہو بھی جائے تو بزرگانہ طور پر ہٹ جاتے ہیں ایسوں سے میل جول الفت محبت نہیں کرتے صاف کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری کرنی تمہارے ساتھ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ ۔ یعنی جاہلوں کی سخت کلامی برداشت کرلیتے ہیں انہیں ایسا جواب نہیں دیتے کہ وہ اور بھڑکیں بلکہ چشم پوشی کرلیتے ہیں اور کترا کر نکل جاتے ہیں ۔ چونکہ خود پاک نفس ہیں اس لئے پاکیزہ کلام ہی منہ سے نکالتے ہیں ۔ کہہ دیتے ہیں کہ تم پر سلام ہو ، ہم نہ جاہلانہ روش پر چلیں نہ جہلات کی چال کو پسند کریں ۔ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ حبشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تقریبا بیس نصرانی آئے ۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے یہیں یہ بھی بیٹھ گئے اور بات چیت شروع کی اس وقت قریشی اپنی اپنی بیٹھکوں میں کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تے ۔ ان عیسائی علماء نے جب سوالات کرلئے اور جوابات سے ان کی تشفی ہوگئی تو آپ نے دین اسلام ان کے سامنے پیش کیا اور قرآن کریم کی تلاوت کرکے انہیں سنائی ۔ چونکہ یہ لوگ پڑھے لکھے سنجیدہ اور روشن دماغ تھے قرآن نے ان کے دلوں پر اثر کیا اور ان کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ انہوں نے فورا دین اسلام قبول کرلیا اور اللہ پر اور اللہ کے رسول پر ایمان لائے ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفتیں انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھی تھیں سب آپ میں موجود پائیں ۔ جب یہ لوگ آپ کے پاس جانے لگے تو ابو جہل بن ہشام ملعون اپنے آدمیوں کو لئے ہوئے انہیں راستے میں ملا اور تمام قریشیوں نے مل کر انہیں طعنے دینے شروع کئے اور برا کہنے لگے کہ تم سے بدترین وفد کسی قوم کا ہم نے نہیں دیکھا تمہاری قوم نے تمہیں اس شخص کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا یہاں تم نے آبائی مذہب کو چھوڑ دیا اور اس کا ایسا رنگ تم پر چڑھا کہ ذراسی دیر میں اپنے دین کو ترک کرکے دین بدلدیا اور اسی کا کلمہ پڑھنے لگے تم سے زیادہ احمق ہم نے کسی کو نہیں دیکھا ۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ سب سن لیا اور جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جاہلانہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے ہمارا دین ہمارے ساتھ تمہارا مذہب تمہارے ساتھ ۔ ہم نے جس بات میں اپنی بھلائی دیکھی اسے قبول کرلیا ۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ وفد نجران کے نصرانیوں کا تھا واللہ اعلم ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں اتری ہیں ۔ حضرت زہری سے ان آیتوں کا شان نزول پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں تو اپنے علماء سے یہی سنتا چلا آیا ہوں کہ یہ آیتیں نجاشی اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہیں ۔ اور سورۃ مائدہ کی آیتیں ( ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 82؀ ) 5- المآئدہ:82 ) تک کی آیتیں بھی انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔