Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍۢ بَطِرَتۡ مَعِيۡشَتَهَا ‌ۚ فَتِلۡكَ مَسٰكِنُهُمۡ لَمۡ تُسۡكَنۡ مِّنۡۢ بَعۡدِهِمۡ اِلَّا قَلِيۡلًا ؕ وَكُنَّا نَحۡنُ الۡوٰرِثِيۡنَ‏ ﴿58﴾
اور ہم نے بہت سی وہ بستیاں تباہ کر دیں جو اپنی عیش و عشرت میں اترانے لگی تھیں ، یہ ہیں ان کی رہائش کی جگہیں جو ان کے بعد بہت ہی کم آباد کی گئیں اور ہم ہی ہیں آخر سب کچھ کے وارث ۔
و كم اهلكنا من قرية بطرت معيشتها فتلك مسكنهم لم تسكن من بعدهم الا قليلا و كنا نحن الورثين
And how many a city have We destroyed that was insolent in its [way of] living, and those are their dwellings which have not been inhabited after them except briefly. And it is We who were the inheritors.
Aur hum ney boht si woh bastiyan tabah kerdin jo apnay aish-o-ishrat mein itraney lagi thin yeh hain unn ki rehaeesh ki jaghen jo unn kay baad boht kum hi abad ki gaeen aur hum hi hain aakhir sab kuch kay waris.
اور کتنی ہی بستیاں وہ ہیں جو اپنی معیشت پر اتراتی تھیں ہم نے ان کو تباہ کر ڈالا ، اب وہ ان کی رہائش گاہیں تمہارے سامنے ہیں جو ان کے بعد تھوڑے عرصے کو چھوڑ کر کبھی آباد ہی نہ ہوسکیں ، اور ہم ہی تھے جو ان کے وارث بنے ۔
اور کتنے شہر ہم نے ہلاک کردیے جو اپنے عیش پر اترا گئے تھے ( ف۱٤٦ ) تو یہ ہیں ان کے مکان ( ف۱٤۷ ) کہ ان کے بعد ان میں سکونت نہ ہوئی مگر کم ( ف۱٤۸ ) اور ہمیں وارث ہیں ( ف۱٤۹ )
اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اترا گئے تھے ۔ سو دیکھ لو ، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے ، آخرکار ہم ہی وارث ہو کر رہے ۔
اور ہم نے کتنی ہی ( ایسی ) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں ، تو یہ ان کے ( تباہ شدہ ) مکانات ہیں جو ان کے بعد کبھی آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم ، اور ( آخر کار ) ہم ہی وارث و مالک ہیں
سورة القصص حاشیہ نمبر : 82 یہ ان کے عذر کا دوسرا جواب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مال و دولت اور خوشحالی پر تم اترائے ہوئے ہو ، اور جس کے کھوئے جانے کے خطرے سے باطل پر جمنا اور حق سے منہ موڑنا چاہتے ہو ، یہی چیز کبھی عاد اور ثمود اور سبا اور مدین اور قوم لوط کے لوگوں کو بھی حاصل تھی ۔ پھر کیا یہ چیز ان کو تباہی سے بچا سکی؟ آخر معیار زندگی کی بلندی ہی تو ایک مقصود نہیں ہے کہ آدمی حق و باطل سے بے نیاز ہوکر بس اسی کے پیچھے پڑا رہے اور راہ راست کو صرف اس لیے قبول کرنے سے انکار کردے کہ ایسا کرنے سے یہ گوہر مقصود ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہے ، کیا تمہارے پاس اس کی کوئی ضمانت ہے کہ جن گمراہیوں اور بدکاریوں نے بچھلی خوشحال قوموں کو تباہ کیا انہی پر اصرار کر کے تم بچے رہ جاؤ گے اور ان کی طرح تمہاری شامت کبھی نہ آئے گی؟
اہل مکہ کو تنبیہہ اہل مکہ کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ جو اللہ کے بہت سی نعمتیں حاصل کرکے اترا رہے تھے اور سرکشی اور بڑائی کرتے تھے اور اللہ سے کفر کرتے تھے نبی کا انکار کرتے تھے اور اللہ کی روزیاں کھاتے تھے اور اس کی نمک حرامی کرتے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح تباہ وبرباد کردیا کہ آج ان کا نام لینے والا نہیں رہا ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ١١٢؁ ) 16- النحل:112 ) یہاں فرماتا ہے کہ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک اجڑی پڑی ہیں ۔ کچھ یونہی سی آبادی اگرچہ ہوگئی ہو لیکن دیکھو ان کے کھنڈرات سے آج تک وحشت برس رہی ہے ہم ہی انکے مالک رہ گئے ہیں حضرت کعب ( تابعی ) کا قول ہے کہ الو سے حضرت سلیمان نے دریافت فرمایا کہ تو کھیتی اناج کیوں نہیں کھاتا اس نے کہا کہ اس لئے کہ اسی کے باعث حضرت آدم جنت سے نکالے گئے پوچھاپانی کیوں نہیں پیتا ؟ کہا اس لئے کہ قوم نوح اسی میں ڈبودی گئی ۔ پوچھا ویرانے میں کیوں رہتا ہے؟ کہا اس لیے کہ وہ اللہ کی میراث ہے ۔ پھر حضرت کعب نے آیت ( وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ 58؀ ) 28- القصص:58 ) پڑھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل وانصاف کو بیان فرما رہا ہے کہ وہ کسی کے ظلم سے ہلاک نہیں کرتا پہلے ان پر اپنی حجت ختم کرتا ہے اور ان کا عذر دور کرتا ہے ۔ رسولوں کو بھیج کر اپناکلام ان تک پہنچاتا ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عام تھی آپ ام القریٰ میں مبعوث ہوئے تھے ۔ اور تمام عرب وعجم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جیسے فرمان ہے آیت ( لتنذر ام القریٰ ومن حولھا ) تاکہ تو مکہ والوں کو اور دوسرے شہر والوں کو ڈرادے اور فرمایا آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) کہہ دے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور آیت میں ہے ( لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ 19؀ۘ ) 6- الانعام:19 ) تاکہ اس قرآن سے میں تمہیں بھی ڈرادوں اور ہر اس شخص کو جس تک یہ قرآن پہنچے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ 17؀ ) 11-ھود:17 ) اس قرآن کے ساتھ دنیا والوں میں سے جو بھی کفر کریں اس کے وعدے کی جگہ جہنم ہے ۔ اور جگہ اللہ کا فرمان ہے آیت ( وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا 58؀ ) 17- الإسراء:58 ) یعنی تمام بستیوں کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کرنے والے ہیں یا سخت عذاب کرنے والے ہیں ۔ پس خبر دی کہ قیامت سے پہلے وہ سب بستیوں کو برباد کردے گا ۔ اور آیت میں ہے کہ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے ۔ پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو عام کردیا اور تمام جہاں کے لئے کردیا اور مکہ میں جو کہ تمام دنیا کا مرکز ہے آپ کو مبعوث فرما کر ساری دنیا پر اپنی حجت ختم کردی ۔ بخاری ومسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ میں تمام سیاہ سفید کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ اسی لئے نبوت ورسالت کو آپ پر ختم کردیا آپ کے بعد سے قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول ۔ کہا گیا کہ مراد ام القری سے اصل اور بڑا قریہ ہے ۔