Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَاِذَا يُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا مِنۡ قَبۡلِهٖ مُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿53﴾
اور جب اس کی آیتیں ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں ۔
و اذا يتلى عليهم قالوا امنا به انه الحق من ربنا انا كنا من قبله مسلمين
And when it is recited to them, they say, "We have believed in it; indeed, it is the truth from our Lord. Indeed we were, [even] before it, Muslims [submitting to Allah ]."
Aur jab uss ki aayaten unn kay pass parhi jati hain to woh keh detay hain kay iss kay humaray rab ki taraf say haq honey per humara eman hai hum to iss say pehlay hi musalman hain.
اور جب وہ ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ : ہم اس پر ایمان لائے ، یقینا یہ برحق کلام ہے جو ہمارے پروردگار کی طرف سے آیا ہے ۔ ہم تو اس سے پہلے بھی اسے مانتے تھے ۔
اور جب ان پر یہ آیتیں پڑھی جاتی ہیں کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، بیشک یہی حق ہے ہمارے رب کے پاس سے ہم اس سے پہلے ہی گردن رکھ چکے تھے ( ف۱۳٤ )
اور جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ” ہم اس پر ایمان لائے ، یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں ۔ ” 73
اور جب ان پر ( قرآن ) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لائے بیشک یہ ہمارے رب کی جانب سے حق ہے ، حقیقت میں تو ہم اس سے پہلے ہی مسلمان ( یعنی فرمانبردار ) ہوچکے تھے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 73 یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء اور کتب آسمانی کے ماننے والے تھے ، اس لیے اسلام کے سوا ہمارا کوئی اور دین نہ تھا ، اور اب جو نبی اللہ تعالی کی طرف سے کتاب لے کر آیا ہے اسے بھی ہم نے مان لیا ہے ، لہذا درحقیقت ہمارے دین میں کوئٰ تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے ہم پہلے مسلمان تھے ویسے ہی اب بھی مسلمان ہیں ۔ یہ قول اس بات کی صاف صراحت کردیتا ہے کہ اسلام صرف اس دین کا نام نہیں ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ، اور مسلم کی اصطلاح کا اطلاق محض حضور کے پیرووں تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام تھا اور ہر زمانہ میں ان سب کے پیرو مسلمان ہی تھے ۔ یہ مسلمان اگر کبھی کافر ہوئے تو صرف اس وقت جبکہ کسی بعد کے آنے والے نبی صادق کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا ، لیکن جو لوگ پہلے نبی کو مانتے تھے اور بعد کے آنے والے نبی پر بھی ایمان لے آئے ان کے اسلام میں کوئی انقطاع نہیں ہوا ۔ وہ جیسے مسلمان پہلے تھے ویسے ہی بعد میں رہے ۔ تعجب ہے کہ بعض بڑے بڑے اہل علم بھی اس حقیقت کے ادراک سے عاجز رہ گئے ہیں ، حتی کہ اس صریح آیت کو دیکھ کر بھی ان کا اطمینان نہ ہوا ۔ علامہ سیوطی نے ایک مفصل رسالہ اس موضوع پر لکھا کہ مسلم کی اصطلاح صرف امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہے ۔ پھر جب یہ آیت سامنے آئی تو خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، لیکن کہتے ہیں کہ میں نے پھر خدا سے دعا کی کہ اس معاملہ میں مجھے شرح صدر عطا کردے ۔ آخر کار اپنی رائے سے رجوع کرنے کے بجائے انہوں نے اس پر اصرار کیا اور اس آیت کی متعدد تاویلیں کر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر بے وزن ہیں ۔ مثلا ان کی ایک تاویل یہ ہے کہ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ ۔ کے معنی ہیں ہم قرآن کے آنے سے پہلے ہی مسلم بن جانے کا عزم رکھتے تھے کیونکہ ہمیں اپنی کتابوں سے اس کے آنے کی خبر مل چکی تھی اور ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جب وہ آئے گا تو ہم اسلام قبول کرلیں گے ۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ اس فقرے میں مُسْلِمِيْنَ کے بعد لفظ بِہٖ محذوف ہے ، یعنی پہلے ہی سے ہم قرآن کو مانتے تھے کیونکہ اس کے آنے کی ہم توقع رکھتے تھے اور اس پر پیشگی ایمان لائے ہوئے تھے ، اس لیے توراۃ و انجیل کو ماننے کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کو اس کے زول سے پہلے برحق مان لینے کی بنا پر ہم مسلم تھے ۔ تیسری تاویل یہ ہے کہ تقدیر الہی میں ہمارے لیے پہلے ہی مقدر ہوچکا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی آمد پر ہم اسلام قبول کرلیں گے اس لیے درحقیقت ہم پہلے ہی سے مسلم تھے ۔ ان تاویلوں میں سے کسی کو دیکھ کر بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ کے عطا کردہ شرح صدر کا اس میں کوئی اثر موجود ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن صرف اسی ایک مقام پر نہیں بلکہ بیسیوں مقامات پر اس اصولی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اصل دین صرف اسلام ( اللہ کی فرمانبرداری ) ہے ، اور خدا کی کائنات میں خدا کی مخلوق کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا دین ہو نہیں سکتا ، اور آغاز آفرینش سے جو نبی بھی انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے وہ یہی دین لے کر آیا ہے ، اور یہ کہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ خوش مسلم رہے ہیں ، اپنے پیرووں کو انہوں نے مسلم ہی بن کر رہنے کی تاکید ہے اور ان کے وہ سب متبعین جنہوں نے نبوت کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمان خداوندی کے آگے سرتسلیم خم کیا ، ہر زمانے میں مسلم ہی تھے ۔ اس سلسلہ میں مثال کے طور پر صرف چند آیات ملاحظہ ہوں ۔ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ( آل عمران ، آیت 19 ) درحقیقت اللہ کے نزدیک تو دین صرف اسلام ہے ۔ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ( آل عمران ، آیت 85 ) اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں: اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ( یونس ، آیت 72 ) میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلموں میں شامل ہوکر رہوں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ ۭيٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا ښ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ ( البقرہ ، آیت 131 تا 133 ) جبکہ اس کے رب نے اس سے کہا کہ مسلم ( تابع فرمان ) ہوجا ، تو اس نے کہا میں مسلم ہوگیا رب العالمین کے لیے ، اور اسی چیز کی وصیت کی ابراہم نے اپنی اولاد کو اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند کیا ہے لہذا تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ، کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی وفات کا وقت آیا ؟ جبکہ اس نے اپنی اولاد سے پوچھا کس کی بندگی کرو گے تم میرے بعد؟ انہوں نے جواب دیا ہم بندگی کریں گے آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی ، اس کو اکیلا معبود مان کر اور ہم اسی کے مسلم ہیں ۔ مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۔ ( آل عمران ، آیت 67 ) ابراہیم نہ یہودی تھا نہ نصرانی ، بلکہ وہ یکسو مسلم تھا ۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل خود دعا مانگتے ہیں: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۔ ( البقرہ ، آیت 128 ) اے ہمارے رب ہم کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو ۔ حضرت لوط کے قصے میں ارشاد ہوتا ہے: فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ ( الذاریات ، آیت 36 ) ہم نے قوم لوط کی بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا حضرت یوسف بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں: تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ۔ ( یوسف ، آیت 101 ) مجھ کو مسلم ہونے کی حالت میں موت دے اور صالحوں کے ساتھ بلا ۔ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں: يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ ۔ ( یونس ، آیت 84 ) اے میری قوم کے لوگو ، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسہ کر اگر تم مسلم ہو ۔ بنی اسرائیل کا اصل مذہب یہودیت نہیں بلکہ اسلام تھا ، اس بات کو دوست اور دشمن سب جانتے تھے ، چنانچہ فرعون سمندر میں ڈوبتے وقت آخری کلمہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے ۔ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ ( یونس ، آیت 90 ) میں مان گیا کہ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلموں میں سے ہوں ۔ تمام انبیاء بنی اسرائیل کا دین بھی یہی اسلام تھا: اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا ۔ ( المائدہ ، آیت 44 ) ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اسی کے مطابق وہ نبی جو مسلم تھے ان لوگوں کے معاملات کے فیصلے رکتے تھے جو یہودی ہوگئے تھے ۔ یہی حضرت سلیمان علیہ السلام کا دین تھا ، چنانچہ ملکہ سبا ان پر ایمان لاتے ہوئے کہتی ہے: اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ ( النمل ، آیت 44 ) میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین کی مسلم ہوگئی ۔ اور یہی حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے حواریوں کا دین تھا: وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ ۚ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ۔ ( المائدہ ، آیت 111 ) اور جبکہ میں نے حواریوں پر وحی کی کہ ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے رسول پر تو انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں اس معاملہ میں اگر کوئی شک اس بنا پر کیا جائے کہ عربی زبان کے الفاظ اسلام اور مسلم ان مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں کیسے مستعمل ہوسکتے تھے ، تو ظاہر ہے کہ یہ محض ایک نادانی کی بات ہوگی ۔ کیونکہ اصل اعتبار عربی کے ان الفاظ کا نہیں بلکہ اس معنی کا ہے جس کے لیے یہ الفاظ عربی میں مستعمل ہوتے ہیں ۔ دراصل جو بات ان آیات میں بتا٤ی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے آیا ہوا حقیقی دین مسیحیت یا موسویت یا محمدیت نہیں ہے بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمان خداوندی کے آگے سر اطاعت جھکا دینا ہے اور یہ رویہ جہاں جس بندہ خدا نے بھی جس زمانے میں اختیار کیا ہے وہ ایک ہی عالمگیر ازلی و ابدی دین حق کا متبع ہے ۔ اس دین کو جن لوگوں نے ٹھیک ٹھیک شعور اور اخلاص کے ساتھ اختیار کیا ہے ان کے لیے موسی کے بعد مسیح کو اور مسیح کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کو ماننا تبدیل مذہب نہیں بلکہ حقیقی دین کے اتباع کا فطری و منقطی تقاضا ہے ۔ بخلاف اس کے جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے گروہوں میں بے سوچے سمجھے گھس آئے یا پیدا ہوگئے اور قومی و نسلی اور گروہی تعصبات نے جن کے لیے اصل مذہب کی حیثیت اختیار کرلی ، وہ بس یہودی یا مسیحی بن کر رہ گئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر ان کی جہالت کی قلعی کھل گئی ، کیونکہ انہوں نے اللہ کے اکری نبی کا انکار کر کے نہ صرف یہ کہ آئندہ کے لیے مسلم رہنا قبول نہ کیا ، بلکہ اپنی اس حرکت سے یہ ثابت کردیا کہ حقیقت میں وہ پہلے بھی مسلم نہ تھے ، محض ایک نبی یا بعض انبیاء کی شخصی گرویدگی میں مبتلا تھے یا آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کو دین بنائے بیٹھے تھے ۔